|

وقتِ اشاعت :   December 24 – 2015

اسلام آباد : پارلیمنٹ کے ایوان بالا سینٹ میں ارکان نے عوامی اہمیت کے مسائل پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اکتوبر 2005 کے زلزلہ متاثرین کے لئے ابھی تک بالا کوٹ نیو سٹی تعمیر نہ ہو سکا ہے ۔ ہیوی میکنیکل کمپلیکس کے ملازمین گزشتہ تین ماہ سے تنخواہوں سے محروم ہیں۔ بلوچستان کو وفاق کی جانب سے فنڈز فراہم نہیں کئے جا رہے ہیں۔ دیگر ممالک کے ساتھ آزاد تجارتی معاہدوں سے پاکستان کو نقصان پہنچ رہاہے۔ پی آئی اے کے بلوچستان میں پروازوں کا شیڈول تبدیل کیا جائے۔سینٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے سینیٹرجنرل(ر ) صلاح الدین ترمزی نے کہا کہ ایوان میں آ کر اپنے آپ کو بے بس محسوس کر رہا ہوں ۔ بالا کوٹ سٹی کے بارے میں قرار داد کمیٹی کے سپرد کرنے کے احکامات دیئے تھے مگر آٹھ ماہ کا عرصہ گزر جانے کے باوجود کمیٹی کا اجلاس نہ ہو سکا لہذا میں احتجاجاً کمیٹی سے استعفی دیتا ہوں ۔ انہوں نے کہا کہ مشرف کی گود میں پلنے والے اس تاخیر کے ذمہ دار ہیں اس کی انکوائری ہونی چاہئے ۔ سینیٹر میر کبیر نے کہا کہ بلوچستان مزید پسماندگی کی سمت جا رہا ہے میرے زیادہ تر مسائل کا تعلق وفاقی حکومت سے ہے ہمارے مسائل حل نہیں کئے جا رہے ہیں انہوں نے کہا کہ بلوچستان کا 80 فیصد پانی خشک ہو چکا ہے ڈیمز بنانے کی اشد ضرورت ہے سینیٹر جہانزیب جمالدین نے کہا کہ گوادر میں مقامی افراد کا کارڈ کے بغیر آنا جانا ممکن نہیں ہے مچھیروں کو سمندر میں آنا جانا مشکل ہو گیا ہے مقامی لوگ آٹھ دس چیک پوسٹوں سے گزر کر اپنے گھر جاتے ہیں ہر قسم کے سیاسی جلسے جلوسوں پر مکمل پابندی عائد ہے انہوں نے کہا کہ ایک جانب گوادر کو بین الاقوامی سطح کی پوزیشن دی جا رہی ہے مگر دوسری جانب گوادر کے باسیوں کو محبوس کیا جا رہا ہے گوادر میں گندم کی ایک بوری کی قیمت چار ہزار سے تجاوز کر چکی ہے گوادر ہمارے ملک کا حصہ ہے وہاں کے حالات کو نارمل کیا جائے چیک پوسٹوں میں کمی کی جائے ۔ سینیٹر نعمان وزیر نے کہا کہ سینٹ کے کچھ ممبران مختصر وقت کے لئے آتے ہیں اور حاضری لگا کر چلے جاتے ہیں اس کا نوٹس لینا چاہئے انہوں نے کہا کہ وزارت تجارت نے بیرون ممالک کے ساتھ جتنے معاہدے کئے ہیں ان میں پاکستان کو نقصان ہوا ہے۔ آزاد تجارت کے تمام معاہدوں کو ازسر نو دیکھا جائے اور پاکستانی صنعت کاروں کا تحفظ کیا جائے انہوں نے کہا کہ ملک میں سمگلنگ کی وجہ سے مقامی صنعت تباہ ہو رہی ہے تمام باڑہ مارکیٹوں کو بند کیا جائے تاکہ مقامی صنعت کار نقصانات سے بچ سکیں ۔ سینیٹر کلثوم پروین نے کہا کہ پی آئی اے کے شیڈول کی وجہ سے پارلیمنٹ کے اراکین کو مشکلات کا سامنا ہے بلوچستان جانے والی پروازوں کا شیڈول ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے انہوں نے کہا کہ یہ مسئلہ تین بار پہلے بھی بیان کر چکی ہیں مگر کوئی شنوائی نہیں ہوئی ہے۔ سینیٹر خالدہ پروین نے کہا کہ ہمارا معاشرہ مختلف برائیوں کی جڑ بن چکا ہے اگر ہم اسلامی تعلیمات پر عمل کریں تو پاکستان ایک بہترین قوم بن سکتی ہے۔ سینیٹر سعید غنی نے کہا کہ ہیوی میکنیکل کمپلیکس کے ملازمین کو گزشتہ تین مہینوں سے تنخواہیں نہیں ملی ہیں موجودہ حکومت نے اقتدار میں آنے کے بعد اداروں کی حالت زار درست کرنے کی بجائے مزید تباہی کی جانب دھکیل دیا ہے جس کا مقصد ان اداروں کی نجکاری کرنا ہے انہوں نے کہاکہ اس وقت پاکستان سٹیل ملز ، پاکستان مشین ٹول فیکٹری اور ہیوی میکنیکل کمپلیکس کے ملازمین کو تنخواہوں کی عدم ادائیگی کی صورت میں تنگ کیا جا رہا ہے حکومت ان اداروں کو نہیں چلانا چاہتی ہے یا نہیں ملازمین کو فوری طور تنخواہوں کی ادائیگی کرے ۔ سینیٹر طاہر مشہدی نے کہا کہ سندھ حکومت کو اپنے ایک سابق سینیٹر کے لئے جہاد کرنے پر ایوارڈ ملنا چاہئے ایم کیو ایم کے ساتھ ہونے والے مظالم پر سندھ میں پی پی حکومت ہمیشہ خاموش رہی ہے انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت بہت اچھی جمہوری روایات اپنا رہی ہے متحدہ کے 26 ممبران اور سینیٹرز کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کئے ہیں اور ان کا قصور یہ ہے کہ قائد تحریک الطاف حسین کی تقریر سنی ہے انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم نے ہمیشہ مقدمات کا سامنا کیا ہے اور کرتے رہیں گے انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم آپریشن کی حامی ہے تاہم آپریشن پر مانیٹرنگ ہونی چاہئے آپریشن کرنے والوں کو بھی قانون کے مطابق اقدامات کرنے چاہئے ۔سینیٹر الیاس بلور نے کہا کہ بیرونی امداد لینے والے مدارس کو فوری طور پر بند کیا جائے پورے ملک میں بغیر کسی تفریق کے دہشت گردی اور فرقہ واریت پھیلانے والوں کا خاتمہ کیا جائے انہوں نے کہا کہ افغانستان اور پاکستان میں تعلقات کو بہت اہمیت دینی چاہئے اگر افغانستان کے حالات خراب ہوں تو پاکستان میں بھی امن قائم نہیں ہو سکتا ہے انہوں نے کہا کہ سابقہ دور میں اے این پی کی قیادت نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بڑی قربانیاں پیش کی ہیں ملک میں ایسے بھی لوگ ہیں جو ان دہشت گردون کے ساتھ مذاکرات کے حامی تھے اور یہاں تک کہا گیا کہ اگر مین وزیر اعظم بنا تو ان کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لوں گا ۔ انہوں نے کہا کہ اگر اے این پی کے مطالبے پر پہلے ہی عمل کیا جاتا تو یہ حالات نہ ہوتے اور آرمی پبلک سکول کے معصوم بچے شہید نہ ہوتے انہوں نے کہا کہ ہمارے دور میں سوات آپریشن کے بعد تمام متاثرین کو واپس بجھوا دیا گیا مگر وزیرستان کے قبائلی گزشتہ دو سالوں سے کیمپوں میں مقیم ہیں ان کو اپنے علاقوں میں جلد از جلد بجھوانے کی اقدامات کئے جائیں ۔