|

وقتِ اشاعت :   January 10 – 2016

 اسلام آباد: پاک چین اقتصادی راہدرای کے حوالے سے بلوچستان نیشنل پارٹی کی جانب سے چھوٹے صوبوں کے تحفظات کے حوالے سے بلائی گئی آل پارٹیز کانفرنس کا اعلامیہ جاری کردیا گیا ہے۔ پاک چین اقتصادی راہداری کے حوالے سے چھوٹے صوبوں کے تحفظات کے حوالے سے بلائی گئی اے پی سی کا مشترکہ اعلامیے جاری کردیا گیا ہے۔ اعلامیے کے مطابق اے پی سی کے دوران تمام جماعتوں کی جانب سے متفقہ طور پر منظور کی گئی قرارداد میں وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے بلائی گئی آل پارٹیز کانفرنس میں کئے گئے وعدے پورے کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ قرارداد میں بلوچستان کے عوام کو اقلیت میں تبدیل کرنے سے روکنے کے لئے قانون سازی کرنے، مقامی منصوبوں میں گوادر کے عوام کو ملازمتوں میں ترجیح دینے اور گوادر کے ماہی گیروں کے لئے متبادل روزگار کا انتظام کرنے کی بھی منظوری دی گئی ہے۔ اے پی سی کی منظور کی گئی قرارداد میں مزید کہا گیا ہے کہ گوادر کے لوگوں کو فنی تعلیم فراہم کی جائے، دیگر صوبوں میں مفت وظائف فراہم کئے جائیں، گوادر کے لوگوں پر عائد سیاسی سرگرمیوں پر پابندی ختم کی جائے اور گوادر کے لوگوں کی ہزاروں ایکڑ زمین ان کے حوالے کی جائے۔ قرارداد میں اس بات کی بھی منظوری دی گئی کہ سرمایہ کاری میں مقامی لوگوں کی شراکت داری یقینی بنائی جائے جب کہ گودار کے شہریوں کو نئے شناختی کارڈ جاری کرنے کی گئی اور گوادر کے عوام کو تقسیم کرنے کی پالیسی کی مخالفت کی گئی۔ قبل ازیں اے پی سے سے خطاب کرتے ہوئے بی این پی مینگل کے سینیٹر جہانزیب جمالدینی نے کہا کہ 85 فیصد بلوچ پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں، 80 فیصد بلوچ علاقوں میں گیس نہیں جب کہ 60 فیصد بلوچ علاقے بجلی سے محروم ہیں۔ 63 فیصد بلوچ غربت کی لکیرکے نیچے زندگی بسرکررہے ہیں۔ ہم اقتصادی راہداری کے خلاف نہیں لیکن بلوچستان کو اس کا جائز حق ملنا چاہیے، صوبے میں 12ہزار افراد پر مشتمل سیکیورٹی ڈویژن بنایا جارہا ہے لیکن اس میں بلوچستان سے کسی کو بھرتی نہیں کیا جارہا، گوادر میں ترقیاتی کاموں پر کچھ خاص کام نہیں ہوا،گوادر کی تصویر کو دیکھا جائے تو چند مکانات کے علاوہ باقیوں کی حالت ابتر ہے، گوادر کو اقتصادی راہدری میں سے کوئی حصہ نہیں دیا جا رہا ،گوادر کی ملکیت بلوچستان کودی جائے۔ بلوچستان سے استحصال کا فوری خاتمہ کیا جائے، بندرگاہوں اور قدرتی وسائل بارے صوبے کو بااختیار بنایا جائے، گوادر کے مقامی لوگوں کو حق رائے دہی دیا جائے اور صوبے میں جغرافیائی تبدیلیوں کو بند کیا جائے۔ نیشنل پارٹی کے حاصل بزنجو نے کہا ہے اقتصادی راہداری منصوبہ بلوچستان کے تشخص کا مسئلہ ہے، اگر 18 ویں ترمیم پر عمل درآمد کردیا جائے تو تمام معاملات خود بخود حل ہو جائیں گے۔ جے یو پی کے اویس احمد نورانی نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے بلوچستان حکومت کو پیکج دیا مگر اس پر عملدرآمد نہیں ہوا، کانفرنس کے بعد ایک کمیٹی تشکیل دینی چاہیے جو وزیراعظم کو تحفظات سے آگاہ کرے۔ ک وفاقی وزیراحسن اقبال نے کہا کہ اقتصادی راہداری کےسیاسی جماعتوں کےدکھائےگئےنقشےدرست نہیں، اقتصادی راہداری منصوبے کے تحت بلوچستان کے حصے میں 7.1 ارب ڈالر کے منصوبوں پر کام ہورہا ہے جو کل رقم کا 21 فیصد بنتا ہے۔ توانائی منصوبوں میں کوئلےکے منصوبوں کو ترجیح دی گئی ہے، کوئلے کے منصوبوں سے سستی اورجلد بجلی دستیاب ہوسکتی ہے۔ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک نے اے پی سی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی ترقی میں ہماری ترقی ہونی چاہیے، ہمیں سوچنا ہوگا کہ یہ نوبت کیوں آئی۔ اعلان کیاگیا کہ مغربی روٹ پہلے بنے گا ہم نے یقین کر لیا ۔ ہمارا حق تھا کہ منصوبے کی پہلی اینٹ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں رکھی جاتی۔ وہ صوبے کے وزیراعلیٰ ہیں مگر ان سے کسی نے رابط نہیں کیا، وہ ذاتی حیثیت میں چین کے سفیر سے ملے لیکن ان کا جواب بتایا نہیں جاسکتا۔ ۔ بلوچستان میں ایک سڑک کا افتتاح کیا گیا جس کو مغربی روٹ کا نام دیا گیا 46 ارب تقسیم ہو چکے ہیں اور ہم یہاں بیٹھے ہیں۔ پرویز خٹک نے کہا کہ کے پی کے اور بلوچستان کو پسماندہ رکھا جارہاہے اور صرف پنجاب میں منصوبے کیوں بنائے جا رہے ہیں۔ کیا ہم اندھے یا نا سمجھ ہیں جو ہمیں سمجھ نہیں آتی، ہم ملک کے خلاف یا غدار نہیں لیکن حقوق کی بات کریں تو ہمیں غدار کہا جاتا ہے، صاف بتا دیں کہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا کو ترقی دینا ہے یا نہیں، ان کے صوبے میں سڑکیں اور سہولیات نہیں ہوں گی تو کیسے انڈسڑیل زون بنائیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں صرف نقشوں میں لائنیں دکھا کر خوش نا کیا جائے بلکہ حقائق سے آگاہ کیا جائے، افسوس ہے کہ مشاہد حسین سید سے بھی انصاف نہیں ملا، ہمارے تحفظات دور کر دیئے جائیں، تحفظات کا اظہار نہیں کریں گے لیکن اگر تحفظات دور نہ کئے گئے تو اندر ہی اندر لاوا پکتا رہے گا۔