|

وقتِ اشاعت :   December 23 – 2015

کوئٹہ:بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جناب جسٹس محمد نور مسکانزئی اور جسٹس جناب جسٹس محمد ہاشم خان کاکڑ پر مشتمل ڈویژنل بنچ نے سوئی سدرن گیس کمپنی کے حکام کو ہدایت کی ہے کہ چاہے کچھ بھی ہو وہ گھریلو صارفین کو گیس کی فراہمی کیلئے فوری میکنزم بناتے ہوئے اقدامات اٹھائیں یہ ریمارکس ڈویژنل بنچ نے گزشتہ روز سینئر قانون دان علی احمد کرد ایڈووکیٹ  صابرہ اسلام ایڈووکیٹ  سید نذر آغا ایڈووکیٹ  منظور بلوچ ایڈووکیٹ اور قیوم کاکڑ کی جانب سے کوئٹہ سمیت بلوچستان کے سرد اضلاع میں گیس لوڈ شیڈنگ پریشر کی کمی اور تیز میٹرز لگائے جانے سے متعلق دائر متفرق آئینی درخواستوں کی سماعت کے موقع پر دیا سماعت کے موقع پر سوئی سدرن گیس کمپنی کی جانب سے ڈسٹری بیوشن ٹرانسمیشن اور دیگر کے حکام نثار احمد  عدنان صغیر  عاصم اقبال  آغا محمدبلوچ  درخواست گزاران  اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل شے حق بلوچ اور دیگر بھی پیش ہوئے سوئی سدرن گیس کمپنی کی جانب سے حکام نے موقف اختیار کیا کہ انہیں جتنی گیس کنوؤں سے ملے گی وہ اتنی ہی عوام کو سپلائی کرینگے گیس کنویں وفاقی حکومت کی ملکیت ہے جس پر جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیئے کہ سوئی سدرن گیس کمپنی کے حکام یہ بتائیں کہ سو یونٹ کے الگ دو سو کے الگ جبکہ تین سو یونٹس کے ریٹس بہت زیادہ وصول کئے جاتے ہیں میٹرز ریڈرز آتے ہی نہیں اور کئی مہینوں کے بعد آتے ہیں تو یکمشت صارفین کو سینکڑوں یونٹس کے بلز بھجوا دیئے جاتے ہیں اس طرح گھریلو صارفین سے کمرشل صارفین جتنابل وصول کرنے کا ڈرامہ ہوتا ہے اس فراڈ سے کس طرح آنکھیں بند کی جاسکتی ہیں اس موقع پر سوئی سدرن گیس کمپنی کے جنرل منیجر آغا محمدبلوچ نے کہاکہ پہلے میٹرز کارڈز ہوا کرتے تھے مگر اب ریڈنگ ہوتی ہے اگر کسی صارف کے یونٹس ایک دم بہت زیادہ نوٹ کئے جائیں تو اس میٹر کی ایک دو ماہ تک نگرانی کی جاتی ہے تاکہ حقائق کا پتہ چلایا جاسکے چیف جسٹس محمد نور مسکانزئی نے کہاکہ آپ لوگ میٹرز دیکھو گے تو ہر ماہ بعد بل بھیجو گے جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہاکہ یہ ملک کی تاریخ کا سب سے بڑا سکینڈل ہے بتایا جارہا ہے کہ سب سے زیادہ گیس چوری ڈیفنس میں ہوتی ہے گیس بجلی تعلیم پانی اور دیگر سہولیات عوام کے بنیادی حقوق میں سے ہیں جن کی فراہمی بہر صورت ممکن بنائی جائے انہوں نے کہاکہ ایک صورت یہ بھی ہے کہ اس معاملے کو نیب کے حوالے کیا جائے انہوں نے ہدایت کی کہ ہرماہ باقاعدگی سے میٹر ریڈنگ کی جائے اگر صارفین کو بل نہ بھجوائے جاسکے یا انہیں بل نہ ملیں تو پھر ہر مہینے کے یونٹس کا الگ الگ اس سے بل وصول کیا جائے یکمشت تمام یونٹس کو اکٹھا شمار کرکے گھریلو صارفین سے کمرشل صارفین کی طرز پر بل کسی صورت وصول نہ کئے جائیں علی احمد کرد ایڈووکیٹ نے بھی اس موقع پر اعتراض کیا اورکہاکہ اگر گھریلو صارف تین سو یونٹ سے زیادہ گیس استعمال کریں تو اسے کمرشل صارف جتنا بل کیوں وصول کیا جاتا ہے اس موقع پر جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیئے کہ پالیسی بڑی خوبصورت بنائی جاتی ہے مگر وہ ہوتی صرف کتابوں تک ہی محدود ہے چیف جسٹس محمد نور مسکانزئی نے ایس ایس جی سی کے حکام سے استفسار کیا کہ وہ بتائیں کہ پنجاب حکومت کی جانب سے مسترد کئے گئے نئے اور بقول درخواست گزاران ایف سولہ جیسے تیز میٹرز بلوچستان میں کیوں لگائے گئے اگر پائپ لائنوں میں کاربن جمع ہونے سے گیس کی رفتار سست ہوتی ہے تو پھر بتایا جائے کہ آج تک کس گاؤں محلے یا علاقے کی گیس پائپ لائن کو اس بناء پر تبدیل کیا گیا ہے اس پر ایس ایس جی سی کے جنرل منیجر آغا محمد بلوچ نے کہاکہ وہ میٹرز پانچ سال کے بعد پرانے ہوتے ہیں جنہیں بدلنا پڑتا ہے یا پھر جو میٹرز ٹیمپر کئے جاتے ہیں انہیں بھی وہ تبدیل کرتے ہیں جس پر چیف جسٹس نے کہاکہ اگر صارفین میٹرز ٹیمپر کرتے ہیں تو ان کیخلاف مقدمات درج کرکے انہیں جیل بھیج دیا جائے علی احمد کرد ایڈووکیٹ نے کہاکہ تیز رفتار میٹرز صارفین کی اجازت کے بغیر لگا دیئے جاتے ہیں اسی لئے گھریلو صارفین کو 7 سو یونٹس تک کے بل آرہے ہیں انہوں نے کہاکہ گیس کمپنی کے حکام کو صورتحال کا ادراک نہیں انہیں یہاں ایسے علاقے میں چوبیس گھنٹے میں ٹھہرایا جائے جہاں گیس پریشر ہی نہیں تو انہیں لوگوں کے مسائل کا بخوبی علم ہوجائیگا انہوں نے کہاکہ گزشتہ روز قلات کے راستے کوئٹہ آرہے تھے کہ لوگوں نے گیس پریشر کی کمی اور لوڈ شیڈنگ کیخلاف روڈ کئے رکھا تھا جس کیلئے ایف سی کو وہاں آکر مظاہرین کو ہٹانا پڑا اس موقع پر جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہاکہ قلات والوں کو تو پچھلے سال ہی گیس نصیب ہوئی ہے غریب عوام گیس کے ذریعے ہی اپنی گھریلو ضروریات پوری کرتے ہیں بتایا جائے کہ بجلی کی طرح چند گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ کے ذریعے کیا صورتحال میں بہتری نہیں آسکتی اس موقع پر ایس ایس جی سی کے عاصم اقبال نے کہاکہ سردیوں میں قدرتی طور پر گیس کنوؤں سے بھی کم پریشر کیساتھ نکلتی ہے انہیں پتہ نہیں ہوتا کہ کتنی گیس اور کس پریشر سے نکلے گی جس پر جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہاکہ اگر ہم دیکھیں تو کوئٹہ شہر کے مختلف علاقوں میں ایلیٹ کلاس کے لوگوں کیلئے کوئی مسئلہ نہیں حالانکہ پبلک کے ہی ٹیکسز کی وجہ سے ہمیں تنخواہیں اور دیگر مراعات ملتی ہیں بہتر ہے کہ ان کا منہ نہ کھلوایا جائے ایس ایس جی سی کے جنرل منیجر آغا محمد بلوچ نے کہاکہ جو علاقے مین لائنوں سے دور ہیں وہاں گیس پریشر کا مسئلہ عوام کو درپیش ہے جس پر جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہاکہ وہ ایسی بات نہ کریں مین گیس پائپ لائن سبزل روڈ سے گزرتی ہے مگر وہ جاکر دیکھیں تو وہاں کے عوام کو بھی گیس نصیب نہیں بتایا جاتا ہے کہ بلوچستان کو 190 ایم ایم گیس کی ضرورت ہے مگر اسے 140 ایم ایم گیس مل رہی ہے چیف جسٹس نے کہاکہ اگر سی این جی اسٹیشنز دیگر صوبوں کی طرح یہاں بھی بند کردیئے جائیں تو کیا صارفین سے اس کو فائدہ ہوگا انہوں نے کہاکہ آئین کے تحت سب سے پہلا حق کسی بھی قسم کے قدرتی وسائل پر مقامی لوگوں کا ہی ہوتا ہے جبکہ جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہاکہ بتایا جائے کہ ایک دکاندار یا امیر آدمی کس طرح آخر ایک غریب آدمی سے زیادہ اہم اور معتبر ہوسکتا ہے علی احمد کرد ایڈووکیٹ نے کہاکہ گیس کمپنی والے بلوں کی مد میں ایک روپے بھی چھوڑنے کو تیار نہیں مگر گیس کی سپلائی نہیں کی جاتی جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہاکہ گیس کمپنی والوں سے ہر مسئلے کا حساب لیا جائیگا آغا محمدبلوچ نے کہاکہ کوئٹہ میں ان کے 21 اسٹیشنز ہیں پروفائلنگ کرکے مختلف علاقوں میں گیس کی بندش کی جائے تو دیگر کا مسئلہ حل ہوسکتا ہے ہمیشہ شارٹ فال کا سامنا ہے اس لئے ہمیں پروفائلنگ کرنا ہوگی جس پر عدالت کے ججز نے انہیں پروفائلنگ سے متعلق تحریری پرپوزل اگلی سماعت پر جمع کرنے کی ہدایت کی جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہاکہ ہم چاہتے ہیں کہ غریب اور گھریلو صارفین کو ہی گیس صحیح ملے یہ جو پروفائلنگ (لوڈ شیڈنگ شیڈول) ہوگا اسے تین مہینوں کیلئے ہی مرتب کیا جائے جس علاقے میں لوڈ شیڈنگ ہوگی وہاں سی این جی اسٹیشن سمیت کسی بھی کمرشل صارف کو گیس نہیں ملے گی تمام کیساتھ ایک جیسا سلوک ہوگا سماعت کے دوران سید نذیر آغا ایڈووکیٹ نے عدالت سے استدعا کی کہ وہ گیس کمپنی حکام سے زیارت پشین اور دیگرمیں چوبیس گھنٹوں میں صرف تین گھنٹے بارے پوچھے جسٹس ہاشم کاکڑ استفسار کیا کہ ماڑی گیس فیلڈ سے 24 ایم ایم گیس ملنی تھی جو نہیں ملی اس سلسلے میں اگلی سماعت پر پیراوائز کمنٹس داخل کئے جائیں جبکہ علی احمد کرد نے کہاکہ لوڈ شیڈنگ ایک نیا بہانہ ہوگا جس سے حالات مزید خراب ہونگے تو کمپنی حکام نے کہاکہ لوڈ شیڈنگ بارے میڈیا کا سہارا لیا جائیگا اور اس کی پابندی کی جائیگی علی احمد کرد نے کہاکہ کمپنی حکام کوئٹہ کے بعض علاقوں میں گیس لوڈ شیڈنگ نہیں کرسکتے جس پر کمپنی حکام نے کہاکہ عدالت کے احکامات جاری کرے تو کوئٹہ چھاؤنی سمیت ہر علاقے میں لوڈ شیڈنگ کی جائیگی جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہاکہ گیس غریبوں کو دے دو ان کی فکر نہ کی جائے علی احمد کرد ایڈووکیٹ نے کہاکہ لوڈ شیڈنگ سے گیس لیکج سے افسوسناک واقعات رونما ہونگے اگر کوئی بھی جانی نقصان ہوا تو اس کی ذمہ داری کمپنی حکام پر عائد ہوگی جس پر عدالت نے کہاکہ یہ لوڈ شیڈنگ سے متعلق تجاویز دینگے جس پر مشاورت کی جائیگی اور بعد ازاں عدالت احکامات دے گی علی احمد کرد سمیت دیگر اداروں پر اعتماد کرے علی احمد کرد ایڈووکیٹ کی جانب سے تیز میٹرز لگائے جانے پر عدالت کے ججز نے جن صارفین کو یہ اعتراض ہے کہ ان میٹرز تیز چل رہے ہیں یا پھر خراب ہیں وہ کمپنی کو درخواستیں دیں کمپنی اس بات کی پابند ہے کہ وہ ان کی شکایات اور تحفظات کرسکے اس موقع پر عدالت میں ماڑی گیس کمپنی کے افسر نے پیش ہوکر موقف اختیار کیا کہ زرغون کے علاقے میں دو کنوؤں سے 11.37 ایم ایم گیس مل رہی ہے جسے وہ کمپنی کو فراہم کررہے ہیں انہوں نے کہاکہ ان کے پاس تیسرے کنویں کے سٹارٹ ہونے کے بعد 25 ایم ایم تک گنجائش نکل سکتی ہے اس موقع پر عدالت نے سریاب کی رہائشی شبانہ نے شکایت کی کہ سریاب کے علاقے میں تیز میٹرز سے لوگوں کو پریشانی کا سامنا ہے جس پر جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہاکہ اگر ایسا کوئی مسئلہ تھا تو صارفین کو گیس کمپنی سے ریکوری کرائی جائیگی اس لئے عدالت اس سلسلے میں کمپنی حکام کو ہدایات دیں بعد ازاں کیس کی سماعت کو 19 جنوری تک کیلئے ملتوی کردیا گیا ۔