کوئٹہ: بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سابق وزیراعلیٰ سردار اختر جان مینگل نے کہا ہے کہ ہم ترقی کے مخالف نہیں لیکن بلوچ قوم کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی اجازت نہیں دینگے کیونکہ گزشتہ68 سالوں سے بر سر اقتدار رہنے والے حکمرانوں کا رویہ ہمارے ساتھ ایک جیسا رہا ہے گوادر کی ترقی کی باتیں ہمارے لئے نہیں بلکہ حکمرانوں کیلئے ہے صوبے کے ساحل وسائل کا اختیار بلوچستان کے منتخب عوامی نمائندوں کے حوالے کیا جائے بلوچستان کے سیندک سے ہمارے اور دوسرے حکمران ارب پتی بن گئے جبکہ بلوچستان کے لوگ خشک سالی سے نبر د آزما ہیں بلوچستان کے ساتھ ہونیوالے مظالم پر معافی مانگنے والوں نے بھی ظلم کئے ہیں ان خیالات کا اظہار انہوں نے اتوار کوبلوچستان نیشنل پارٹی کے زیراہتمام پارٹی کے مرحوم رہنما میر عنایت اللہ لانگو کی پہلی برسی کے موقع پرکوئٹہ پریس کلب میں منعقدہ تعزیتی ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیااس موقع پر پارٹی کے مرکزی نائب صدر پرنس آغاموسیٰ جان ، اے این پی کے صوبائی جنرل سیکرٹری نظام الدین کاکڑ،ایچ ڈی پی کے مرکزی وائس چیئرمین رضا وکیل ،جماعت اسلامی کے عبدالقیوم کاکڑ،بی ایس او کے مرکزی سیکرٹری جنرل منیر جالب بلوچ ،بی این پی کی مرکزی رہنما پروفیسر ڈاکٹر شہنازنصیر بلوچ ،ضلع کوئٹہ کے صدر اختر حسین لانگونے بھی خطاب کیا اس موقع پر بی این پی کے مرکزی سینئر نائب صدر ملک عبدالولی کاکڑ، مرکزی سیکرٹری اطلاعات آغا حسن بلوچ ایڈووکیٹ،ساجد ترین ایڈووکیٹ،موسیٰ بلوچ ،احمد نواز بلوچ ،غلام رسول مینگل ،اکبر مینگل،ملک مجید کاکڑ، منظوربلوچ،کونسلر فرزانہ بلوچ ،اے این پی کے ضلعی صدر ملک ابراہیم کاسی سمیت دیگربھی موجود تھے۔سردار اختر جان مینگل نے پارٹی کے مرحوم رہنما میرعنایت اللہ لانگوکوانکی قومی و سیاسی خدمات پر خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ساری زندگی بلوچ قوم ،بلوچ سرزمین اور اس پر آباد تمام اقوام کے حقوق کیلئے جدوجہد کی پارٹی کے خلاف جب نالے کے اس پار اور اس پار سے سازشیں ہوئیں تو انکو ناکام بنانے میں ان کا اہم کرداررہا ہے۔انہوں نے کہا کہ پارٹی کو مضبوط بنانے اور اسکا پروگرام گھر گھر پہنچانے اور پارٹی پرچم کو سربلند رکھنے میں میر عنایت اللہ لانگو نے ناقابل فراموش جدوجہد کی۔ انہوں نے کہاکہ دنیا میں روزانہ لاکھوں لوگ پیدا ہوتے اورمرتے ہیں اوردنیا جس کی آبادی اربوں میں ہے اس میں صرف وہی لوگ یاد رکھے جاتے ہیں جو اپنی زندگی میں بڑے کارنامے سرانجام دیتے ہیں ۔ اسوقت بلوچستان کے جو حالات ہیں ان سے بلوچستان کے باشعور عوام آگاہ ہیں اور جو لوگ بلوچستان کے دکھ کواپنا سمجھتے ہیں وہ بلوچستان کے حالات سے آگاہ ہیں ہمارے ساتھ 68سال میں وردی ،شیروانی ،کرتہ پاجامہ اور پگڑی والے تمام حکمرانوں نے ایک جیسا برتاؤ کیا بلوچستان کوبے گور لاشوں ،بم دھماکوں اور گولیوں کی بوچھاڑ ہی ملی ہم ہمیشہ یہ سمجھتے رہے ہیں کہ ظلم کا یہ سلسلہ انتہاء کو پہنچ کر ختم ہونے والا ہے مگر ایسا کبھی نہیں ہوا معافی مانگنے والوں نے ہمیشہ ظلم کئے گھر سے نکلنے والے نوجوانوں کی ایسی لاشیں واپس آئیں کہ جن کی مائیں نہیں دیکھ سکتی تھیں ہمارے ساتھ یہ سب کچھ اسلام یا ایک بھائی کے نام پر نہیں کیا گیا بلکہ ہمارے ساتھ آج تک جو کچھ ہوا ہے وہ ان رشتوں سے لاعلم ہیں 68سال سے ہماری گیس سے ہمیں ہی محروم رکھا جارہا ہے ہماری گیس سے حکمرانوں اورانکی خواتین برانڈجوتے پہنتی ہیں اور ہماری خواتین ننگے پاؤں پہاڑوں سے لکڑیاں جلانے کیلئے لاتی ہیں ہم کسی سے کچھ نہیں مانگتے ہمیں صرف اپنا حق دیا جائے ہماری سرزمین سے ٹنوں سونا لوٹ کر لے جایا جارہا ہے اورہمیں اسکی توقع نہیں کہ وہ سونا ہمیں دیا جائے گا مگرکم از کم ہمارے بچوں کو جوتے تو دیئے جائیں اورہمیں ہمارے حق سے محروم نہ کیا جائے سیندک سے آج بھی ہونے والی آمدنی سے ہمارے اور دوسرے حکمران ارب پتی بن گئے اور ہمارے لوگ خشک سالی کا مقابلہ کر رہے ہیں اب یہ سلسلہ مزید نہیں چلے گا ۔انہوں نے کہا کہ اقتصادی راہداری کی بڑی باتیں ہورہی ہیں اوراس تمام منصوبے کا مرکز وہ گوادر ہے جس کے عوام آج پینے کے پانی سے محروم ہیں اور حکمران گوادر کے عوام کو پانی دینے کی بھی صلاحیت نہیں رکھتے ۔انہوں نے کہا کہ ہم نے اس مسئلے پر ایک اے پی سی بلائی تھی جس میں تمام سیاسی جماعتوں نے شرکت کی اس کے اختتام پر جو مشترکہ قرار منظور کی گئی اس پر نہ صرف تمام سیاسی جماعتوں بلکہ این جی اوز ،سماجی تنظیموں اور صحافیوں کے دستخط بھی موجود ہیں اس میں پہلامطالبہ یہ کیا گیاتھا کہ بلوچستان کے ساحل و وسائل اور گوادر پورٹ کا اختیار بلوچ عوام کو دیا جائے گوادر میں بلوچ قوم کو اقلیت میں تبدیل ہونے سے بچانے کیلئے قانون سازی کی جائے اور مغربی روٹ پر ترجیحی بنیادوں پر کام کیا جائے۔انہوں نے کہا کہ جب ہم بلوچ قوم کو اقلیت میں تبدیل ہونے سے بچانے کیلئے قانون سازی کی بات کرتے ہیں تو حکمران اس پر توجہ نہیں دیتے اور جب انہیں اپنی ضرورت ہوتی ہے تو جمہوری تقاضوں اور روایات کو پس پشت ڈال کر ملٹری کورٹس بھی بنالیتے ہیں ۔انہوں نے ہماری اے پی سی کے چند دنوں بعد حکمرانوں نے ایک اے پی سی بلائی جس میں ان تمام سیاسی جماعتوں نے شرکت کی جنہوں نے ہماری اے پی سی میں بھی شرکت کی تھی مگر وہاں پر ہمارے مطالبات کو بھلاکر صرف مغربی روٹ کی تعمیر کی بات کی گئی ۔انہوں نے کہا کہ ان تمام حالات کا مقابلہ کرنے کیلئے جتنی ذمہ داری ہم پر عائد ہوتی ہے اتنی ہی ہمارے نوجوانوں پر عائد ہوتی ہے بی ایس او کے کارکنوں کواپنی تعلیم پر توجہ دینی چاہئے بدقسمتی سے آج بھی ہمارے صوبے کے 11لاکھ بچے اسکولوں سے باہر ہیں ایسے میں ہم چیلنجز کا مقابلہ نہیں کرسکتے گولی سے زیادہ قلم طاقتور ہے ہمارے بچے اور نوجوان قلم اور کتاب سے رشتہ جوڑیں۔تقریب سے پارٹی کے مرکزی نائب صدر پرنس آغاموسیٰ جان ، اے این پی کے صوبائی جنرل سیکرٹری نظام الدین کاکڑ،ایچ ڈی پی کے مرکزی وائس چیئرمین رضا وکیل ،جماعت اسلامی کے عبدالقیوم کاکڑ،بی ایس او کے مرکزی سیکرٹری جنرل منیر جالب بلوچ ،بی این پی کی مرکزی رہنما پروفیسر ڈاکٹر شہنازنصیر بلوچ ،ضلع کوئٹہ کے صدر اختر حسین لانگونے خطاب کرتے ہوئے میرعنایت اللہ لانگو کو انکی خدمات پر خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ساری زندگی بلوچ قوم ،بلوچستان اور یہاں آباد اقوام کے حقوق کیلئے بھر پور جدوجہد کی ۔مقررین نے کہا کہ اس وقت ہمیں کئی ایک مسائل کا سامنا ہے جن سے نجات کیلئے ہمارے اپنے اکابرین کی جدوجہد کو مشعل راہ بنانا ہوگا ۔انہوں نے کہا کہ 68سال کے دوران یہاں مختلف ناموں سے محکوم قوموں کو انکے حقوق سے محروم رکھا گیا بلوچ اورپشتون قومیں لاشیں اٹھااٹھاکرتھک چکی ہیں اسٹیبلشمنٹ نے ہمیں ہمیشہ اندھیرے میں رکھا ہم کسی سے نفرت نہیں کرتے مگر ہم اپنی قوموں کے حقوق کا مطالبہ کرتے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ صوبے میں آباد اقوام کے درمیان نفرتیں پھیلانے والی باتوں سے گریز کیا جائے بلوچستان اور بلوچ قوم کی تاریخ سے سب آگاہ ہیں ہم کسی سے نفرت نہیں کرتے اورنہ ہی تعصب کی بنیاد پر کوئی بات کرتے ہیں کالا باغ ڈیم جو بلوچوں کا مسئلہ نہیں تھا اس پر ہم نے اپنے سندھی اورپشتون بھائیوں کا ساتھ دیا مگر ہمارے ساتھ بلوچستان میں جو ہوااور سرداراخترمینگل کو دو سال جس طرح جیل میں رکھ کر اذیتیں دی گئیں اس پر ہمارے پشتون اورسندھی بھائیوں نے کوئی بات نہیں کی اب ایک یونیورسٹی جو بلوچ قوم کے عظیم ہیرو چاکر اعظم کے نام سے منسوب ہے اسکی مخالفت کرکے نفرت پھیلانے کی کوششیں کی جارہی ہیں جو درست نہیں ہیں اس سے گریز کیا جائے۔تقریب میں اسٹیج سیکرٹری کے فرائض غلام نبی مری نے سرانجام دیئے۔