کوئٹہ: وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ خان زہری نے کہا ہے کہ پرامن بلوچستان اور صوبے میں گڈ گورننس کا قیام صوبائی حکومت کی اولین ترجیح ہے جس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا اور اگر اس کے لیے غیر مقبول اور سخت فیصلے بھی کرنا پڑے تو کئے جائیں گے، ان خیالات کا اظہار انہوں نے صوبائی کابینہ کے پہلے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا، کابینہ کو صوبے میں امن و امان کی صورتحال اور پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام کے حوالے سے بریفنگ دی گئی ، وزیراعلیٰ نے کابینہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ کابینہ گذشتہ کابینہ کا تسلسل ہے صرف وزیراعلیٰ تبدیل ہوا ہے اور مخلوط حکومت آئندہ اڑھائی سال بھی خوش اسلوبی اور ہم آہنگی کے ساتھ پورے کرے گی، انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت میں شامل سیاسی جماعتوں کے درمیان اتحاد قائم رہے گا اور ہماری حتیٰ الوسع کوشش ہوگی کہ حکومتی امور قوائد و ضوابط اور افہام و تفہیم کے ساتھ نمٹائے جائیں، انہوں نے کہا کہ کابینہ اور بیوروکریسی لازم و ملزوم ہیں، لہذا بیوروکریسی اراکین کابینہ کے ساتھ مکمل تعاون کرے اور حکومتی امور تیزی سے نمٹانے کے لیے اپنا کردار ادا کرے، انہوں نے کہا کہ گڈگورننس کے قیام کے لیے ضروری ہے کہ سیاسی قیادت اور بیوروکریسی میں مکمل ہم آہنگی ہو، اگر تمام لوگ اپنے دائرہ کار میں رہ کر کام کرینگے تو بہتر انداز میں مسائل حل ہونگے، وزیراعلیٰ نے کہا کہ نہ تو امن و امان کے قیام پر کوئی سمجھوتہ کیا جائے گااور نا ہی ترقیاتی عمل میں کوئی رکاوٹ حائل ہونے دی جائے گی، آئین اور قانون کی پاسداری نہ کرنے والوں کے خلاف سخت کاروائی کی جائے گی، وزیراعلیٰ نے کہا کہ جس طرح وہ خود کابینہ کے فیصلوں کے پابند ہیں اسی طرح بیوروکریسی بھی کابینہ کے فیصلوں پر عملدرآمد کرنے کی پابند ہے اور انہیں امید ہے کہ کابینہ کے فیصلوں کو ہر صورت عملی جامعہ پہنایا جائیگا۔ کابینہ نے صوبائی لیبر پالیسی کے ڈرافٹ کی منظوری دی جوکہ حتمی منظوری کے لیے صوبائی اسمبلی میں پیش کیا جائیگا، چیف سیکریٹری بلوچستان سیف اللہ چٹھہ نے اجلاس کو آگاہ کیا کہ 18ویں ترمیم کے بعد محکمہ محنت و افرادی قوت اور مزدوروں سے متعلق تمام امور صوبائی حکومت کا عنصر بن چکے ہیں، جس کے تحت اب تمام صوبے اپنی لیبر پالیسی بنا رہے ہیں، انہوں نے بتایا کہ ڈرافٹ لیبر پالیسی میں مزدوروں کے تمام مسائل بشمول خواتین کے مسائل کو شامل کیا گیا ہے اور زرعی ورکرز اور ماہی گیروں کے مسائل لیبر پالیسی کا حصہ ہیں، صوبائی کابینہ نے بلوچستان طفلانہ سیگریٹ نوشی آرڈیننس 1959 کی منسوخی کی منظوری بھی دی، کیونکہ یہ آرڈیننس ممانعت اور بچاؤ تمباکو نوشی صحت آرڈیننس 2002 سے متصادم تھا، صوبائی کابینہ نے بلوچستان کے سینما گھروں میں سیگریٹ نوشی کی ممانعت سے متعلقہ بل مجریہ 1940 کو کالعدم قرار دینے اور اس کی جگہ ممانعت تمباکو نوشی دوبارہ نفاذ ایکٹ 2014 صوبائی اسمبلی میں پیش کرنے کی منظوری بھی دی ، صوبائی کابینہ نے شیشہ کے استعمال پر پابندی کا بل بھی منظور کر لیا جو حتمی منظوری کے لیے صوبائی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا اس بل کے تحت کوئی بھی فرد انفرادی یا اجتماعی طور پر شیشہ بنانے، بیچنے، خریدنے ،ذخیرہ و استعمال کرنے یا درآمد کرنے میں شامل نہیں ہوگا اور اس ایکٹ کے تحت اس طرح کا کوئی بھی کام جرم تصور ہوگا اور ناقابل ضمانت ہوگا، امن و امان کے حوالے سے اجلاس کو بریفنگ دیتے ہوئے سیکریٹری داخلہ نے بتایا کہ حکومتی کوششوں و اقدامات اور پولیس ، لیویز کی استعداد کار میں اضافے اور ایف سی کی معاونت سے صوبے میں عمومی جرائم، فرقہ وارانہ تشدد اور دہشت گردی میں نمایاں کمی رونما ہوئی ہے، اس حوالے سے 2010سے فروری 2016 تک موازنہ بھی پیش کیا گیا جس میں بتایا گیا کہ واپڈا، سوئی گیس اور ریلوے تنصیبات پر حملوں، بم دھماکوں، راکٹ فائرنگ اور اغواء برائے تاوان جیسے سنگین جرائم کے ساتھ ساتھ قومی شاہراہوں پر ڈکیتی، عمومی جرائم ، قتل ، کار اورموٹر سائیکل چھیننے کی وارداتوں کا گراف بہت نیچے آگیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کوئٹہ سیف سٹی پروجیکٹ پر عملدرآمد سے سنگین اور عمومی جرائم میں مزید کمی آئے گی، انہوں نے بتایا کہ اغواء برائے تاوان کی کاروائیوں میں ملوث گروہوں کا خاتمہ کر دیا گیا ہے، سیکریٹری داخلہ نے مسنگ پرسن کے حوالے سے بتایا کہ اس ضمن میں قائم کمیشن کے پاس کل 312کیس رپورٹ ہوئے، جن میں 120افراد کا سراغ لگایا گیا جبکہ 62کیس غیر متعلقہ ثابت ہوئے، اس طرح اب تک صرف 130 افراد لاپتہ ہیں، جبکہ بعض عناصر اس تعداد کو غیر حقیقی طور پر بڑھا چڑھا کر پیش کرتے رہے ہیں ، ان لاپتہ افراد میں چند وہ لوگ بھی شامل ہیں جو جرائم میں ملوث اور اشتہاری قرار دئیے گئے ہیں، اجلاس کو کرمنل جسسٹس سسٹم کی بہتری سے متعلق امور کے بارے میں بھی آگاہ کیا گیا، اجلاس میں اس حوالے سے مجوزہ ترامیم کے لیے قائم کابینہ کمیٹی کے اراکین میں اضافے کی منظوری دی گئی، سیکریٹری داخلہ نے اجلاس کو انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز اور قانون نافذ کرنے والے متعلقہ اداروں کے درمیان معلومات کے تبادلے ، ضلع کی سطح پر قائم انٹر فیوزن سیل کے قیام اور اس حوالے سے حاصل ہونے والی کامیابیوں کے بارے میں تفصیلات سے بھی آگاہ کیا اور بتایا کہ اب تک 2570آئی بی اوز کئے گئے ہیں، وزیراعلیٰ نے اس حوالے سے ہونے والی پیش رفت کو سراہا، اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ نفرت انگیز مواد پر مشتمل تقاریر ، کتب اور سی ڈیزکے خلاف کاروائی کو تیز کیا جائیگا، اجلاس کو پر امن بلوچستان پالیسی پر ہونے والی پیش رفت سے بھی آگاہ کیا گیا اور فیصلہ کیا گیا کہ اس پالیسی کا ازسرجائزہ لے کر اسے مزید جامع بنایا جائے گا۔اجلاس میں تعلیمی اداروں کی سیکورٹی سے متعلق امور کا بھی جائزہ لیا گیا اور فیصلہ کیا گیا کہ اعلیٰ تعلیمی اداروں میں کیمپس فورس تشکیل دی جائے گی جس میں فورسز سے ریٹائرڈ اہلکاروں کو کنٹریکٹ کی بنیاد پر بھرتی کیا جائیگا، اجلاس کو بتایا گیا کہ صوبے کی یونیورسٹیوں ، کالجز، ریذیڈنشل کالجز اور کیڈٹ کالجز میں سیکورٹی ٹاورز کی تعمیر کا کام تیزی سے جاری ہے، جنہیں اس ماہ کے آخر تک مکمل کر لیا جائیگا۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ نجی تعلیمی اداروں کو بھی سیکورٹی فورسز بنانے کا پابند کیا جائیگا اور خلاف ورزی کی صورت میں ان کے خلاف کاروائی کی جائے گی، اجلاس کو بتایا گیا کہ نجی سکولوں کی سیکورٹی کی ایس او پی بنا کر دے دی گئی ہے، اجلاس میں تعلیمی اداروں کے ہاسٹل میں رہائش پذیر غیر متعلقہ افراد کے خلاف فوری کاروائی کا آغاز کر کے ان سے ہاسٹل خالی کرانے کا فیصلہ کیا گیا۔ اجلاس میں سکول لگنے اور چھٹی کے اوقات کے دوران سیکورٹی اداروں کے گشت میں اضافے کی منظوری بھی دی گئی، اجلاس کو جیلوں کی سیکورٹی ، افغان مہاجرین کی واپسی، دہشت گردوں کو ہونے والی فنڈنگ کی روک تھام اور دہشت گردی کی کاروائیوں میں شہید ہونے والے شہریوں کے لواحقین کو معاوضے کی ادائیگی سے متعلق امور پر بھی بریفنگ دی گئی، اجلاس میں شہر میں کالعدم تنظیموں کی جانب سے جھنڈے لگانے اور وال چاکنگ کے خلاف بھی بھرپور کاروائی کا فیصلہ کیا گیا۔
کوئٹہ: صوبائی حکومت بلوچستان کے ترجمان انوارالحق کاکڑ نے کہا ہے کہ بلوچستان میں 2250ترقیاتی اسکیمات پر کام جاری ہیں دہشتگردی اور دیگر جرائم کے واقعات میں واضح کمی ہوئی ہے ڈیڑھ مہینے کے دوران حساس اداروں کی نشاندہی پر 335آپریشن کیے گئے ہیں مزید کامیابی کیلئے حکومت نے مربوط پالیسی مرتب دی گئی ہے کوئٹہ شہر میں پانی کے بحران کی خاتمے کیلئے منگی ڈیم اور بولان سے پانی لانے کیلئے پالیسی وضع کی گئی ہے جبکہ بلوچستان بھر میں 20ڈیمز بنائے جائینگے وزیراعلیٰ بلوچستان نے تمام اسکیمات کو مکمل اور جون سے پہلے ترقیاتی حوالوں سے فنڈز جاری کرنے کیلئے ایم پی ایز کو اسکیمات مکمل کرنے کی ہدایت کی ہے پرامن بلوچستان کیلئے حکومت کی پالیسی کے مطابق مذاکرات کو جاری رکھے گی تاہم اسے دہشتگردوں پر کڑ ی نظر رکھیں گے جو فراری کے نام پر رقم وصول کرنے کے باوجود ریاستی رٹ کو چیلنج کرتے ہیں ۔یہ بات انہوں نے بدھ کی شام کو صوبائی کابینہ کے پہلے اجلاس کے بعد وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ میں ایڈیشنل سیکرٹری منصوبہ بندی و تر قیات نصیب اللہ بازئی کے ہمراہ کابینہ اجلاس کی بریفنگ دیتے ہوئے کہی‘ اس موقع پر ڈی جی پی آر کامران اسد بھی موجود تھے‘ انہوں نے کہاکہ وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ خان زہری کی صدارت میں کابینہ کا پہلا اور اہم اجلاس ہوا جس میں ترقیاتی اور امن وامان کے حوالے سے تفصیلی بریفنگ دی گئی اور یہ معلوم کیاگیا کہ کوئٹہ سمیت بلوچستان بھر میں کہاں ترقیاتی کام ہوئے اور کہاں نہیں انہوں نے کہاکہ کابینہ میں امن وامان کے بارے میں بھی مکمل جائزہ لیاگیا اور یہ تصدیق کی گئی کہ دہشتگردی کے بارے میں سیکورٹی فورسز نے جو کامیابی حاصل کی وہ قابل ستائش ہے جبکہ کابینہ نے اس امر پر بھی اعتماد کیاگیا کہ کوئٹہ شہر میں کار اور موٹر سائیکل چوری کے واقعات میں 97فیصد ختم کمی ہوئی ہے انہوں نے کہاکہ 2015اور2016کے کل 2250اسکیمات ہیں جن میں1310نئی اور940جاری اسکیمات ہیں انہوں نے کہاکہ اس سلسلے میں بعض اوقات بروقت فنڈز جاری نہ ہونے کی وجہ سے مسائل پیدا ہوتے ہیں لیکن وزیراعلیٰ نے بڑی سختی کے ساتھ ہدایت جاری کی ہے کہ جون سے پہلے تمام پروجیکٹ کو مکمل اور فنڈز ریلیز کیا جائے انہوں نے کہاکہ ان اسکیمات کے علاوہ104او راسکیمات بھی ہیں جن کو 70فیصد اسکیمات ایک مہینے کے اندر مکمل کرینگے انہوں نے کہاکہ امن وامان کے حوالے سے گزشتہ روز ایپکس کمیٹی کا اجلاس منعقد ہوا اور بدھ کے روز کابینہ کا اجلاس جن کے اثرات جلد بلوچستان کے عوام کو ملیں گے انہوں نے کہاکہ پرامن بلوچستان کے بارے میں فراریوں کے متعلق کچھ شکایات موصول ہوئے ہیں اور حکومت اس سلسلے میں پالیسی پر نظر ثانی کرینگے اور ان لوگوں کومراعات نہیں دینگے جو فراریوں کے نام پر رقم وصول کرنے کے باوجود حکومتی رٹ کو چیلنج کرتے ہیں انہوں نے کہاکہ بلوچستان میں اغواء برائے تاؤان کے وارداتوں میں 98فیصد جبکہ قومی شاہراہوں پر راہزنی کے واقعات میں97فیصد کمی ہوئی ہیں مزید بہتری لانے کیلئے صوبائی حکومت بھرپور کوشش کررہی ہیں انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی سطح پر نام کمانے والے عمران خان کو صوبائی حکومت نے شاباش دی اور یہ فیصلہ کیا کہ جلد وزیراعلیٰ بلوچستان ان کے اعزاز میں چائے پارٹی دی جائیگی انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہاکہ مسلم باغ میں جو واقعہ رونما ہوا وہ قابل افسوس حکومت اس سلسلے میں کمیٹی قائم کردی ہے رپورٹ آنے کے بعد فیصلہ کرینگے کہ ایف آئی آر کی ضرورت ہے کہ نہیں لیکن صوبائی حکومت یکطرفہ کارروائی پر کسی بھی صورت یقین نہیں رکھتے ہیں کابینہ میں توسیع اور مزید ایڈوائز لئے جانے کے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ جلد ہی مرحلہ وار کام کیا جائے گا۔ایڈیشنل سیکرٹری نصیب اللہ بازئی نے کہاکہ موجودہ حکومت کی اولین ترجیح تعلیم‘صحت ‘زراعت اور دیگر ہے جبکہ کوئٹہ میں پانی کا جو مسئلہ ہے ان کے حل کیلئے منگی ڈیم اور بولان سے پانی لانے کیلئے پالیسی بھی بنائی گئی ہے اور اس سلسلے میں فنڈز بھی مختص کی ہے انہوں نے کہاکہ رقم کو واپس کرنے سے پہلے تمام اسکیمات کو جون سے قبل مکمل کی جائیگی۔