|

وقتِ اشاعت :   January 16 – 2016

کوئٹہ: وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ خان زہری نے کہا ہے کہ حکومت صوبے سے دہشت گردی کے خاتمے کے ساتھ ساتھ پولیوکے مکمل تدارک کے لئے بھی پر عزم ہے۔ گذشتہ دنوں پولیو مرکز کے قریب ہونے والے بم دھماکے اور سیکورٹی اہلکاروں کی شہادت کے باوجود جاری پولیو مہم کو کامیابی کے ساتھ مکمل کیا گیا جسے وفاقی حکومت اور متعلقہ بین الاقوامی اداروں کی جانب سے سراہا گیا ہے۔ اس کے لئے پولیو رضاکار اور سیکورٹی ادارے مبارکباد کے مستحق ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کے دوران کیا جس میں محکمہ صحت کی جانب سے معمول کے حفاظتی ٹیکہ جاتی نظام کو مؤثر بنیادوں پر استوارکرنے اور محکمہ صحت کے بعض دیگر اہم منصوبوں کی پیشرفت کے حوالے سے بریفنگ دی گئی۔ سینیٹر آغا شہباز درانی، چیف سیکریٹری بلوچستان سیف اللہ چٹھہ اور دیگر متعلقہ حکام اجلاس میں شریک تھے جبکہ سیکریٹری صحت نورالحق بلوچ اور منیجر ای پی آئی ڈاکٹر شاکر بلوچ کی جانب سے اجلاس کو بریفنگ دی گئی۔ چیف سیکریٹری بلوچستان نے وزیراعلیٰ کوآگاہ کیا کہ وفاقی حکومت اور متعلقہ بین الاقوامی اداروں کی جانب سے باقاعدہ طور پر انہیں بجھوائے جانے والے پیغام میں دہشت گردی کے واقعہ کے باوجود کوئٹہ سمیت صوبہ بھر میں پولیو مہم کے کامیاب انعقاد کو ناقابل یقین کارکردگی قرار دیتے ہوئے حکومت بلوچستان کے پولیو کے خاتمے کے لئے جاری اقدامات کو سراہا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ ستمبر 2015سے جنوری 2016تک بلوچستان میں پولیو کے خاتمے کے لئے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا گیا ہے۔ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ صحت اور تعلیم جیسے اہم شعبوں کی کارکردگی بہتر ہوگی تو صوبے کی مجموعی صورتحال میں بہتری رونما ہوگی لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ان شعبوں میں اصلاحات کے ذریعہ ایسی مثبت تبدیلیاں لائی جائیں جن سے عوام براہ راست مستفید ہوسکیں۔ وزیراعلیٰ نے صوبے کے ضلعی ہسپتالوں کو بااختیار بنانے کے لئے جاری اقدامات کی فوری تکمیل کی ہدایت کی انہوں نے کہا کہ محکموں کی کارکردگی بہتر بنانے اور ان میں انقلابی تبدیلی لانے کے لئے صرف کاغذی کاروائی یا سمریوں پر اکتفا نہیں کیا جاسکتا بلکہ اس کے لئے عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔ انہوں نے ہدایت کی کہ سیاست میں ملوث ڈاکٹروں، اساتذہ اور انجینئرز کے خلاف سخت کاروائی کرتے ہوئے انہیں نوکریوں سے برخواست کیا جائے اور ڈاکٹروں کو ان کے علاقوں میں تعینات کیا جائے جبکہ ضلعی ہسپتالوں میں ماہر ڈاکٹروں بالخصوص گائناکالوجسٹ کی تعیناتی عمل میں لائی جائے۔ وزیراعلیٰ نے پوسٹ گریجویٹ میڈیکل انسٹی ٹیوٹ کو فوری بحال کرکے وہاں اسپیشلسٹ ڈاکٹر تیار کرنے کی ہدایت کی ۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ ہمیں اپنے ہسپتالوں کو اس طرز پر استوار کرنا ہے کہ مریض وہاں اعتماد اوراطمینان محسوس کرے۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ صوبے میں انستھیزیئسٹ کی عدم دستیابی نالائقی اور بدقسمتی ہے لہٰذا اس کمی کو دورکرنے کے لئے اقدامات کئے جائیں۔ وزیراعلیٰ نے سنڈیمن صوبائی ہسپتال میں نوتعمیر شدہ ٹراما سینٹر کی فوری فعالی کی ہدایت بھی کی۔ وزیراعلیٰ نے ماں اور بچے کی صحت کے تحفظ اور ان کی شرح اموات پر قابو پانے کے لئے بھی ٹھوس اقدامات کی ضرورت پر زوردیا۔ انہوں نے پولیو کے ساتھ ساتھ خسرہ اور بچوں کے دیگر موذی امراض کے تدارک کیلئے معمول کے حفاظتی ٹیکہ جاتی نظام کو مؤثراورفعال بنانے کے لئے ضروری اقدامات کرنے کی ہدایت کی۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ ان کے اسلام آباد اورلاہور کے حالیہ دوروں کے دوران وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب کے ساتھ کوئٹہ میں پنجاب حکومت کی جانب سے امراض قلب کے ہسپتال کے قیام سے متعلق امورپرتبادلہ خیال ہوا ہے اور وزیراعلیٰ پنجاب کی خواہش ہے کہ وہ خود منصوبے کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب میں شریک ہوں انہوں نے ہدایت کی کہ فروری کے اوائل میں تمام انتظامات مکمل کرکے منصوبے کاسنگ بنیاد رکھنے کی تیاری کی جائے۔ اس موقع پر چیف سیکریٹری بلوچستان نے کہا کہ وہ چیف سیکریٹری پنجاب کے ساتھ رابطہ کرکے منصوبے کے جلد از جلد آغاز کے حوالے سے بات کریں گے تاکہ اسے حتمی شکل دی جاسکے۔ اجلاس کو حفاظتی ٹیکہ جاتی پروگرام کے حوالے سے بتایا گیا کہ صوبے کی 668یونین کونسلوں میں سے صرف 445 میں حفاظتی ٹیکوں کے مراکز ہیں جنہیں فعال کرنے کے ساتھ ساتھ دیگر یونین کونسلوں میں بھی مراکز قائم کئے جائیں گے ۔ حفاظتی ٹیکوں کے مراکز کی بھرپور فعالی اور نئے مراکز کے قیام سے نہ صرف 12سال تک کے عمر کے بچوں کو 9 موذی امراض سے تحفظ ملے گا بلکہ بچوں اور ماؤں کی شرح اموات میں بھی کمی آئے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ ویکسینیٹروں کو موٹر سائیکلیں بھی فراہم کی جارہی ہیں تاکہ وہ دور درا ز علاقوں میں جاکر بچوں کی ویکسینشن کرسکیں۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ صوبے کی ساڑھے چھ ہزار لیڈی ہیلتھ ورکرز کو تربیت کی فراہمی کا آغاز بھی کیا گیا ہے علاوہ ازیں ٹیکہ جاتی پروگرام کی نگرانی کے لئے ای ویکسینیشن پروگرام کا آغازکیا جارہا ہے جس کے تحت ویکسینٹرز کو موبائل فون دیئے جائیں گے جس کے ذریعے وہ ہر اس بچے کی تفصیل اور تصویر نگران مرکز کو ارسال کریں گے جس کی ویکسینیشن کی جائے گی۔ پہلے مرحلے میں 17اضلاع کی 34یونین کونسلوں میں اس پروگرام کا آغاز کیا جارہا ہے اور 2020تک پورا صوبہ اس پروگرام سے منسلک کردیا جائے گا۔ وزیراعلیٰ کو بتایا گیا کہ صوبے میں پولیو کی صورتحال تسلی بخش ہے اور 2015میں پولیو کے صرف سات کیس رپورٹ ہوئے جبکہ 2015میں صوبے بھر میں خسرہ سے بچاؤ کی خصوصی مہم چلائی گئی جس کی کوریج 93فیصد رہی۔ پولیوکے حوالے سے حساس اضلاع کوئٹہ اور قلعہ عبداللہ میں گذشتہ تین ماہ کے دوران حاصل کئے گئے ماحولیاتی نمونوں میں پولیو وائرس کی موجودگی منفی رہی حکومت پنجاب کی جانب سے امراض قلب کے ہسپتال کے قیام کے حوالے سے بتایا گیا کہ 2ارب روپے کی لاگت کے اس منصوبے کے لئے صوبائی حکومت کی جانب سے 15ایکڑ اراضی فراہم کردی گئی ہے اوردونوں صوبوں کے محکمہ صحت کے درمیان رابطے قائم ہیں۔ منصوبے پر عملدرآمد کا یونٹ قائم کردیاگیا ہے۔ تاکہ جلد از جلد منصوبے پر کام کا آغاز ہوسکے ایک سال میں یہ منصوبہ مکمل کرلیا جائے گامنصوبے کے تعمیراتی کام کے دوران طبی عملے کو پنجاب میں تربیت کی فراہمی کاآغاز کردیا جائے گا۔ سیکریٹری صحت نے بتایا کہ شیخ زید ہسپتال کوئٹہ میں جدید مشینری فراہم کردی گئی ہے اوریہ ہسپتال اسٹیٹ آف دی آرٹ کا نمونہ ہے جہاں پوسٹ گریجویٹ انسٹی ٹیوٹ قائم کرکے 108ڈاکٹروں کو تربیت کی فراہمی کا آغاز بھی کردیا گیا ہے جبکہ وزیراعظم سے ہسپتال کے افتتاح کی درخواست کی گئی ہے۔ بریفنگ میں بتایا گیا کہ سنڈیمن صوبائی ہسپتال اور بولان میڈیکل کمپلیکس ہسپتال میں انجیو گرافی مشینیں نصب کی گئی ہیں اور ان ہسپتالوں میں انجیوپلاسٹی اور اوپن ہارٹ سرجری کاآغاز کردیا گیا ہے۔ نیشنل ہیلتھ انشورنس پروگرام کے حوالے سے بتایا گیا کہ صوبے کے چار اضلاع کوئٹہ، لورالائی، لسبیلہ اور کیچ میں ابتدائی طورپر اس پروگرام کا آغازکیا جارہاہے جس کے تحت بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں رجسٹرڈ 244810غریب خاندانوں کو جاری کارڈ کے ذریعے سالانہ تین لاکھ روپے کی علاج ومعالجہ کی سہولیات بلا معاوضہ فراہم کی جائیں گی اور تین مراحل میں صوبے کے تمام اضلاع اس پروگرام سے منسلک ہوجائیں گے۔ وزیراعظم جلد اس منصوبے کا افتتاح کریں گے۔ علاوہ ازیں وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ خان زہری سے جمعہ کے روز یہاں ہونے والی ملاقاتوں کے دوران صوبے کی مختلف تاجر تنظیموں نے اقتصادی راہداری کی مکمل حمایت کا اعلان کرتے ہوئے اس منصوبے کے خلاف منفی پروپیگنڈہ کو مسترد کردیا ہے تنظیموں کے عہدیداران نے پاک چین اقتصادی راہداری کو ملک اور صوبے کی ترقی کی جانب اہم پیشرفت قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ حب سے ژوب اور ژوب سے گوادر تک بلوچستان کی تاجر برادری اس منصوبے کی اہمیت سے آگاہ ہے اور اس کے مکمل حق میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ راہداری کی مخالفت صوبے اوریہاں کے عوام سے دشمنی کے مترادف ہے۔ اس حوالے سے انہوں نے وزیراعظم محمد نواز شریف، وفاقی وزیر احسن اقبال اور وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ زہری کے مؤقف کی تائید کرتے ہوئے انہیں مبارکباد پیش کی۔ وزیراعلیٰ سے ملاقات کرنے والوں میں امرالدین آغاکی قیادت میں انجمن تاجران ودکانداران، ایس ایم رحیم آغاکی قیادت میں آل بلوچستان ہوٹل اینڈ ریسٹورنٹ ایسوسی ایشن، رحیم کاکڑ کی قیادت میں انجمن تاجران بلوچستان اور میرعرفان کردکی قیادت میں امپورٹرز ایسوسی ایشن بلوچستان کے وفود شامل تھے جبکہ اس موقع پر صوبائی وزراء سردارمحمد اسلم بزنجو، محمد خان لہڑی، میرسرفراز ڈومکی،میرسرفرازبگٹی،اراکین صوبائی اسمبلی میر عبدالقدوس بزنجو اور میر امان اللہ نوتیزئی اور سینیٹر آغا شہباز درانی بھی موجود تھے۔ وفود نے اس موقع پروزیراعلیٰ کو تاجران کودرپیش مسائل سے بھی آگاہ کیا جن میں کسٹم،ایف سی اور پولیس کی چیکنگ،شہر کی مختلف سڑکوں پرپیڈ پارکنگ جیسے مسائل شامل تھے تاجران کے وفود نے بس اڈوں کی ہزارگنجی منتقلی کے حکومتی فیصلے کی مکمل حمایت کرتے ہوئے اسے کوئٹہ شہر میں ٹریفک اوردیگر مسائل کے حل کے لئے اہم پیشرفت قرارد یا اور اس حوالے دوٹوک مؤقف اختیار کرنے پر وزیراعلیٰ کو مبارکبادپیش کی۔ وفود سے بات چیت کرتے ہوئے وزیراعلیٰ نے کہا کہ ہم کوئٹہ شہرکودرپیش مسائل کو حل کرکے اسے ایک صاف ستھرااورخوبصورت شہر بنانا چاہتے ہیں جس کے لئے تاجروں، عوام اورزندگی کے ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے تعاون کی ضرورت ہے۔ کوئٹہ بلوچستان کا چہرہ ہے جسے سنوارنا اورسجانا ہے۔ اس کیلئے جراء ت مندانہ فیصلے کریں گے اور کوئی دباؤخاطرمیں نہیں لایاجائے گا کیونکہ حکومتیں دباؤ میں نہیں چلتی ہیں۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ آبادی کے دباؤ کو کم کرنے کے لئے شہر کودشت اورکچلاک کی طرف وسعت دینے اورتجارتی اور ٹرانسپورٹ کے مراکزکو شہر سے باہرمنتقل کرنے کی ضرورت ہے۔ ماضی میں اس حوالے سے منصوبہ بندی کا فقدان رہا جس سے مسائل میں اضافہ ہوا۔ ہم ایک پرامن بلوچستان اورجدید کوئٹہ بنائیں گے ۔ کوئٹہ شہر کیلئے چھ ارب روپے کے ترقیاتی پیکج کے منصوبوں پر جلد عملدرآمد کا آغاز کیاجائے گا جبکہ وزیراعظم سے مزید فنڈز کی فراہمی کی درخواست بھی کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ کوئٹہ میٹروپولیٹن کارپورشن کو شہر میں صحت وصفائی کی صورتحال کی بہتری کیلئے پانچ کروڑ روپے فراہم کئے گئے ہیں جبکہ مزید پانچ کروڑ روپے دیئے جائیں گے۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ ایکنک نے مانگی ڈیم کی تعمیر کے منصوبے کے لئے فنڈز کی منظوری دے دی ہے جبکہ کوئٹہ میں پانی کے مسئلے کے حل کے لئے مختلف ذرائع بھی بروئے کار لائے جائیں گے۔ کوئٹہ شہر کی ترقی کے لئے جامع ماسٹرپلان بنایا جائے گا انہوں نے کہا کہ سڑکیں بنتی ہیں تو ترقی آتی ہے ہم چاہتے ہیں کہ اقتصادی راہداری کی جلد از جلد تکمیل ہو اور اسے سیاسی مسئلہ نہ بنایاجائے۔ بلوچستان ایک غریب صوبہ ہے جہاں شاہراہوں کی تعمیر کی ضرورت ہے۔ اگر ژوب اورقلعہ سیف اللہ میں شاہراہیں بن رہی ہیں تو ان کی مخالفت کی بجائے خیرمقدم کیا جانا چاہئے۔ابتدامیں یہ دورویہ ہوں گی بعد میں انہیں وسعت دے دی جائے گی۔ بلوچستان میں پانچ اقتصادی زون بنائے جائیں گے جس سے اقتصادی، صنعتی اور تجارتی سرگرمیوں کو فروغ ملے گا اور روزگار کے مواقعوں میں اضافہ ہوگا،صوبے میں خوشحالی آئے گی اور عوام آسودہ حال ہوں گے۔وزیراعلیٰ نے اس موقع پر وفودکی جانب سے پیش کئے جانے والے مسائل کی حل کی یقین دہانی کرائی۔