|

وقتِ اشاعت :   May 9 – 2016

پاناما سٹی: دنیا کے کئی ممالک میں تہلکہ مچانے والے پاناما پیپرز کا تنازع اُس وقت مزید شدت اختیار کرجائے گا، جب صحافیوں کا گروپ انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹی گیشن جرنلسٹس (آئی سی آئی جے) پاناما پیپرز سے متعلق کئی دستاویزات آن لائن جاری کردے گا۔ آئی سی آئی جے یہ دستاویزات عالمی وقت کے مطابق شام 6 بجے آن لائن کرے گا، جن تک عوام offshoreleaks.icij.org کی ویب سائٹ کے ذریعے براہ راست رسائی حاصل کرسکیں گے۔
آئی سی آئی جے کا کہنا ہے کہ وہ مشہور زمانہ وکی لیکس کی طرح دستاویزات کی بھرمار نہیں کرے گا، بلکہ دنیا بھر میں امیر افراد کی جانب سے قائم کی گئیں 2 لاکھ آف شور کمپنیوں کے نام اور ان کے حوالے سے دیگر معلومات سے متعلق انکشافات کرے گا۔
پاناما میں آف شور کمپنیوں سے متعلق معاملات کے لیے مشہور لاء فرم موزیک فانسیکا کی جانب سے چند ہفتوں قبل، تقریباً چار دہائیوں کے ڈیٹا پر مشتمل انتہائی خفیہ دستاویزات کے بعد کئی ممالک کی سیاست میں تہلکہ مچ گیا تھا۔
دستاویزات میں جن سیاسی رہنماؤں اور شخصیات سے متعلق جو انکشات سامنے آئے، اس کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کی جھلک مندرجہ ذیل ہے۔
•آف شور کمپنی کے انکشاف کے بعد آئس لینڈ کے وزیر اعظم کو عوامی احتجاج کے باعث مجبور ہو کر عہدے سے استعفیٰ دینا پڑا۔ • برطانیہ کے وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے اعتراف کیا کہ انہوں نے اپنے والد کی قائم کردہ آف شور کمپنی سے منافع حاصل کیا۔ • روسی صدر ولادی میر پیوٹن کے قریبی رشتہ دار کا نام سامنے آیا، جس کے بعد روسی صدر نے یہ دعویٰ کیا کہ پاناما پیپرز، ان کے خلاف امریکا کی سازش ہے۔ • ارجنٹینا کے صدر ماریکیو ماکری کا بھی آف شور کمپنیوں سے تعلق سامنے آیا۔ • چین میں سیاسی رہنماؤں کے خاندان کی آف شور کمپنیوں سے تعلقات سے خبریں میڈیا اور سوشل نیٹ ورکس پر چلانے پر پابندی عائد کردی گئی۔ • پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف کا نام بھی ان کے بچوں کے حوالے سے پاناما لیکس میں سامنے آیا، جس کے مطابق وزیراعظم کے بچے مریم، حسن اور حسین ’کئی کمپنیوں کے مالکان ہیں یا پھر ان کی رقوم کی منتقلی کے مجاز تھے‘۔ • دیگر مشہور افراد، جن میں دستاویزات افشا ہونے کے بعد بے چینی پیدا ہوئی، ان میں اسٹار فٹبالر لیونل میسی، ہانگ کانگ کے فلم اسٹار جیکی چین اور ہسپانوی فلم ڈائریکٹر پیڈرو الموڈور کے نام شامل ہیں۔ موزیک فانسیکا کے نجی ڈیٹا بیس سے 2.6 ٹیرا بائٹس پر مشتمل عام ہونے والی ان معلومات کو امریکی سفارتی مراسلوں سے بھی بڑا قرار دیا جا رہا ہے۔