واشنگٹن: امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان مارک ٹونر نے، افغان طالبان کے امیر ملا اختر منصور کو کس جگہ ڈرون حملے کا نشانہ بنایا گیا، اس سے بے خبری کا اظہار کردیا۔
میڈیا بریفنگ کے دوران جب ایک صحافی نے مارک ٹونر سے سوال کیا کہ ملا منصور کو پاک افغان سرحد کے کس طرف نشانہ بنایا گیا، تو ان کا کہنا تھا کہ انہیں ابھی یہ واضح معلومات نہیں ہیں کہ اصل میں ڈرون حملہ کہاں ہوا۔
مارک ٹونر کے مطابق وہ ابھی صرف یہ کہہ سکتے ہیں کہ ڈرون حملہ پاک افغان سرحدی علاقے میں کیا گیا لیکن یہ نہیں بتا سکتے کہ آیا یہ علاقہ پاکستان کا تھا یا افغانستان کا۔
ترجمان محکمہ خارجہ سے جب یہ پوچھا گیا کہ کیا انہیں پاکستان کے اس دعوے پر شک ہے کہ ڈرون حملہ ان کی سرحد میں ہوا، تو مارک ٹونر نے کہا کہ پاکستانی حکومت اپنے حوالے سے خود بات کرسکتی ہے، میں اس کے دعوے پر شک نہیں کر رہا، لیکن ابھی تک میرے علم میں صرف یہ بات ہے کہ ڈرون حملہ پاک افغان سرحدی علاقے میں کیا گیا۔
ملا اختر منصور کون تھے؟
• ملا اختر منصور کا تعلق افغانستان کے صوبے قندھار سے تھا، اُن کی عمر 50 سال تھی۔
• انہوں نے جولائی 2015 میں ملا عمر کی موت کے بعد افغان طالبان کی کمان سنبھالی۔
• افغان طالبان کے امیر نے نوشہرہ کے جلوزئی مہاجر کیمپ میں دینی مدرسے تعلیم بھی حاصل کی تھی۔
• طالبان دور حکومت کے دوران ملا اختر منصور 2001-1996 تک افغانستان کے سول ایوی ایشن کے وزیر بھی رہے۔
• افغانستان پر اکتوبر 2001 میں امریکی حملے کے دوران دیگر طالبان رہنماؤں کی طرح ملا اختر منصور بھی نامعلوم مقام پر روپوش ہوئے۔
• سابق سویت یونین کے خلاف جنگ میں ملا اختر منصور نے بھی حصہ لیا تھا۔
میڈیا بریفنگ کے دوران ترجمان امریکی محکمہ خارجہ نے کہا کہ امریکا، اپنے فوجیوں کے لیے خطرہ بننے والے دہشت گردوں کے خلاف ڈرون حملے جاری رکھے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم پاکستان کی علاقائی سالمیت کا احترام کرتے ہیں، لیکن جیسا کہ ہم پہلے کہہ چکے ہیں کہ ہم، امریکی افواج کے خلاف براہِ راست حملوں کے منصوبہ بندی کرنے اور اس کی ہدایت دینے والے شدت پسندوں کے خلاف کارروائی جاری رکھیں گے۔
افغان طالبان کا امیر ملا اختر منصور، ہفتہ کو بلوچستان میں امریکا کے پہلے ڈرون حملے میں مارا گیا تھا۔
پاکستان نے ڈرون حملے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے اسے پاکستان کی علاقائی خود مختاری کے خلاف قرار دیا، جبکہ ڈرون حملوں کے حوالے سے 2010 میں امریکا کو ’ریڈ لائنز‘ واضح کردی گئی تھیں، جس میں خاص طور پر بلوچستان کو نو گو ایریا بتایا گیا تھا۔
مارک ٹونر نے ملا اختر منصور کی ہلاکت کو تشدد کا راستہ ترک نہ کرنے والوں کے لیے واضح پیغام قرار دیتے ہوئے کہا کہ امریکا اپنے اور افغان شہریوں پر حملہ کرنے والوں کو محفوظ جنت میں نہیں رہنے دے گا، جبکہ افغان طالبان کے پاس واحد راستہ مذاکرات ہیں۔
حملے کا سیاسی مقصد؟
ترجمان امریکی محکمہ خارجہ سے سوال کیا گیا کہ اپنے امیر کی ہلاکت کے بعد کیا طالبان امن مذاکرات میں شامل ہوں، جس کے جواب میں مارک ٹونر نے کہا کہ اب ان کے پاس اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ ملا منصور کے خلاف ڈرون حملے کا بنیادی مقصد اس شخص کو ختم کرنا تھا، جو خطے میں امریکی اور افغان فورسز پر حملوں اور ان کی منصوبہ بندی میں فعال طور پر شامل تھا۔
طالبان پر اثر
ملا منصور پر حملے کے طالبان پر اثر کے حوالے سے مارک ٹونر نے کہا کہ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اس حملے کے بعد طالبان کو شکست ہو گئی ہے، تاہم یہ ان کے لیے واضح پیغام ہے کہ اگر وہ امریکی اور افغان افواج کے خلاف حملے جاری رکھیں گے تو انہیں بھی نشانہ بنایا جائے گا اور انہیں محفوظ پناہ گاہیں نہیں ملیں گی۔
مارک ٹونر کا کہنا تھا کہ اس حملے میں طالبان کے لیے یہ پیغام بھی ہے کہ وہ یہ فیصلہ کریں کہ ان کا مستقبل کیا ہوگا؟ اور کیا وہ افغانستان کے ایک پرامن سیاسی مستقبل کا حصہ بنیں گے۔