|

وقتِ اشاعت :   January 12 – 2016

مدایا: اقوام متحدہ کے فلاحی امور کے سربراہ اسٹیفن اوبرائن کا کہنا ہے کہ شامی قصبے مدایا میں محصور تقریباً 400 افراد کو طبی امداد کے لیے فوری طور پر انخلاء کی ضرورت ہے۔ امریکی خبر رساں ادارے کے مطابق اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل میں شامی بحران پر بریفنگ دیتے ہوئے اوبرائن نے خبردار کیا کہ وہ لوگ موت کے منہ میں جاسکتے ہیں۔ اس سے قبل شام کے قحط زدہ شہر مدایا میں اقوام متحدہ کا امدادی سامان پہنچایا گیا، جہاں 30 ہزار سے زائد شہری گزشتہ کئی ہفتوں سے خوراک کی کمی کا شکار ہیں۔ اقوام متحدہ کےمطابق اسے اس علاقے میں لوگوں کے بھوک سے مرنے کی معتبر رپورٹس موصول ہوئی ہیں۔ مدایا کے ساتھ ساتھ امدادی قافلے صوبہ ادلب کے اُن دو قصبوں میں بھی پہنچایا گیا جہاں باغی فورسز کا کنٹرول ہے۔ ادلب کے علاقوں فوا اور کیفرایہ میں گذشتہ برس مارچ سے تقریباً 20 ہزار لوگ محصور ہیں اور یہاں بھی خوراک اور بنیادی انسانی ضروریات کی شدید کمی کا سامنا ہے۔ اوبرائن، نیویارک میں اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹرز میں سیکیورٹی کونسل کے شامی بحران پر بلائے گئے ایک ہنگامی اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔ انھوں نے کہا کہ انھیں اقوام متحدہ کے ہیومنیٹیرین کوآرڈینیٹر یعقوب ال ہلو کے ذریعے معلوم ہوا ہے کہ مدایا کے ہسپتال میں تقریباً 400 ایسے لوگ موجود ہیں جن کا طبی امداد کے لیے فوری طور پر انخلاء کیا جانا چاہیے۔ واضح رہے کہ مدایا میں محصور کچھ افراد کو جانے کی اجازت دی گئی ہے، تاہم وہ اپنے سامان کے ساتھ انخلاء کے منتظر ہیں۔

کیا آپ کھانا لائے ہیں؟

اقوام متحدہ کے زیر انتظام، انٹرنیشنل کمیٹی آف دی ریڈ کراس (آئی سی آر سی)، شامی ریڈ کریسنٹ اور ورلڈ فوڈ پروگرام کی 44 گاڑیوں پر مشتمل قافلہ خوراک، ادویات، کمبل، خیمے اور صابن وغیرہ پر مشتمل سامان لے کر پیر کو مدایا پہنچا تھا۔ ریڈ کریسنٹ کے ترجمان پاول کریشیک کے مطابق یہاں لوگوں کی صورتحال دیکھنا بہت اذیت ناک ہے۔ ایک چھوٹی سی لڑکی میرے پاس آئی اور اس نے سب سے پہلا سوال یہ کیا، ‘کیا آپ کھانا لائے ہیں’؟ دوسری جانب یعقوب ال ہلو کے مطابق اقوام متحدہ کے عملے نے قصبے میں بھوک سے مرتے ہوئے بچوں کو دیکھا ہے۔ یاد رہے کہ گذشتہ ہفتے مدایا سے سامنے آنی والی رپورٹ میں انکشاف ہوا تھا کہ یہاں چاول ‘گرام’ کے حساب سے فروخت ہوتے ہیں کیوںکہ ایک کلو گرام چاول کی قیمت 250 ڈالرز (تقریباََ 25 ہزار پاکستانی روپے) تک جا پہنچی ہے۔ قصبے میں کام کرنے والے ایک سماجی کارکن لوئے نے برطانوی اخبار گارجین کو ٹیلی فون پر بتایا تھا،” یہاں لوگ آہستہ آہستہ موت کے منہ میں جارہے ہیں”. لوئے کی آواز بھی کئی مہینوں کے فاقوں اور خوراک کی کمی کے باعث انتہائی نحیف تھی. فوٹو/ بشکریہ شامی آبزرویٹری گروپفوٹو/ بشکریہ شامی آبزرویٹری گروپ لوئے کے مطابق لوگ بھوک مٹانے کے لیے پانی کے ساتھ پتے اور گھاس پھوس کھانے پر مجبور ہیں، بہت سے افراد نے تو اپنے پالتو جانوروں کو ہی ذبح کرکے کھا لیا ہے. انھوں نے فاقوں سے ہلاک ہونے والے کئی عمر رسیدہ مردوں کے لاغر جسموں کی تصاویر بھی بھیجیں، اگرچہ لوئے نے یہ تصاویر خود نہیں لیں تاہم ان کا کہنا تھا کہ یہ افراد علاقے میں کافی معروف تھے. لوئے نے بتایا،” ہم کہتے تھے کہ کوئی بھی بھوک سے نہیں مر سکتا لیکن ہم نے حقیقت میں لوگوں کو بھوک کی وجہ سے مرتے ہوئے دیکھا ہے”.
مدایا میں بھوک سے نڈھال ایک بچے کی تصویر—۔فوٹو/ اے پیمدایا میں بھوک سے نڈھال ایک بچے کی تصویر—۔فوٹو/ اے پی

شام میں کیا ہو رہا ہے؟

شامی قصبے مدایا میں گذشتہ برس جولائی سے 30 ہزار سے زائد افراد پھنسے ہوئے ہیں، جہاں حکومت کی حامی فورسز نے محاصرہ کر رکھا ہے۔ مقامی افراد کے مطابق وہ ایک پیچیدہ پاور پلے کے دوران پس رہے ہیں اور ہزاروں میل دور موجود دو گاؤں میں حکومت مخالف فورسز کی کارروائیوں کی وجہ سے انھیں مشکلات جھیلنی پڑ رہی ہیں۔ گذشتہ برس بہار کے موسم میں جیش الفتح کے نام سے ایک باغی اتحاد نے شام کے شمال مغرب میں ایک بڑے علاقے پر قبضہ کرتے ہوئے ادلب صوبے کے دو علاقوں فوا اور کیفرایہ کا محاصرہ کرلیا تھا، جہاں کے رہائشی بھی اُس وقت سے محصور ہیں۔ جبکہ مدایا دمشق کے شمال مغرب میں تقریباً 25 کلومیٹر دور واقع ہے۔ گذشتہ جولائی سے شامی فوج اور اُس کی لبنانی اتحادی شیعہ تنظیم حزب اللہ نے اِس علاقے کا محاصرہ کر رکھا ہے۔ تاہم ایک سیز فائر معاہدے کے تحت دونوں فریقوں نے ان علاقوں سے زخمی افراد کو نکالنے اور امداد کی فراہمی کے لیے محفوظ راستے کے حوالے سے اتفاق کیا۔ مقامی افراد کے مطابق امدادی قافلوں کو مدایا، زبدانی، فوا اور کیفرایہ پہنچنے کی اجازت دی گئی لیکن امدادای سامان تھوڑے دن میں ہی ختم ہوجاتا ہے۔