کوئٹہ: بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی ترجمان نے کہا کہ ڈاکٹر منان بلوچ اور ان کی ساتھیوں کے قتل کے خلاف تین روزہ ہڑتال کے تیسرے او ر اس مرحلے کے آخری دن پورے بلوچستان میں پہیہ جام ، شٹر ڈاؤن اور سوگ رہا ۔ ڈاکٹر منان بلوچ اور اس کے عظیم ساتھی دوستوں کی شہادت کے خلاف بلوچ قوم کا غم و غصہ جاری رہے گا اور دنیا کو باور کرنا ہوگا کہ آزادی پسندوں کو دہشت گرد قرار دیکر قتل کیا جا رہا ہے، تمام اصولوں کی منافی ہے۔اس کے رد عمل میں احتجاج کرنے والوں کو دھمکیاں دیکر ہراساں کیا جارہاہے۔ تربت، پسنی اور آواران میں فورسز نے دکانوں کے تالے توڑ کر احتجاج ختم کرنے کی دھمکی دی یا دکانوں کو غیرقانونی طور پر سیل کرکے بلوچ عوام پر معاش کے دروازے بند کئے جارہے ہیں۔ ان حرکات کے خلاف بلوچ قوم آئندہ بھی اس طرح کے احتجاج کریگا۔ڈاکٹر منان بلوچ کے ساتھی شہید انتہائی باصلاحیت اور قیمتی اثاثہ تھے۔ شہید بابو نوروز ایک بلوچ دانشور تھے،وہ بیورغ بلوچ اور سنگت محراب کے نام سے مختلف رسالوں میں کئی مضامین کے علاہ بی ایس او کے سابق چیئرمین شہید حمید شاہین بلوچ پر لکھی گئی کتاب کا خالق بھی ہیں۔ حنیف بلوچ ،شہید اشرف بلوچ، شہید ساجد بلوچ بی این ایم کے اہم سرکردہ ساتھیوں میں سے تھے۔ ان سے پہلے بھی فورسز نے کئی بلوچ لکھاری و دانشوروں کو قتل کرکے بلوچ قوم کو علم و ہنر سے دور رکھنے کی کوشش کی ہے۔ ترجمان نے ہڑتال کی حمایت کرنے پرسب کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ بلوچ آزادی پسند تنظیموں ، رہنماؤں اور بلوچ قوم نے احتجاج کی حمایت کرکے اپنا فرض پورا کیا ہے۔ڈاکٹر منان بلوچ کی شہادت و انہیں دہشت گرد قرار دینے کے خلاف احتجاج کے دوسرے مرحلے میں بیرونی ممالک میں احتجاجی شیڈول کے اختتام کے بعد آئندہ کا لائحہ عمل تیار کریں گے۔ ایک سیاسی رہنما کو قتل اور اس کے بعد احتجاج کی اجازت نہ دینے کے عمل کو پوری دنیا کے سامنے آشکار کرنے کی کوششیں جاری رہیں گی، امید ہے اقوام متحدہ اور عالمی ادارے خاموشی توڑ کر ایک عظیم سیاسی رہنما کے قتل پر رد عمل دکھائیں گے۔ ترجمان نے کہا کہ چار فروری کو برطانوی وزیراعظم ہاؤس کے سامنے مظاہرہ اور میمورنڈم پیش کیا جائے گا۔ اسی دن میلبورن آسٹریلیا میں پارلیمنٹ کے سامنے مظاہرہ اور میمورنڈم پیش کیا جائے۔ جب کہ جرمنی کے شہر برلن میں ہفتہ چھ فروری کو احتجاج کیا جائے گا۔