|

وقتِ اشاعت :   February 5 – 2016

نئی دہلی: افغانستان کے چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ نے بعض طالبان دھڑوں کی جانب سے تشدد ترک کرنے کی اْمید کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان آئندہ 6 ماہ میں امن مذاکرات کی توقع کررہا ہے۔خیال رہے کہ کابل اور طالبان کے درمیان امن مذاکراتی عمل گزشتہ سال کے وسط میں اس وقت تعطل کا شکار ہوگیا تھا جب طالبان کے بانی رہنما ملا عمر کی موت کی خبر منظر عام پر آئی گئی تھی کہ ملا عمر کی موت دو سال قبل ہوچکی ہے۔ بر طا نو ی خبر رساں ادارے کے مطابق عبداللہ عبداللہ کا کہنا تھا کہ ملا عمر کی موت نے طالبان کو کئی دھڑوں میں تقسیم کردیا ہے، جس نے امن مذاکراتی عمل کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی اس اْمید کا اظہار بھی کیا جاسکتا ہے کہ مذاکرات کے ذریعے جنوبی ایشیائی ریاست میں 15 سال کے خونی تصادم کے بعد امن قائم ہوسکتا ہے۔وہ ان دنوں ہندوستانی قیادت کے ساتھ دوطرفہ مسائل پر بات چیت کے لیے نئی دہلی میں موجود ہیں، جہاں ایک ان کا کہنا تھا کہ ‘طالبان کے درمیان کچھ ایسے دھڑے موجود ہیں جو تشدد کو ترک کرنا چاہتے ہیں’۔طالبان سے مذاکرات کے آغاز کے حوالے سے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ‘یہ 6 ماہ میں جلد ہونا چاہیے’۔انھوں نے کہا کہ تشدد ترک کرنے والے طالبان دھڑوں اور افغان سکیورٹی ایجنسیز کے درمیان رابطے موجود ہیں لیکن انھوں نے اس حوالے سے کسی بھی قسم کی مزید تفصیلات فراہم کرنے سے انکار کیا۔واضح رہے کہ ان کا یہ بیان ایک دن بعد ہونے والے چار رکنی مذاکراتی گروپ کے اجلاس سے قبل سامنے آیا ہے، جس میں افغانستان، پاکستان، چین اور امریکا شامل ہیں، اور 6 فروری کو ہونے والا یہ اجلاس افغان صدر اشرف غنی کی انتظامیہ اور عسکریت پسندوں کے درمیان مذاکراتی عمل کے روڈ میپ کو حتمی شکل دے گا۔عبداللہ عبداللہ کا مزید کہنا تھا کہ چین، افغان مذاکراتی عمل میں اہم کردار ادا کررہا ہے کیونکہ ان کے صوبے سنگیانگ میں مشرقی ترکستان اسلامک موومنٹ کی تنظیم مسلح کارروائیوں میں مصروف ہے جو طالبان کے ساتھ افغان جنگ میں بھی شامل ہے۔انھوں نے کہا کہ اسلام آباد کے ساتھ بیجنگ کے قریبی تعلقات اتنے ہی اہم ہیں، کیونکہ وہ طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے میں مدد کرسکتے ہیں۔عبداللہ عبداللہ کا کہنا تھا کہ چین، پاکستان اور امریکا متفق ہیں کہ وہ طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کیلئے اپنا اثرورسوخ استعمال کریں گے۔انھوں نے کہا کہ یہ ممالک طالبان دھڑوں کے ساتھ مذاکرات کے وقت، جگہ اور ایسے دھڑے جو مذاکراتی عمل میں شریک نہیں ہونگے ان کے مستقل کے بارے میں بات چیت کریں گے۔