|

وقتِ اشاعت :   March 14 – 2016

کراچی: سیاسی منظرنامے سے غائب رہنے والے متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیوایم) کے رہنما رضا ہارون نے سابق سٹی ناظم مصطفیٰ کمال کی پارٹی میں شامل ہونے کا اعلان کردیا۔ رضا ہارون آج اچانک دبئی سے کراچی پہنچے تھے۔ ڈیفنس میں مصطفیٰ کمال کی رہائش گاہ پر انیس قائم خانی، ڈاکٹر صغیر احمد، وسیم عالم اور افتخار عالم کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے مصطفیٰ کمال نے رضا ہارون کو خوش آمدید کہا۔ پریس کانفرنس کے دوران رضا ہارون کا کہنا تھا کہ باطل قوت کے سامنے کھڑا ہونا حوصلے کی بات ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں بتایا گیا تھا کہ ایم کیو ایم بنانے کا مقصد غریبوں کے حقوق کے لیے لڑنا ہے، لیکن یہ وہ ایم کیو ایم نہیں ہے، جس میں ہم نے شمولیت اختیار کی تھی۔
پارٹی قائد الطاف حسین کی جانب اشارہ کرتے ہوئے رضا ہارون نے کہا کہ کسی ایک شخص کی پوجا کرنے کے لیے ایم کیو ایم نہیں بنائی گئی تھی اور نہ ہی ہم کسی ایک شخص کو خوش کرنے کے لیے پارٹی میں شامل ہوئے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ آج وطن سے محبت کرنے والوں کو ‘را’ کا ایجنٹ کہا جاتا ہے اور پڑھے لکھے لوگوں پر ‘را’ کا ایجنٹ ہونے کا الزام لگایا گیا۔ رضا ہارون نے سوال کیا کہ قائد ایم کیو ایم نے جو غیر اخلاقی زبان استعمال کی وہ کوئی متحدہ کا رہنما دہرا کے بتادے۔

‘پہلے ہیپی آور ہوتا تھا، اب ہیپی 24 آور ہوتا ہے’

رضا ہارون نے الطاف حسین کی کثرت شراب نوشی، نشے میں خطاب اور پھر ‘معافی تلافیوں’ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ‘ہیپی آور’ ختم ہونے کے بعد معافی مانگی جاتی ہے، ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ پہلے صرف ‘ہیپی آور’ ہوتا تھا، اب ‘ہیپی 24 آور’ ہوتا ہے. انھوں نے ایم کیو ایم قائد کی غیر ملکی افواج سے مدد طلب کرنے اور خودساختہ جلاوطنی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ‘نیٹو اور را کو پاکستان آنے کی دعوت دینے والا شخص خود پاکستان کب آئے گا’. رضا ہارون نے ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کے بعد الطاف حسین کے لندن میں واقع گھر پر چھاپے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کارروائی لندن میں ہوئی اور احتجاج کراچی کی نمائش چورنگی پر ہوا، اسی طرح جب لاہور ہائی کورٹ نے ایم کیو ایم قائد کی تقاریر پر پابندی لگائی تو احتجاج لندن میں ڈیوڈ کیمرون کے گھر کے باہر ہوا۔

‘پارٹی رہنما تقاریر پر پابندی سے خوش’

رضا ہارون نے انکشاف کیا کہ الطاف حسین کی تقاریر پر پابندی سے پارٹی رہنما خوش ہیں. ان کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم قائد کو کسی سازش کی ضرورت نہیں، سازش کا شور مچانے والوں کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ان کے خلاف کوئی سازش نہیں ہورہی. ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ ‘اب سازش کا وقت ختم، مائنس ون باہر سے نہیں، اندر سے ہوگا’. الطاف حسین کی جانب اشارہ کرتے ہوئے رضا ہارون کا مزید کہنا تھا کہ ‘پارٹی کی تباہی کے لیے آپ کی مارکیٹنگ ہی کافی ہے’.

‘فاروق ستار معصوم ہیں’

ایم کیو ایم کے سینیئر رہنما فاروق ستار کے حوالے سے بات کرتے ہوئے رضا ہارون نے کہا کہ فاروق ستار معصوم ہیں اور وقت آنے پر وہ بھی ساتھ دیں گے۔ یاد رہے کہ گذشتہ روز فاروق ستار کا کہنا تھا کہ متحدہ کے ارکان اسمبلی کی وفاداریاں تبدیل کروانے کے لیے نامعلوم نمبروں سے ٹیلی فون کالز آ رہی ہیں اور ان کالز میں دھمکی آمیز انداز میں ‘پل کے اُس پار’ جا کر شمولیت کے لیے مشورہ دیا جا رہا ہے۔ جس پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے سابق ناظم کراچی مصطفیٰ کمال نے کہا تھا کہ ‘فاروق بھائی کو دونوں ہاتھوں سے سلام کرتا ہوں، وہ معصوم آدمی ہیں، ان کی باتوں کا میرے پاس کوئی جواب نہیں۔’

پارٹی کے نام کا اعلان 23 مارچ کو ہو گا، مصطفیٰ کمال

پریس کانفرنس کے دوران پارٹی کے نام کے حوالے سے سوال پر مصطفیٰ کمال کا کہنا تھا کہ نام سے پارٹی کے کام پر فرق نہیں پڑے گا، ساتھ ہی انھوں نے کہا کہ 23 مارچ کو پارٹی کے نام کا اعلان کیا جائے گا۔ یاد رہے کہ رواں ماہ 3 مارچ کو ایم کیو ایم کے سابق سینیٹر اور سابق سٹی ناظم کراچی مصطفیٰ کمال اور انیس قائم خانی نے پارٹی سے الگ ہو کر نئی جماعت بنانے کا اعلان کیا تھا، اس پارٹی میں متحدہ قومی موومنٹ کے رکن سندھ اسمبلی ڈاکٹر صغیر احمد، افتخار عالم اور وسیم آفتاب شامل ہو چکے ہیں جبکہ ان کی جانب سے مزید افراد کے شامل ہونے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے. مصطفی کمال 2005 سے 2009 تک متحدہ قومی موومنٹ کی جانب سے کراچی کے نامزد ناظم رہے، ایم کیو ایم نے انہیں 2011 میں سینیٹ کا ٹکٹ جاری کیا تاہم اپریل 2014 میں سینیٹ سے مستعفی ہونے کے بعد وہ پارٹی میں مکمل طور پر غیر فعال ہو گئے، پاکستان واپسی تک وہ دبئی میں پاکستان کی ایک بہت بڑی ریئل اسٹیٹ کمپنی میں ملازمت کر رہے تھے۔ دوسری جانب انیس قائم خانی متحدہ قومی موومنٹ کی رابطہ کمیٹی کے کنوینر رہ چکے ہیں، 2013 کے بعد سے وہ پارٹی میں غیر فعال شمار کیے جاتے ہیں جبکہ ڈاکٹر عاصم حسین کیس میں ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری ہو چکے ہیں۔ گذشتہ روز میڈیا سے گفتگو میں مصطفیٰ کمال کا کہنا تھا کہ کوئی نوجوان پیدائشی دہشت گرد اور ٹارگٹ کلر نہیں ہوتا، ان نوجوانوں نے جرم کیے ہوں گے لیکن انہیں راستے پر واپس لانا ہوگا اور واپسی کا راستہ دینا ہوگا۔