لندن: وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ شروع سے اسکاٹ لینڈ یارڈ اور برطانوی حکومت سے رابطے میں رہے،برطانوی ہم منصب سے ایم کیو ایم منی لانڈرنگ، عمران فاروق قتل کیس پر بات ہوئی ہے،منی لانڈرنگ ، عمران فاروق قتل کیس پر آئندہ دنوں میں مثبت پیشرفت ہو گی،سرفراز مرچنٹ سے بات چیت جاری ہے،سابق برطانوی ڈپٹی ہائی کمشنر سے بھی تفتیش ہو گی۔منگل کو وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان اور برطانوی ہم منصب تھریسامے کے درمیان ہونے والی ملاقات کے بعد جاری اعلامیے کے مطابق ملاقات میں عمران فاروق قتل کیس میں دونوں ملکوں کی تحقیقاتی ایجنسیوں میں جاری تعاون اور منی لانڈرنگ کیس میں بھی تحقیقاتی ایجنسیوں میں جاری تعاون پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ اعلامیہ کے مطابق دونوں ملکوں کی تحقیقاتی ایجنسیاں ایک دوسرے کے ملک کا دورہ کریں گی۔ملاقات میں اتفاق کیا گیا کہ عمران فاروق قتل کیس، منی لانڈرنگ کی تحقیقات آزادانہ و شفاف ہوں گی،دونوں ممالک اپنے متعلقہ قوانین کے مطابق تحقیقات کریں گے۔ ملاقات میں پاکستان اور برطانیہ کا انٹیلی جنس معلومات کا تبادلہ مضبوط بنانے کیلئے مشترکہ ٹیم بنانے پر اتفاق کیا گیا،مشترکہ ٹیم میں نیکٹا اور وزارت داخلہ کے حکام بھی شامل ہوں گے۔اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ ہر قدم پر برطانیہ کے ساتھ معلومات کا تبادلہ بھی رہا،شروع سے اسکاٹ لینڈ یارڈ اور برطانوی حکومت سے رابطے میں رہے،بین الاقوامی جرائم کے خلاف کارروائی میں حوالگی معاہدے کا نہ ہونا رکاوٹ نہیں بننا چاہیے،برطانوی ہم منصب سے ایم کیو ایم منی لانڈرنگ، عمران فاروق قتل کیس پر بات ہوئی ہے،منی لانڈرنگ ، عمران فاروق قتل کیس پر آئندہ دنوں میں مثبت پیشرفت ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ منی لانڈرنگ کامعاملہ پاکستان کی سیکیورٹی سے متعلق اہم ہے،جے آئی ٹی یہاں آئے گی اور مختلف محکموں سے بات کرے گی۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ سرفراز مرچنٹ سے بات چیت جاری ہے،سابق ڈپٹی ہائی کمشنر سے بھی تفتیش ہو گی۔دریں اثناء وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا ہے کہ دہشت گردی اب عالمی مسئلہ بن چکا ہے ،عالمی برادری اسکے خاتمے کیلئے مل کر کوشش کرے، مسلمان دشمن نہیں یہ تو خود دہشت گردی کا شکار ہیں، دنیا ہم پر اعتبار کرے ،نائن الیون حملہ غیر انسانی فعل تھا، اس کا پاکستان سے کوئی تعلق نہیں،مسئلہ پاکستان کے مستقبل کا ہے ، پاکستان کے کئی سیکیورٹی مسائل دوسروں کی وجہ سے پیدا ہوئے، دہشت گردی کے مسئلے کا ایک حل تمام جگہوں پر موثر نہیں ہو سکتا،دہشت گردی کا مسئلہ سرحد کے آر پار جانے والے چند دہشت گردوں تک محدود نہیں،شدت پسندی کا مسئلہ معاشرے میں پھیلی ہوئی ذہنیت سے جڑا ہے، بھٹکے ہوئے افراد کو دہشت گردوں تک پہنچنے سے روکیں گے، انٹیلی جنس کی بنیاد پر 14ہزار آپریشن کئے گئے،دہشت گردی کے 80فیصد واقعات میں مسلمان نشانہ بنے، دہشت گردوں کی ہٹ دھرمی کے باعث رائے عامہ تبدیل ہوئی، تحفظ کی پہلی ذمہ داری پولیس پر پھر دیگر اداروں پر عائد ہوتی ہے، ایم کیو ایم کی خواہش پر کراچی آپریشن کا فیصلہ میرا تھا۔وہ منگل کو لندن نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اسٹرٹیجک اسٹڈیز سے خطاب کر رہے تھے۔ پاکستان کو سیکیورٹی کے کثیر الجہتی مسائل کا سامنا ہے، تقسیم برصغیر کے بعد کئی مسائل کو حل نہیں کیا گیا تھا، دیرینہ حل طلب مسائل کی وجہ سے خطے میں تنازعات جنم لیتے رہے۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ پاکستان کو بارہا سیکیورٹی کے پیچیدہ مسائل کا سامنا رہا، افغانستان پر سویت یونین کے حملے سے پاکستان کو بڑا سیکیورٹی مسئلہ درپیش ہوا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے کئی سیکیورٹی مسائل دوسروں کی وجہ سے پیدا ہوئے،پاکستان کو کئی بار دہشت گردوں اور عسکریت پسندوں سے لڑنے کیلئے تنہا چھوڑ دیا گیا۔ چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ افغانستان پر حملہ ہوا تو پاکستان اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا، امریکہ میں نائن الیون حملہ غیر انسانی فعل تھا، نائن الیون حملوں کے ذمہ داران میں سے کسی کا تعلق پاکستان سے نہیں تھا،نائن الیون کے بعد تمام تر بوجھ پاکستان پر لاد دیا گیا، نائن الیون حملوں کے بعد کی صورتحال پاکستان کی خود مختاری پر سمجھوتہ کیا گیا، نائن الیون کے بعد فوجی حکمران نے جلد بازی میں غلط فیصلے کئے، فوجی آمر کے غلط فیصلوں کی پاکستان آج بھی قیمت چکا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 3 سال پہلے پاکستان میں تشدد اور دہشت گردی کے روزانہ 6 سے 7 واقعہ ہوتے تھے اور عسکریت پسندوں نے پاکستان بھر میں حملے شروع کر رکھے تھے۔ دہشت گردی سے اسلام آباد جیسے شہر میں بیسیوں افراد کی جانیں ضائع ہوتی رہیں اور نائن الیون کے بعد غلط فیصلوں سے پاکستان پر تباہ کن اثرات مرتب ہوئے۔چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ دہشت گردی کا مسئلہ سرحد کے آر پار جانے والے چند دہشت گردوں تک محدود نہیں، موجودہ حکومت نے دہشت گردی کو پہلے مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کی، شدت پسندی کا مسئلہ معاشرے میں پھیلی ہوئی ذہنیت سے جڑا ہے، شدت پسندی کا مسئلہ معاشرے میں پھیلی ہوئی ذہنیت سے جڑا ہے، شدت پسندوں سے مذاکرات میں حکومت مکمل طور پر خلوص تھی۔ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ افغانستان پر امریکی حملے سے مکمل لا تعلق ،بے گناہ شہری دہشت گردی کا نشانہ بنے،موجودہ حکومت نے شدت پسندی کو پہلے مذاکرات سے حل کرنے کی کوشش کی، شدت پسندوں سے مذاکرات کیلئے سول اور فوجی اتفاق کے ساتھ سیاسی اتفاق رائے بھی تھا، امن مذاکرات کے دوران بھی دہشت گردوں نے پاکستان میں کارووائیاں جاری رکھیں، دہشت گردوں کی ہٹ دھرمی کے باعث رائے عامہ تبدیل ہوئی، دہشت گردوں کے خلاف فوجی کاروائی مکمل قومی اتفاق سے شروع کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف آپریشن انٹیلی جنس اداروں کے درمیان جامع روابط ہیں، پاکستان میں 30سے زائد انٹیلی جنس ادارے مربوط انداز میں کام کر رہے ہیں۔ وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ تحفظ کی پہلی ذمہ داری پولیس پر پھر دیگر اداروں پر عائد ہوتی ہے، دہشت گردی کی روک تھام کیلئے نفاذ قانون کے اداروں کا موثر نظام مرتب کیا، اللہ کے فضل سے 3 سال میں پاکستان کی سیکورٹی پالیسی کامیاب ہو رہی ہے، گزشتہ 8برس میں امن و امان کی صورتحال اب سب سے بہتر ہے، دہشت گردی کے واقعات میں 54فیصد کمی ہوئی، خود کش حملوں کے واقعات میں 31 فیصد کمی ہوئی اسے مزید بہتر بنائیں گے، بھٹکے ہوئے افراد کو دہشت گردوں تک پہنچنے سے روکیں گے، انٹیلی جنس کی بنیاد پر 14ہزار آپریشن کئے گئے۔ چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ ملکی اداروں نے خودکش حملے روکنے کیلئے واضح کامیابی حاصل کی، دہشت گردی کا اب کوئی ایک واقعہ بھی ہو تو سخت عوامی رد عمل آتا ہے، ماضی میں دہشت گردی کے اتنے واقعات ہوئے کہ عوامی رد عمل ختم ہو گیا تھا، پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف شعور بیدار ہو گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے سیکیورٹی اداروے انتہائی کامیاب کاروائی کر رہے ہیں، ہمارے خطے میں عالمی طاقتوں کی مداخلت کے باعث پاکستان پر اثرات پڑے، پاکستان میں آج ہر ادارہ اور ہر فرد شدت پسندی کے خلاف متحرک ہے، دہشت گردی اب عالمی مسئلہ بن چکا ہے اور عالمی برادری مل کر کوشش کرے