|

وقتِ اشاعت :   March 8 – 2016

کراچی: سپریم کورٹ نے کراچی میں بد امنی کیس کی سماعت کے دوران امن و امان کے حوالے سے آئی جی سندھ کی پیش کردہ رپورٹ پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے اسے آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف قرار دے دیا،عدالت نے رپورٹ مسترد کرتے ہوئے آئی جی سندھ سے (آج) منگل کو دوبارہ رپورٹ طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت ملتوی کردی۔ پیر کو چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ نے کراچی رجسٹری میں شہر میں امن و امان سے متعلق کیس کی سماعت کی ۔سماعت کے دوران چیف سیکرٹری سندھ ‘ سیکرٹری داخلہ ‘ آئی جی سندھ اور رینجرز کے وکلاء بھی پیش ہوئے۔ عدالت عظمیٰ میں آئی جی سندھ نے پولیس کی کارکردگی رپورٹ پیش کی جس میں کہا گیا کہ شہرمیں ہونے والے جرائم میں نمایاں کمی آئی ہے،24 جولائی 2014 سے اب تک بھتہ خوری میں 60 فیصد ، بینک ڈکیتیوں میں 58فیصد،اسٹریٹ کرائم میں 20 فیصد، اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں 100 فیصد جب کہ ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں69فیصدکمی ہوئی ۔چیف جسٹس نے پولیس کی کارکردگی سے متعلق رپورٹ پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے آئی جی سندھ سے استفسار کیا کہ آپ کے سارے اعداد و شمار کا تعلق 2015 سے ہے جب رینجرز نے آپریشن شروع کیا، وہ جس کارکردگی کا ذکر کررہے ہیں اس میں رینجرز، پولیس اور دیگر ایجنسیوں کا مشترکہ کردار ہے، پولیس کا کام صرف اعداد و شمار جمع کرنا نہیں بلکہ تفتیش کرنا ہے، وہ یہ بتائیں کہ 2015 میں ٹارگٹ کلنگ کی جتنی وارداتیں ہوئی ہیں ان میں سے کتنے واقعات کے ملزمان پکڑے گئے، عدالت میں کتنے چالان پیش کئے گئے۔عدالت نے آئی جی سندھ کی جانب سے پیش کی جانے والی رپورٹ مسترد کرتے ہوئے سخت برہمی کا اظہار کیا اور آئی جی سندھ کی سرزنش کی۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے آئی جی سندھ سے استفسار کیا کہ کوئی ایسا ملزم جسے پکڑا گیا اور اس کے خلاف چالان بھی عدالت میں پیش کیا گیا ہو اس کی تفصیل دیں جس پر آئی جی سندھ نے کہا کہ پولیس بہت کام کررہی ہے، ہم نے 451 اشتہاری ملزمان کو پکڑا ہے، صفورا گوٹھ،عباس ٹاؤن اور ایئر پورٹ حملہ کیس میں ملزمان پکڑے، غلام حیدر جمالی کے جواب پر جسٹس امیر ہانی مسلم نے استفسار کیا کہ اگر 4 ہزار اشتہاری ملزمان شہر میں آزاد دندنا رہے ہوں تو امن وامان کی صورت حال کا کیا بنے گا،2 ہزار دہشت گرد آزاد گھوم رہے ہیں اور آپ کہہ رہے ہیں کہ امن ہوگیا‘ آپ جن کیسز کی بات کررہے ہیں وہ 2015 کے کیس نہیں ہیں اور وہ بھی ہماری مداخلت پر آپ نے پکڑے ہیں۔ 47 افراد کی لسٹ ہے اور آپ کہتے ہیں کہ اغوا برائے تاوان کے واقعات ختم ہوگئے۔ عدالت نے استفسار کیا کہ اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں کمی آئی ہے لیکن شارٹ ٹرم کڈنیپنگ بڑھ گئی ہے، پولیس کے بھی شارٹ ٹرم کڈنیپنگ میں ملوث ہونے کا انکشاف ہوا ہے، آپ کو معلوم ہے کہ شارٹ ٹرم کڈنیپنگ کیا ہے، اس سلسلے میں عامر فاروقی تحقیقات کی ہے اس بارے میں آپ کیا جانتے ہیں، آئی جی سندھ کی جانب سے تحقیقات کے بارے میں لاعلمی کا اظہار کرنے پر سپریم کورٹ نے ریمارکس دیئے کہ اگر آپ کو اتنا بھی نہیں معلوم تو پھر آپ کو وردی میں رہنے کا بھی حق نہیں ہے۔ جن کیسز کی تفتیش ہوئی ان کے ملزمان کے نام اور پتے موجود ہیں مگرآپ ان پر ہاتھ نہیں ڈالتے، بتائیں مفرور ملزمان کو کیوں نہیں پکڑے۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پے رول پر رہا کیے گئے لوگوں کی گرفتاری کے لیے کیا کیا گیا جس پر پراسیکیوٹر جنرل شہادت اعوان نے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ 70افراد کو پے رول پر رہا کیا گیا تھا، جن میں سے 54 کے مقدمات نپٹا دیئے گئے۔ 16 مقدمات زیر التواء ہیں۔18 ملزمان کو گرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیا ہے۔ کیس کی سماعت کے دوران رینجرز نے بھی اپنی رپورٹ عدالت کے روبرو پیش کی ۔رینجرز کی جانب سے پیش کی گئی رپورٹ میں کہا گیا کہ رینجرز کے اختیارات کو عارضی طور پر کم کیا گیا لیکن اس کا برا اثر پڑا پولیس اور حکومت سندھ رینجرز کے ٹارگٹڈ آپریشن میں رکاوٹ ہیں ڈاکٹر عاصم کیس کا حکومت نے پراسیکیوٹر تعینات نہیں کیا جبکہ 9 پراسیکیوٹرز کا معاملہ ابھی بھی زیر التوا ہے۔ 6 ہزار ملزمان کو گرفتار کرکے پولیس کے حوالے کیا لیکن پولیس کو غیر سیاسی نہیں کیا جارہا 5 سال میں رینجرز کے 2 ڈی جی تبدیل ہوئے لیکن پولیس میں بہت جلد تقررو تبادلے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے مقدمات پر اثر پڑتا ہے۔رینجرز کی رپورٹ پر عدالت نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ رینجرز نے تو پولیس کے خلاف پوری چارج شیٹ ہی پیش کردی۔روز روز پولیس افسران کے تبادلوں سے مقدمات پر اثر پڑتا ہے ایک ایک افسر کو چار چار پوسٹیں دی ہوئی کسی بھی پوسٹنگ پر کیوں نہ آئی جی کیخلاف کارروائی کی جائے پولیس کو سیاست سے پاک کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت (آج) منگل تک ملتوی کرتے ہوئے آئی جی سندھ سے دوبارہ رپورٹ طلب کرلی۔