کوئٹہ: وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ زہری نے کہا کہ میں بھی اپنے والد کی طرح فیڈریشن کا حامی ہوں اور اس کو بچانے کیلئے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کرونگا ہم نے اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر سیٹلرز کو تحفظ دیا ہے صوبے سے جانیوالے 1 لاکھ سے زائد سیٹلرز کو واپس لاؤنگا کیونکہ پنجاب کے عوام سے میرا گلہ ہے کہ انہوں نے بلوچستان میں 5 ہزار سیٹلرز کی ٹارگٹ کلنگ پر کوئی آواز بلند نہیں کی پاکستان کے قیام سے لے کر اب تک بلوچستان میں اقتدار میں ہمیشہ مقامی لوگ وزیراعلیٰ کے عہدے پر رہے ہیں جنہوں نے صوبے اور عوام کیلئے کچھ نہیں کیا اور پنجاب کو استعمار اور دوسروں کو دوش دیتے رہے میں تقریب کے شرکاء کے توسط سے ملک سے باہر بیٹھنے والوں دعوت دیتا ہو ں کہ وہ واپس آئے اور آئین کے اندر رہتے ہوئے مذاکرات کریں تاکہ مسائل کا حل بات چیت سے نکالا جا سکے اور اگر کوئی ریاست رٹ کو چیلنج کرے گا تو ریاست اپنی رٹ کو قائم رکھے گی ان خیالات کا اظہار انہوں نے کوئٹہ میں یونیورسٹی آف بلوچستان اور غیر سرکاری ادارے ڈیووٹ کے زیر اہتمام منعقدہ دو روزہ قومی سمینار کے اختتامی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔قومی سمینار کے مہمان خصوصی چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف تھے جبکہ اس موقع پر کمانڈر سدرن کمانڈ لیفٹینٹ جنرل عامر ریاض ،وفاقی وزراء جنرل (ر)عبدالقادر بلوچ ،جام کمال خان،وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ خان زہری ،سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ ،بلوچستان اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر مولانا عبدالواسع سمیت صوبائی وزراء اراکین اسمبلی نامور صحافیوں اور سول سوسائٹی کے رہنماء بھی موجود تھے۔انہوں نے کہا کہ پاک فوج کے سپہ سالار سے دیگ اداروں کے سر براہوں اور یہاں پر آنیوالوں کی موجودگی اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ہم سب بلوچستان کے مسئلے حل کیلئے سنجیدہ ہے اور اس وقت سول اور ملٹری بیورویسی ایک پیج پر ہے بلوچستان اور پاکستان ہم سب کا ہے ہم نے مل کر اس سے چلانا ہے کیونکہ میرے والد بھی فیڈریشن کے حامی اور کیلئے جدوجہد کر تے رہے ان پر الزامات بھی لگیں لیکن انہوں نے ڈٹ کر مقابلہ کیا میں بھی اپنے والد کی طرح فیڈریشن کا حامی اور رہونگا اور اس کے ایجنڈے کو ہمیشہ تھامے رہونگا جو بھی پاکستان اور بلوچستان کیساتھ مخلص وہ ہمار ے لئے قابل احترام ہے ہم کسی کی گردن زنی کیلئے نہیں آئے بلکہ پاکستان کے آئین کے تحت سیاست کرنے اور بات چیت کو آگے بڑھانے کیلئے آئے ہیں کیونکہ اس وقت تمام سیاسی قیادت پاکستان کے آئین کے اندر رہتے ہوئے پارلیمانی سیاست کر رہی ہیں جس کی وجہ سے انہیں پذیرائی حاصل ہے باہر بیٹھنے والے بھی اپنے ملک میں آکر پارلیمانی سیاست کرے انتخابات میں حصہ لیں اور اگر عوام انہیں مینڈیٹ دیتے ہیں تو ہماری سر آنکھوں پر کیونکہ ہم نے ہمیشہ بولی سے بات کی ہے جبکہ گولی کی بات کو رد کیا ہے کیونکہ بولی سے ہی مسائل حل ہونگے جس کی وجہ سے وزیراعظم پاکستان میاں محمد نوازشریف نے بھی مفاہمت کیلئے لائحہ عمل اپنا رکھا ہے اس حوالے سے عسکری اور سیاسی قیادت مل کر اقدامات اٹھا رہی ہے کیونکہ عسکری قیادت فرنٹیئر کورسمیت عوام نے اپنی جانیں قربان کی ہے اس ملک کیلئے جانیں قربان کرنیوالوں کیلئے سلام پیش کر تا ہوں صوبے میں ساڑھے چھ سو زائد ایف سی کے جوانوں نے امن کی بحالی کیلئے اپنی جان قربان کر دی اور ہم نے بھی اپنی جانوں کا نذررانہ دے کر سیٹلرز بھائیوں کو تحفظ دیا ہے مجھے پنجاب کے عوام سے یہ شکوہ ضرور ہے کہ صوبے میں 5 ہزار سیٹلرز ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بننے اور1 لاکھ سے زائد نکل مکانی کر گئی لیکن پنجاب کے عوام اس پر کوئی آواز نہیں اٹھائی وہ ہمارے بھائی تھے اور رہیں گے اور یہ میراعزم ہے کہ میں انہیں واپس لاؤ سی پیک کے منصوبوں اور قومی ایشوز کو سیاست کی نظر نہیں کرنا چا ہئے کیونکہ بلوچستان کے پسماندہ علاقوں کو اس منصوبے سے فائدہ ہو گا اس میں انڈسٹریل زون بننے گے جس سے لو گوں کو روزگار ملے گا جب تک علاقے میں بجلی ، گیس، پانی اور انفراسٹرکچر کے لوازمات مکمل نہیں ہونگے اس وقت تک سی پیک کے منصوبے کے ثمرات عوام تک نہیں پہنچ سکتے انہوں نے کہا کہ بلوچستان جو کہ معدنیات اور قدرتی وسائل سے مالا مال صوبہ ہے اگر اس میں شفافیت کو برقرار رکھتے کام کیا جائے تو ہم تقریبا15 سے20 روپے ہر خاندان کو دے کر بلوچستان کو رفاہی صوبہ بنا سکتے ہیں ریکودک اور گوادر پورٹ کو فعال بنا کر بلوچستان کو پاکستان کا سب سے امیر صوبہ بنا کر دوسروں کو قرضہ دے سکتے ہیں پاکستان کے بننے سے لے کر اب تک بلوچستان میں ہمیشہ قوم پرستی اور مسلم لیگ کے نام پر حکومت رہی ہے اور وزارت اعلیٰ بلوچستان کے لوگوں کے پاس تھی انہوں نے عوام اور صوبے کی مشکلات کو کم کر نے کیلئے کوئی کام نہیں کیا جبکہ صوبے کا بیڑہ غرق کر کے دوسرے صوبوں اور پنجاب کو استعمار کا لقب دے کر موردالزام ٹھہراتے رہے ہمیں اپنی اصلاح کرنی چاہئے تاکہ بلوچستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا جا سکے کیونکہ بلوچستان پاکستان لازم ملزوم ہے اور ہم فیڈریشن کی سیاست چاہتے ہیں انہوں نے کہا کہ بلوچستان فرینڈلی اپوزیشن ہے کیونکہ ہم سب ایک گھر کے مانند یہاں پر رہ رہے ہیں کیونکہ اس وقت بلوچستان کے عوام کا مینڈیٹ ہمارے پاس ہے اس وقت صوبے میں تقریباً40 سے50 لاکھ پشتون وبلوچ آباد ہے ایک فیصد لو گ بندوق کی نوق پر اپنے نظریئے کو ان پر مسلط نہیں کر سکتے کیونکہ ہم سب پارلیمانی سیاست پر یقین رکھتے ہیں اور تمام مسائل کا حل بھی بات چیت کے ذریعے چاہتے ہیں۔کمانڈر سدرن کمانڈ لیفٹیننٹ جنرل عامر ریاض نے کہا کہ پاکستان کی سلامتی پر کوئی سمجھوتہ کرے گا افغانستان میں پائیدار امن پاکستان کیلئے نا گزیر ہے حکومت داخلی سلامتی کو یقینی بنا نے کیلئے تمام وسائل بروئے کار لا رہی ہے بلوچستان پاکستان کی ترقی کا محور ہے ملک کی اسٹریٹیجک پالیسی زمینی حقائق کے مطابق بنائی گئی ہیں جس کیلئے جامع اقدامات کئے گئے ہیں انہوں نے کہا کہ پاکستان حقیقی ریاست ہے یہاں بننے والی تمام پالیسیاں حقائق پر مبنی ہیں جو لو گ ذاتی مفادات کیلئے یہاں بدامنی پھیلا کر اپنے مزموم مقاصد کو حاصل کر نا چا ہتے ہیں وہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے افغانستان میں پیدا ہونیوالی ہر شورش پاکستان کیلئے مسائل پیدا کر تی رہی موجودہ حالات کے تناظر میں ملک کے معاشی استحکام کیلئے جواقدامات اٹھائے گئے ہیں اس کے دورس نتائج سامنے آئیں گے عوام ملک دشمن عناصر کے منفی پروپیگنڈوں پر کان نہ دھریں بلوچستان بہت جلد ملک کیلئے معاشی استحکام کا اہم ذریعہ ثابت ہو گا بیرون ملک مقیم عناصر بلوچستان عوام کے کبھی خیر خواہ نہیں بن سکتے اس مایوس کن صورتحال سے بلوچ عوام کو اپنے اندر احساس ذمہ داری کا تعین کرنا ہو گا بلوچستان کے محسن وہ لو گ ہیں جو یہاں بیٹھ کر پاکستان کے فریم ورک میں رہتے ہوئے اپنے حقوق کیلئے آواز بلند کر رہے ہیں غلطیاں ہر ایک سے ہر دور میں ہوتی رہی ہیں لیکن بڑی غلطی یہ ہے کہ غلطیاں دہرائی جائیں ہمیں ماضی کی غلطیوں سے سیکھنا ہو گا اب حالات بدل گئے ہیں پاکستان کی اسٹریٹیجک پالیسی قومی استحکام کی عکاس ہے ہمیں اپنی سلامتی کیلئے ملکر اپنا کردار ادا کرنا ہو گا پاکستان کا تحفظ ہم سب کا فرض ہے جو لوگ دوہر ے معیار کو پروان چڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں انہیں ہوش کے ناخن لینے ہونگے ہمیں احساس ہے کہ بلوچستان پسماندگی سے دوچار رہا ہے لیکن یہ پسماندگی بے بنیاد دعوؤں سے ختم نہیں ہوسکتی اس کیلئے ہمیں اپنے صفوں سے ایسے عناصر کو با ہر نکالنا ہو گا جو ہمیں فائدہ پہنچانے کی بجائے مزید تاریکی میں دھکیل رہے ہیں۔پاک چائنا اقتصادی رہداری پر قائم پارلیمانی کمیٹی کے چیئرمین سینٹر مشاہد حسن سید نے کہا ہے کہ سی پیک کے تحت ملک میں پہلا اسپیشل اقتصادی زون بلوچستان میں بنے گاجس کے لیے گوادر میں 2200ایکڑ اراضی مختص کردی گئی ہے،سینٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ دہشت گردی ،ناخواندگی کے خاتمے اور معیشت پر کسی سیاست کی گنجائش نہیں،سانحہ اے پی ایس کے بعد سیاسی وعسکری قیادت ایک صفحے پر ہے اور پورے پاکستان میں ایک نئی امید جنم لے رہی ہے،اس پورے عمل میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف کا کردار کلیدی ہے جنہوں نے دلیرانہ وجرات مندانہ فیصلے کیے ،انہوں نے کہا کہ سی پیک 15سالہ منصوبہ ہے جس سے آئندہ کی نسلیں بھی استفادہ کرینگی ،گوارد اور تھر کول کی افادیت پاکستان کے روشن مستقبل کی ضمانت ہے ،قومی منصوبوں میں شفافیت اور عوامی شمولیت کے ذریعے اتفاق رائے اور مشاورت سے تمام فیصلے کیے جائیں گے، سی پیک سے متعلق سردار اختر جان مینگل سے بھی بات کی گئی ہے اور تمام جماعتوں اور افراد کے خدشات دور کرنے کے لیے تیار ہیں۔سمینار سے خطاب کرتے ہوئے سینٹر آغا شہباز خان درانی نے کہاکہ سی پیک سے پورے ملک میں ترقی کا پائیدارعمل شروع ہوگا،پاکستان اور بلوچستان لازم وملزم ہیں سول اداروں میں موثر قانونی سازی کرکے بہتر اصلاحات کی جاسکتی ہیں ،سابق وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ بلوچستان کا مسئلہ غربت اور ناخواندگی ہے بہتر طرز حکمرانی کے ذریعے عوامی اعتماد کی بحالی اور ناراض بلوچ رہنماؤں سے مذکرات کا تسلسل ضروری ہے جبکہ پائیدار امن کے لیے ہمسایہ ممالک کا ساتھ برابری کی بنیاد پر بہتر تعلقات کا فروغ بھی وقت کی ضرورت ہے ،پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی شفقت محمود نے کہا کہ بلوچستان میں بحالی امن کے لیے سویلین اور سیکورٹی فورسز نے کافی قربانیاں دی ہیں،عالمی برادری کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنے لوگوں کو بھی حقائق سے آگاہی دینا چاہیے ،انہوں نے بلدیاتی اداروں کو مستحکم کرنے کی ضرورت پر زور دریتے ہوئے ترقیاتی عمل میں مقامی افراد کی شمولیت کی تجویز دی ۔انہو ں نے کہا کہ سی پیک منصوبے کو متنازعہ بنانے سے گریز کرنا چاہیے بلوچستان اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر مولانا عبدالواسع نے کہا کہ امن کے بغیر معاشرتی ترقی ناممکن ہے اور امن کے لیے باہمی اعتماد کی ضرورت ہے ہمیں دوسروں کے لے سوچنے کے بجائے صرف اور صرف پاکستان کے لیے سوچنا ہوگا،بلوچستان حکومت کے ترجمان انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ تمام معاملات کو باہمی افہام وتفہیم سے حل کرنے کی ضرور ہے لہذا ملک میں ایک نئی توانائی کے ساتھ قومی منصوبوں اورفیصلوں پر اتفاق رائے پیدا کیا جائے اس موقع پر ٹی وی اینکر ز فریحہ ادریس ،غریدہ فاروقی ،اکر م حبیب ،کوئٹہ پریس کلب کے صدر شہزادہ ذوالفقار سمیت دیگر نے بھی خطاب کیا تقریب کے اختتام پر مہمانو ں میں شیلڈ تقسیم کی گئیں ۔