کوئٹہ: بلوچستان اسمبلی نے مختلف سڑکوں کے تعمیری کام کو این ایچ اے کے حوالے کرنے ، تیل کی قیمتوں میں کمی اورمحکمہ کیسکو کو صوبائی حکومت کی جانب سے ادا کی گئی رقم کو عوامی منصوبوں پر فوری خرچ کرنے سے متعلق 3 مشترکہ قرار دادیں متفقہ طورپر منظور کرلیں جبکہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ملازمین کو تنخواہوں کی عدم ادائیگی سے متعلق قرار داد وزیر کی عدم موجودگی پر اگلے اجلاس کے لئے موخر کردی گئی۔ جمعہ کے روز اسپیکر بلوچستان اسمبلی متحرمہ راحیلہ درانی کی زیر صدارت اسمبلی اجلاس شروع ہوا تو پشتونخوا میپ کے اراکین اسمبلی سید لیاقت آغا ، عبدالمجید خان اچکزئی ، منظور احمد کاکڑ ، ولیم جان برکت ، سپوژمئی اچکزئی ، عارفہ صدیق اور متحرمہ معصومہ حیات کی مشترکہ قرار داد نصراللہ زیرے نے پیش کی جس میں وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ مسلم باغ کراس تا ہرنائی ، کچھ ہرنائی کراس ، زیارت ، سنجاوی سڑکو ں کی تعمیر کا کام نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے سپرد کرتے ہوئے رواں مالی سال کے پی ایس ڈی پی میں اسے شامل کریں تاکہ عوام کو مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے ، ایوان نے مذکورہ قرار داد کو متفقہ طور پر منظور کرلیا۔دوسری قرار داد عوامی نیشنل پارٹی کے پارلیمانی لیڈر انجینئر زمرک خان اچکزئی نے پیش کی جس میں وفاقی حکومت سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کے بعد تیل کی قیمتوں میں 15 روپے تک کمی کا مطالبہ کیا گیا تھا ۔ قرار داد میں کہا گیا تھا کہ حکومت کی جانب سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں عالمی منڈی میں سب سے زیادہ کمی کے باوجود بھی کمی نہیں کی گئی جو درست نہیں اس لئے عوام پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 15 روپے تک کمی کرے جس سے عوام کو فائدہ ہوگا ۔ ایوان نے انجینئر زمرک کی جانب سے پیش کی گئی قرار داد کو بھی متفقہ طور پر منظور کیا ۔ ایک قرار داد پشتونخوا میپ کی رکن اسمبلی عارفہ صدیق نے پیش کی جس میں کہا گیا تھا کہ گزشتہ ڈھائی سال کے دوران صوبائی حکومت کی جانب سے محکمہ کیسکو کو میٹریل اور تعمیرات کے لئے اربوں روپے دیئے گئے ہیں مگر کیسکو چیف اور کیسکو کے بورڈ آف ڈائریکٹرز نے ان منصوبوں پر کام نہیں کیا اس لئے یہ ایوان سفارش کرتا ہے کہ حکومت اس سے رجوع کرے اور کیسکو کو پابند کریں کہ وہ مذکورہ رقم کو عوامی مفاد کے لئے استعمال میں لائے ۔اپوزیشن لیڈر مولانا عبدالواسع نے قرار داد کی مشروط حمایت کرتے ہوئے کہا کہ کیسکو کے بورڈ آف ڈائریکٹر میں سیاسی لوگ بیٹھے ہوئے ہیں حالانکہ اس میں ٹیکنیکل لوگ ہونے چاہیے ۔ بورڈ آف ڈائریکٹر تحلیل کیا جائے ہم بھی اس قرار داد کی حمایت کریں گے جس پر سید لیاقت آغا نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ دنیا بھر میں اداروں کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں 50 فیصد ٹیکنیکل لوگ لئے جاتے ہیں باقی غیر ٹیکنیکل ہوتے ہیں ۔ وزیراعلیٰ صاحب کیسکو کے چیف اور بورڈ آف ڈائریکٹرز کو بلائے اور ان سے بات کریں ۔ اس موقع پرڈاکٹر حامد اچکزئی نے کہاکہ چلڈرن ہسپتال کے بورڈ آف ڈائریکٹر میں کتنے ڈاکٹرز ہیں ، کیسکو چیف اور بورڈ آف ڈائریکٹرز دونوں سے با ت کرنی چاہیے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے اگر سیاسی لوگ بورڈ آف ڈائریکٹرز میں بٹھائے ہیں تو مولانا واسع کے دور میں نیب زدہ لوگ بورڈ آف ڈائریکٹرز کا حصہ تھے ۔ اے این پی کے پارلیمانی لیڈر انجینئر زمرک ، مجیب الرحمن محمد حسنی ، پشتونخوا میپ کے رکن اسمبلی نصراللہ خان زیرے اور دیگر نے بھی قرار داد کی حمایت کی جس پر قرار دا دکو متفقہ طور پر منظور کرلیا گیا ۔اجلاس کے دوران نیشنل پارٹی کی خاتون رکن اسمبلی ڈاکٹر شمع اسحاق نے قرار دادپیش کی جس میں محکمہ تعلیم کے آئی ٹی شعبے سے وابستہ عملے سمیت درجہ چہارم کے ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا ۔ قرار داد میں کہا گیا ہے کہ تنخواہوں کی ادائیگی نہ ہونے سے ملازمین نان شبینہ کا محتاج ہوچکے ہیں اسی لئے وہ سراپا احتجاج ہیں اس سلسلے میں صوبائی حکومت کی جانب سے سمری منظور ہوگی تو تب ان کے تنخواہوں کی ادائیگی ممکن ہوگی ۔ اس موقع پر وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ نے کہا کہ مذکورہ اساتذہ اور دیگر ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی کی خاص وجہ وزراء کے محکموں کی تبدیلی ہے ۔ وزیر تعلیم اس وقت اسمبلی میں موجود نہیں ہے تاہم میں ان کی طرف سے یقین دلاتا ہوں کہ اس جائز مطالبے کو تسلیم کیا جائے گا ۔اس موقع پر صوبائی وزیر واسا نواب ایاز جوگیزئی نے کہا کہ بلوچستان میں جتنے اساتذہ تعینات ہیں اتنے تعلیم یافتہ لوگ نہیں یہی حالت ڈاکٹرز کی ہے جو ڈاکٹر اور ٹیچر خدمات کی انجام دہی نہیں کرتے انہیں تنخواہوں کی ادائیگی نہ کی جائے ۔ ان کا کہنا تھا کہ قلعہ سیف اللہ میں 25 ڈاکٹرز میں سے صرف 3 ڈیوٹی دیتے ہیں اساتذہ اور ڈاکٹرز کو سہولتیں تو دی جاتی ہیں لیکن وہ خدمات انجام نہیں دیتے ایسے لوگوں کو تنخواہیں نہیں ملنی چاہیے ۔ایوان نے مذکورہ قرار داد پر بحث کو 15 فروری کے اجلاس تک ملتوی کردیا ۔