|

وقتِ اشاعت :   January 26 – 2016

کوئٹہ: بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے مرکزی ترجمان نے صوبائی حکومت کی جانب سے بلوچستان کے تعلیمی اداروں میں کیمپس فورسز کے نام پر فورسز تعیناتی کے فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ پہلے سے بلوچستان کے بیشتر تعلیمی اداروں میں موجودریاستی فورسز اپنی موجودگی کو قانونی جواز فراہم کرنے کے لئے کئی عرصوں سے رائے عامہ کو ہموار کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور بلوچستان کے تعلیمی اداروں کو جلانے، اساتذہ کی ٹارگٹ کلنگ سمیت دیگر کئی ایسے ہتھکنڈے استعمال کرکے کئی تعلیم یافتہ بلوچ نوجوانوں و اساتذہ کو راستے سے ہٹانے کی کوشش کرچکی ہے۔ ترجمان نے کہا کہ بلوچستان کے بیشتر شہری تعلیمی ادارے عملاََ چھاؤنیوں میں بدلے جا چکے ہیں، جبکہ اندرونِ بلوچستان کئی اسکولز، و کالجوں کو فورسز فوجی بیرکوں کے طور پر استعمال کررہی ہے۔ جہاں پر طلباء و طالبات پچھلے کئی عرصوں ان اسکولوں و کالجز کا رخ نہیں کر سکتے۔ترجمان نے کہاکہ بلوچ نوجوانوں کو تعلیمی سرگرمیوں سے دور رکھنے کے لئے فورسز سلسلہ وار کاروائیاں کررہے ہیں۔ معلمِ آزادی پروفیسرصباء دشتیاری شہید ، سنچار اُستاد زاہد آسکانی شہید سمیت کئی نامور بلوچ دانشوروں کو شہید کرنے کے ساتھ ساتھ کئی تعلیمی ادارے و سینکڑوں اسٹوڈنٹس کو ریاستی فورسز اپنی گماشتوں کے ذریعے نشانہ بنا چکے ہیں او راپنے انہی کاروائیوں کا تسلسل برقرار رکھنے و ان میں شدت لانے کے لئے صوبائی حکومت کاکیمپس فورسز کے نام پر فورس تشکیل دینے کااعلان اسی سلسلے کی کڑی ہے ۔بی ایس او آزاد کے مرکزی ترجما ن نے کراچی میں سید ہاشمی لائبریری میں تھوڑ پھوڑ و سامان لوٹنے کو بلوچ قوم کو ان کے زبان و ثقافت سے دور رکھنے کی ریاستی پالیسیوں کا تسلسل قرار دیتے ہوئے کہابلوچی زبان کی ترقی و ترویج کے لئے ہونے والی سرگرمیوں کو محدود کرنے کے لئے ریاستی اداروں نے لائبریری میں لوٹ مار کروایا ۔ ترجمان نے کہا کہ بلوچستان میں بلوچ نوجوانوں کو تعلیمی و ادبی سرگرمیوں سے دور رکھنے کا یہ پہلا کاروائی نہیں، بلکہ اس سے پہلے لیاری ، تربت و بلوچستان کے دیگر علاقوں میں لائبریریوں پر چھاپے و ان پر قبضہ کرکے ریاستی ادارے بلوچ نوجوانوں میں بڑھتی سیاسی و تعلیمی شعور سے اپنے خوف کا اظہار کر چکے ہیں۔بی ایس او آزاد کے ترجمان نے اقوام متحد کے ادارے یونیسکوسے اپیل کی کہ وہ بلوچستان میں فورسز کی سرپرستی میں ہونے والی اس طرح کی کاروائیوں کا سختی سے نوٹس لیں۔ بصورتِ دیگر مستقبل قریب میں بلوچ نوجوانوں سے تعلیم حاصل کرنے کے تمام ذرائع پر بند کیے جا سکتے ہیں۔