|

وقتِ اشاعت :   February 3 – 2016

کراچی: پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن (پی آئی اے) جوائنٹ ایکشن کمیٹی اپنے اعلان کے مطابق بطور احتجاج فلائٹ آپریشن روکنے میں کامیاب نہ ہوسکی،تاہم مجوزہ نجکاری کے خلاف احتجاج کرنے والے پی آئی اے ملازمین اور پولیس آمنے سامنے آ گئے،پولیس نے مظاہرین کو جناح ٹرمنل جانے سے روکنے کے لیے واٹرکینن کا بے دریغ استعمال کیا، ہوائی فائرنگ سے تین جاں بحق ہوگئے جبکہ کم از کم 16 افراد زخمی بھی ہیں۔گذشتہ روز پی آئی اے کی تمام تنظیموں پر مشتمل جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے ادارے کی نجکاری کے خلاف بطور احتجاج فلائٹ آپریشن معطل کرنے کا اعلان کیا تھا۔ کراچی میں قانون نافذ کرنے والوں اداروں نے کسی بھی ناخوشگوار صورتحال سے نمٹنے کے لیے انتظامات ایک رات قبل سے ہی سنبھال لیے تھے۔کراچی میں پی آئی اے کے احتجاج کرنے والے ملازمین کی ریلی ہیڈ آفس سے ایئر پورٹ کی جانب روانہ ہوئی تو کارگو گیٹ پہنچنے پر پولیس کی جانب سے واٹر کینن کا استعمال کیا گیا اور مظاہرین کو پانی کے پریشر سے پیچھے دھکیلنے کی کوشش کی گئی۔پی آئی اے کے احتجاجی مظاہرین نے جناح ٹرمینل کی طرف پیش قدمی کی تو ان پر آنسو گیس کے شیل پھینکے گئے، پولیس اور رینجرز نے پی آئی اے ریلی کو ایئرپورٹ جانے کی اجازت نہیں دی تاہم مظاہرین نے جناح ٹرمینل کا گیٹ کھولنے کی کوشش کی، جس پر پولیس کے لاٹھی چارج پر احتجاجی مظاہرین کی جانب سے بھی پتھراؤ کیا گیا۔آنسو گیس کے شیل لگنے سے متعدد افراد زخمی ہوئے جبکہ احتجاج میں شامل خواتین بھی شدید زخمی ہوئیں.سیکیورٹی اہلکاروں کی جانب سے مظاہرین کو روکنے کے لیے ربڑ کی گولیاں بھی چلائی گئیں.ربڑ کی گولیاں لگنے سے زخمی ہونے والے 16 افراد کو اسپتال منتقل کردیا گیا، ان زخمیوں میں سے 7 کو جناح اسپتال، 5 کو نجی اسپتال آغا خان اور 4 کو لیاقت نیشنل لے جایا گیا.بعد ازاں جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے چئیرمین سہیل بلوچ نے دعوی کیا ہے کہ پرتشدد کارروائی میں3افراد عنایت رضا، سلیم اکبر اور زبیر جاں بحق اور 18 زخمی ہوگئے ہیں۔سہیل بلوچ کا کہنا ہے کہ ہمارا احتجاج پر امن ہے، جسے جاری رکھیں گے۔سہیل بلوچ نے کہا کہ حکومت اپنا کام کرے ،ہم اپنا کام کریں گے۔ اگر لاٹھیاں برسانی ہیں تو بسم اللہ۔ملیر کے سینئر پولیس افسر راؤ انوار نے ہلاکت کی تصدیق کی.زخمی ہونے والوں میں ڈان نیوز کا کیمرہ مین شفیق بھی شامل ہے، جسے بازو میں ربڑ کی گولی لگی، کیمرہ مین کو فوری طور پر اسپتال منتقل کیا گیا۔اس دوران رینجرز اور پولیس کی جانب سے میڈیا کے نمائندوں کے ساتھ ساتھ خواتین پر بھی لاٹھی چارج کیا گیا۔سیکیورٹی اداروں نے ملازمین کی جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے متعدد رہنماؤں کو بھی حراست میں لے لیا۔کراچی شرقی کی پولیس کے ڈی آئی جی کامران افضل نے فائرنگ کی تردید کی، ان کا کہنا تھا کہ گولیاں ہم نے نہیں چلائیں۔ڈی آئی جی ایسٹ کا کہنا تھا کہ گولیوں کے خول ڈھوندے کی کوشش کر رہے ہیں۔کامران افضل نے بتایا کہ احتجاج کے حوالے سے پہلے سے حکم تھا کہ کسی بھی قسم کی سختی نہیں کرنی۔انہوں نے میڈیا کے نمائندوں پر ہونے والے تشدد کی تحقیقات کی بھی یقین دہانی کروائی۔دوسری جانب رینجرز کے ترجمان نے بھی اعلامیہ جاری کیا کہ رینجرز کے اہلکاروں نے جناح ٹرمنل پو ہونے والے احتجاج کے دوران فائرنگ نہیں کی۔پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز کے ترجمان دانیال گیلانی کا کہنا تھا کہ معاملے کو مذاکرات سے حل کرنا چاہیے، کام نہ کرنے اور قانون کو ہاتھ میں لینے والوں سے سختی سے نمٹا جائے گا۔دانیال گیلانی نے کہا کہ پی آئی اے کی پروازوں کا شیڈول معمول کے مطابق جاری ہے، جبکہ تمام ایئرپورٹس سے فلائٹ آپریشن نارمل ہے۔قبل ازیں کراچی میں ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) ایئرپورٹ سیکیورٹی فورس (اے ایس ایف) میجر جنرل سہیل احمد خان نے ایئرپورٹ کا دورہ کیا تھا، اس موقع پر رینجرز حکام بھی موجود تھے۔پی آئی اے ملازمین کی جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے منگل کی صبح 7 بجے سے فلائٹ آپریشن معطل کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن صبح کے اوقات میں قومی ایئر لائن کی تمام پروازیں معمول کے مطابق روانہ ہوئیں۔حکومت نے گذشتہ روز پی آئی اے پر لازمی سروسز ایکٹ نافذ کرکے ڈیوٹی پر نہ پہنچنے والے ملازمین کے خلاف کارروائی کا اعلان کیا تھا۔ذرائع کا کہنا ہے کہ ایکشن کمیٹی کے رہنماؤں کی گرفتاری کے لیے فہرستیں بھی تیار کرلی گئی ہیں۔پی آئی اے ترجمان کا کہنا تھا کہ 4 پروازیں شیڈول کے مطابق روانہ ہوئیں جبکہ کراچی سے جدہ جانیوالی پرواز پی کے 7303 دو گھنٹے کی تاخیر کا شکار ہوئی۔یاد رہے کہ قومی اسمبلی میں گذشتہ ہفتے قبل 21 جنوری کو 6 بل پیش ہوئے تھے جن میں پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن (پی آئی اے) کے حوالے سے بھی ایک بل شامل تھا جس میں پی آئی اے کو پبلک لمیٹڈ کمپنی میں تبدیل کرنے کا بل بھی شامل تھا، اس بل کے تحت پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن کارپوریشن کو پاکستان انٹرنیشل ایئر لائن کمپنی لمیٹڈ میں تبدیل کیا جائے گا۔یہ بل سامنے آتے ہی ملک بھر میں پی آئی اے کے ملازمین کی تنظیموں نے احتجاج شروع کر دیا، جس سے پی آئی اے کے امور متاثر ہونے لگے تھے.منگل کی صبح فضائی آپریشن معطل کرنے کی دھمکی کے بعد حکومت نے 1952 کا لازمی سروسز ایکٹ نافذ کر دیا ، جس کے تحت تمام یونینز تحلیل ہو گئیں جبکہ اب ہڑتال یا احتجاج کرنے والے ملازمین ملازمت سے فارغ کر دیئے جائیں گے۔