کوئٹہ : بلوچ آزادی پسند رہنما ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے کہا ہے کہ ہر سرزمین کی شناخت اس پر بسنے والی قوم سے ہے۔ آج اگر بلوچ اپنی اس جنگ کونہ لڑے یا یہ جنگ میں کمزوری کا مظاہرہ کرے یا دشمن کے جبر تلے دب جائے تو بلوچ قوم کے تشخص کو زیادہ خطرہ لاحق ہوگا۔انہوں نے سرمچاروں کو دئیے گئے ایک لیکچر میں مزید کہا کہ بلوچستان میں پاکستان چائنا اکانامک کوریڈور جو بن رہا ہے، جہاں اتنے صنعتی زون لگیں گے، اس سے بلوچ قوم کا نام و نشان مٹ جائے گا۔ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے کہا کہ انسان کا بنیادی تصور اور خیال ہمیشہ ترقی اور بہتری کی جانب گامزن ہوتا ہے۔ بنیادی طور پر انسان اپنے آپ کوخود تبدیل کرتا ہے۔ وہ اپنے سماج سے متاثر ہوتا ہے یا اپنی ذات میں ان چیزوں، جن میں خرابیاں ہوں یا وہ زائد المیعاد خصلتیں ہوں، کی بابت ادراک کرلے تو یہ عوامل اسے تبدیل ہونے پر مجبور کردیتے ہیں۔ جیسا کہ غلامی،وقت کی عدم پابندی، عدم برداشت، جلد بازی وغیرہ بری عادتیں ہیں۔ ان تمام خصلتوں میں انسان اس وقت تبدیلی لاسکتا ہے جب وہ خود احساسات وپختگی کی معرفت پانے میں کامیاب ہوجائے۔ انسان سیاسی اور معاشرتی حوالے سے ایک دوسرے کا محتاج ہوتا ہے۔ محتاج کا مطلب بھکاری نہیں بلکہ ایک دوسرے پر آسرا رکھنا ہے۔ جیسا کہ کوئی مالداری کرتا ہے تو اس سے لوگ مویشی خریدتے ہیں؛ کوئی دکانداری کرتا ہے تو اس سے پرچون لیتے ہیں؛ مطلب یہ کہ معاشرتی حوالے سے انسان ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں اپنی ذات میں تبدیلی لانے کے بعد جب انسان چاہتا ہے کہ وہ اپنے معاشرے میں تبدیلی لائے تو تب اسے ایک تنظیم کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور اسکی تنظیم کے بنیادی مقاصد واضح ہونے چاہئیں۔ کسی کے ذہن میں یہ گمان نہ ہو کہ اسکی تنظیم کے مقاصد مبہم ہیںیا اس کا فہم اور شعور اسے قبول نہیں کر رہے ہیں مگر پھر بھی وہ اس کی تقلید کررہا ہے۔ یعنی کہ قربانی ایک ایسی شے ہے جسے انسان شعور اور فہم و فراست سے قبول کرتا ہے جو قطعاً ناسمجھی اور لا علمی کا کام نہیں ہے۔ لاعلمی کا مراد یہ نہیں ہے کہ کسی نے دس یا سولہ جماعتیں پاس کی ہیں بلکہ لاعلمی سے مراد نافہمی ہے۔ ایسے بہت سارے لوگ ہیں جنہوں نے پی ایچ ڈی کیے ہوئے ہیں لیکن ان میں سمجھ اور علم نہیں، وہ لاعلم ہے۔ انہیں اپنے معاشرے کی کچھ خبر نہیں ہے۔ اپنی تہذیب اور قومی معاملات کے حوالے سے مکمل طور پر لاعلم ہیں انکی پڑھائی کو کوئی علم نہیں کہہ سکتا علم کا جو پیمانہ ہے اس میں ڈگری نہیں آتی یعنی کسی نے دس، بارہ، چودہ، سولہ جماعتیں پڑھی ہو یا کسی نے ڈاکٹریٹ یا پی ایچ ڈی کیا ہو بلکہ اس کی فہم و بصیرت اور مستقبل کی جانکاری ہی اس کی اصل ذہانت ہے اور کس طرح وہ اس تیز رفتار دنیا میں اپنی اور اپنے قومی تشخص کوتحفظ دے سکتا ہے یہی علم ہمارے لئے ضروری ہے ہندوستان میں برطانیہ کی اپنی ضرورت کے تحت کلرک، فورسزکے عام سپاہی، منشی، چپڑاسی، چوکیدار سب مقامی تھے ہندوستانی سرکار کو چلانے والے چھوٹے موٹے منتظم بھی مقامی تھے لیکن وہ لوگ جو فہمیدہ تھے انہوں نے اپنی قومی تشخص کی بقاء کیلئے لڑنا شروع کیا آج سے 65 یا 66 سال قبل ہندوستان نے برطانیہ کو مجبور کردیا کہ وہ وہاں سے نکل جائے۔ برطانیہ کو یہ احساس ہوا کہ ہندوستان پر مزید رہنا فائدے کے بجائے نقصاندہ ہے تو لہٰذا اس نے ہندوستان چھوڑنے میں ہی عافیت جانی آج اس قوم کی اپنی ایک شناخت اور آزادانہ حیثیت ہے اور ہندوستان دنیا میں ایک طاقتور ملک اور معیشت کے طور پر ابھر رہا ہے آج اگر بلوچ اپنے قومی تشخص کو بچانے کیلئے جدوجہد کررہا ہے، اسے یہ احساس ہوا ہے کہ اگر آج اس نے اپنے قومی تشخص کو تحفظ نہیں دیا تو اس تیز رفتار دنیا میں اس کا وجود مٹ جائے گاہر سرزمین کی شناخت اس پر بسنے والی قوم سے ہے آج اگر بلوچ اپنی اس جنگ کونہ لڑے یا یہ جنگ میں کمزوری کا مظاہرہ کرے یا دشمن کے جبر تلے دب جائے تو بلوچ قوم کے تشخص کو زیادہ خطرہ لاحق ہوگا اگر آپ بلوچستان، وہ بلوچستان جسے پاکستان نے تقسیم کیا ہوا ہے، میں بلوچوں کی مردم شماری کریں تو ان کی آبادی ڈیڑھ کروڑ، ایک کروڑ ستر یا اسّی لاکھ سے زیادہ نہیں ہے لیکن اگر یہاں پر گیارہ بارہ صنعتی زون قائم کیے جائیں جہاں غیر ملکی آکر صنعتکاری کریں اور پاکستان کے وہ علاقے جہاں زمین کی تنگی ہے جیسا کہ پنجاب ہے یا کراچی ، سکھر ،حیدر آباد میں آباد مہاجر ہیں، انہیں وہاں زمین کی تنگی ہے اور اسی باعث وہ بلوچستان کا رخ کرنے کیلئے حیلے بہانے تراشتے ہیں اور آنے والے دس سالوں میں کم و بیش مزید دو کروڑ کی آبادی بلوچستان آجائے گی ان کی تعداد میں مقامیوں کی نسبت تیزی سے اضافہ ہوگاجس طرح کراچی پہلے بلوچوں کا تھا آج کراچی میں ان کی حیثیت کیا ہے؟ انہیں نہ تعلیم و صحت کی سہولیات میسر ہیں اور نہ ہی رہائشی علاقے اور اچھی سڑکیں ان کی زندگیاں تباہ و برباد ہیں اور وہ دبے ہوئے ہیں آج وہاں کی معیشت و حکمرانی غیر مقامی و مہاجر اقوام کے ہاتھوں میں ہے مہاجر جو کہ کوئی قوم نہیں ہے ان میں سے کوئی ہندوستان کے اتر پردیش سے آیا ہے تو کوئی مدیحہ پردیش سے کوئی سی پی سے تو کوئی بہار سے آیا ہے کوئی بنگال سے تو کوئی گجرات سے وارد ہوا ہے یہ سب مختلف اقوام سے تعلق رکھتے تھے اور مختلف جگہوں سے آئے ہیں اور یہاں مہاجر بن گئے آج ان کا مقصد کیا ہے؟ اردو کسی کی زبان نہیں ہے لیکن وہ اردو کو بطور اپنی زبان کے اپنانے پر مجبور ہیں آج کراچی کے تمام واک و اختیارات مہاجر کے ہاتھ میں ہیں بلوچستان میں پاکستان چائنا اکانامک کوریڈور جو بن رہا ہے، جہاں اتنے صنعتی زون لگیں گے، اس سے بلوچ قوم کا نام و نشان مٹ جائے گا مثال کے طور پرانگریز نے جب خان گڑھ سے کوئٹہ تک ریلوے لائن بچھائی تو اس پورے رستے پرآج پنجابی مہاجر آباد ہیں سبی، مچھ، نصیر آباد میں مہاجر آباد ہیں اور کوئٹہ پنجابی مہاجروں کا مسکن بنا ہوا ہے بلوچ کی آبادی سے ان کا حصہ زیادہ ہے اور اگر اتنے غیرمقامی لوگ صنعتکاری، کارخانوں اور سڑکوں کے جال کیساتھ وارد ہوجائیں تو بلوچ قوم کا تشخص ختم ہو جائے گا۔ جس سرزمین بلوچستان پر آج ہم رہ رہے ہیں، اس کا اختیار و طاقت، سیاسی اقتدار اعلیٰ اگر ہمارے ہاتھ میں نہ رہا تو ہم ایک آزاد و خودمختار قوم کی حیثیت سے قائم نہیں رہ پائیں گے ہمارا سب سے بڑا مسئلہ اپنے قومی تشخص کے تحفظ کا ہے ظاہر ہے ہم اپنا قومی تشخص صرف اس وقت بچا سکتے ہیں جب سیاسی اقتدار اعلیٰ ہمارے اپنے ہاتھوں میں ہو اور یہی ہمیں اس بے رحم دنیا سے بچاسکتی ہے ہر قوم میں بد طینت لوگ ہوتے ہیں جو اپنی قوم کی قتل وغارت میں ملوث ہوتے ہیں کل کی مثال لے لیں، جیسا کہ یہاں مشکے میں عیدو یا مہراللہ ہیں؛ یا راشد پٹھان، شفیق مینگل، نواب رئیسانی، ثنا اللہ زہری، سردار محمد حسنی ہے؛ سرداروں کا ایک بڑا جتھہ ہے جو سب کے سب ریاست کی بغل میں بیٹھے ہوئے ہیں اور یہاں بلوچ قوم کی نسل کشی ہورہی ہے کمسن بچوں سے لیکر بوڑھوں تک کسی کو نہیں بخشا جارہا ہے پوری کی پوری بستیاں جلائی جارہی ہیں اور اس میں آپکے لوگ شامل ہیں یہ مثال صرف یہاں نہیں ہے بلکہ دنیا بھرمیں ایسے موقع پرست اورمنافق لوگوں کی بہتات ہے جو یہ دیکھتے ہیں کہ انکی قوم تباہ ہورہی ہے اور وہ آنکھیں نیچی کرلیتے ہیں اور اپنے ذاتی مفاد کیلئے دشمن کی صفوں میں چلے جاتے ہیں تب اُس قوم کو صرف ایک چیز ہی بچاسکتی ہے اور وہ ہے مزاحمت جنگً،فکری جنگ، نظریاتی جنگ اور اسلحے کیساتھ جنگ یعنی آپ کو اگر کہیں کوئی تحریر لکھنے کا موقع ملے یا کسی جلسے کی صورت میں عوام کو آگاہی دینے کا یا دشمن کیخلاف نبرد آماہونے کیلئے کوئی بندوق ہاتھ آئے یا پتھر ہاتھ آئے جسے اٹھا کر آپ اپنے دشمن کو ماریں یا دس افراد کو دشمن کے ارادوں کے بارے میں آگا ہی دیں تب آپ جنگ جیت جائیں گے کیونکہ آپ اپنی سرزمین سے دشمن کی نسبت زیادہ واقف ہیں اور یہ آپ کا اپنا وطن ہے اور آپ اسکی پیچیدگیوں اور معاشرتی معاملات سے دشمن سے زیادہ واقف ہیں اور آپ اپنے پختہ یقین کے ساتھ دشمن کیخلاف مزاحمت کرکے اپنی تشخص اور تہذیب و ثقافت کو تحفظ فراہم کرسکتے ہیں جسے فرنگی زبان میں کلچرل رِزِسٹینس یا ثقافتی مزاحمت کہتے ہیں اس کو جب آپ قائم رکھیں گے تو آپ کا دشمن ناکام ہوجائے گا باہر کے لوگ نہیں آسکیں گے ہمیں معلوم ہے کہ ریاست کا مزید دو فورسزکور قائم کرنے کا منصوبہ ہے، ایک تو پہلے ہی سے قائم ہے ایک کور نوشکی میں قائم کیا جانے والا ہے، جو کہ ایک لیفٹیننٹ جنرل کے ماتحت ہوتا ہے، جبکہ دوسرا کور سوئی میں قائم کیا جائے گا۔ نوشکی میں سیندک اور ریکوڈک ہیں اور سوئی میں گیس فیلڈ، جہاں وہ اپنی فورسزتعینات کرنا چاہتے ہیں اور ایک بریگیڈ صرف گوادر میں لایا گیا ہے اور آج اس نے اپنا کام شروع کردیا ہے کل رات خبروں میں تھا کہ وہاں پینے کیلئے پانی نہیں ہے لیکن دس ہزار فورسز کے اہلکارلائے گئے ہیں اور پورا گوادر شہر سیل کردیا گیا ہے ان کا کہنا ہے کہ میرے یعنی فورسز بھی پنجاب کا کوئی بھٹی ہے، بریگیڈیئر صاحب کے دستخط کے بغیر کوئی بھی گوادر شہر میں داخل نہیں ہوسکتا بالفرض اگر میرے ماں باپ گوادرمیں رہتے ہوں اورمیرا بھائی گوادر سے باہر رہتا ہے تو وہ بھی گوادر میں داخل نہیں ہوسکتا ابھی روڈ مکمل تیار نہیں ہے، ریل کا نظام نہیں ہے، غرض کچھ بھی نہیں ہے صرف گوادر پورٹ تیاری کے مراحل میں ہے اور ہمارا یہ حال ہے دس ہزار سے زائد فورسز کے اہلکار صرف گوادر کی حفاظت کیلئے لائے گئے ہیں جو کہ گوادر کی حفاظت کیلئے نہیں ہیں بلکہ یہ ہماری قوم کے خاتمے کی ابتداء ہے ہم جانتے ہیں کہ وہ طاقتور ہیں اورماڑہ میں ان کا نیول بیس ہے، وہ ہمیں ماریں گے۔ گوادر میں بریگیڈ لایا گیاہے اور کل وہاں ایک کور کمانڈر تعینات کیا جائے گا کل مرکزی بلوچستان میں فورسزتعینات کریں گے اسی طرح نوشکی میں بھی کور کمانڈر کی تعیناتی کا منصوبہ ہے بہت ساری نئی انفینٹری لائی جارہی ہے وہ ہمیں مار سکتے ہیں ہمارے گھر جلا سکتے ہیں ہمارے بچوں کو مارسکتے ہیں شاید ہمیں کمزور کرسکیں، چونکہ یہ ایک فطری امر ہے، لیکن وہ ہمیں ختم نہیں کرسکتے وہ بمبارمنٹ کرسکتے ہیں، انکے پاس جیٹ جہاز ہیں، ان کے پاس ایٹم بم ہے،سب چیزیں ہیں لیکن ان کے پاس ایک چیز نہیں ہے اور وہ ہے قومی جذبہ ان کے ہتھیار ختم ہوجائینگے ان کے فورسزاہلکار بیزار ہوجائینگے غیر مقامی لوگ جو یہاں آئینگے وہ بھی بیزار ہوکر چلے جئینگے۔ لیکن آپ جتنا زیادہ کمزور ہو ں گے آپکا قومی جذبہ اتنا ہی مضبوط تر ہوجائے گاآج ڈیرہ غازیخان میں اگر کوئی بلوچ شہید ہوجائے تو مجھے یہاں بیٹھے تکلیف ہوتی ہے اور اگر میں یہاں مرجاؤں تو ڈیرہ غازی خان سے شال، چاہبار اور بندرعباس کے بلوچوں کو ٹھیس پہنچے گی یہ کیا ہے؟ یہ قومی جذبہ ہے ایک ہی زبان اور ایک ہی تہذیب و ثقافت ہے ہمارے پاس یہی جذبہ ہے اسی لئے ہم کمزور تو ہوسکتے ہیں لیکن ختم نہیں ہوسکتے اس کے پاس قومی جذبہ نہیں ہے وہ کرائے کے لوگ ہیں۔ساتھیو، ایک اور بات یہ کہ ہمیں قطعی طور پر مایوس ہونے کی ضرور ت نہیں ہے کہ ہمارا کوئی کمانڈر شہید ہو، لیڈر یا پارٹی سربراہ شہید ہوجائے یہ ہوتے رہتے ہیں اور یہ چیزیں ناگزیر ہیں لیکن ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ دوسری جنگ عظیم میں جب امریکی صدر روزولٹ مرجاتا ہے تو اسکی جگہ نائب صدر ٹرومین حلف اٹھاتا ہے وہ دوسری جنگ عظیم میں مخالفین کو شکست دیتا ہے، جاپان پر دو ایٹم بم گراتا ہے یہ ٹرومین تھا کیسے ایک متوفی صدر کی جگہ ایک نائب صدر آجاتا ہے؟ ادھر ریاست ایک تنظیم کی شکل میں موجود ہے وہ بااعتماد ہے کہ میری قوم اور میرا ملک میرے ساتھ کھڑے ہیں اور اختیارات میرے ہاتھ میں ہیں ہمیں بھی یہی سمجھنا چاہیے کہ ہم ایک تنظیم ہیں کمانڈر کی موت کے بعد نائب کمانڈر اسکی جگہ لے گا اگر کوئی شہید ہوتا ہے تو اس کی جگہ پر کوئی دوسرا ساتھی آ جائے گا اگر سربراہ شہید ہوجائے تو تنظیم کا ڈپٹی سربراہ اس کی جگہ لے گا جنگ ختم نہیں ہوگی یہ جنگ جو اتنے سال جاری رہی ہے یہ ختم نہیں ہوگی پہلی ودوسری جنگ عظیم میں ملکوں کے درمیان جیٹ جہاز استعمال ہوئے ہیں لیکن ہم نے کھبی نہیں سنا کہ ایک قوم جو اپنی سرزمین کی اقتدار اعلیٰ کیلئے لڑ رہی ہو اور دوسری ریاست نے اس پر جیٹ جہازوں سے بمباری کی ہو کبھی نہیں سنا یہ اقوام متحدہ کے قوانین خلاف ورزی ہے اگر ہمیں گرفتار کیا جاتا ہے تو ہمیں جنگی قیدی شمار کیا جائے جب وہ ہمیں باغی اور شورش پسند گردانتے ہیں تو ہمیں مکمل حقوق دینے چاہئیں لیکن یہ ایک بدمعاش ریاست ہے یہ ایک دلال ریاست ہے اور یہ دوسروں کے پیسوں پر پلنے والی ریاست ہے جو دوسروں کے فائدے کیلئے جنگیں لڑتا ہے آپ اندازہ لگائیں کہ گذشتہ سولہ سالوں سے یہ امریکا اور یورپ کیلئے جنگ لڑرہا ہے دو سالوں سے آپریشن ضرب عضب چل رہا ہے اور وہ بھی امریکا و یورپ کیلئے اس کی فورسزکرایے کی فورسز ہے کسی کے پاس بہت سارے پیسے ہوں تو وہ اس کی فورسز کو خرید سکتا ہے اگر آج میرے پاس ایک کروڑ روپے ہوں تو میں اس کے ایک بریگیڈیئر کو خرید سکتا ہوں یہ کوئی ایسی فورسزنہیں ہے کہ جسے آپ سمجھیں کہ اس میں کوئی قومی جذبہ ہے ہر بریگیڈ یئر چاہتا ہے کہ اس کی پوسٹنگ بلوچستان میں ہو تاکہ وہ وہاں پیسہ کمائے مال بنائے اگر کوئی قدرتی آفت آجائے تو اس کیلئے جاری بجٹ کو بھی فورسز اپنے ہاتھ میں لے لیتی ہے مشرف دور میں فورسز کو بجلی کے کھمبوں پرلگایا گیا اور ایک بریگیڈئر لیفٹیننٹ جنرل واپڈا کا سربراہ تھاکبھی ڈیموں پر بیٹھا زمینیں قبضہ کر رہا ہے تو کھبی بزنس میں لگا ہوا ہے یہ ایک کاروباری اور کرایے کی فورسزہے اس میں کوئی قومی جذبہ نہیں ہیمیں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر اس کی فورسزکے آٹھ یا نو کور کمانڈر یا جتنے بھی ہوں، نو میں سے سات ان غیر اقوام کے لوگ ہیں جن کے پاس بہت سارا پیسہ ہے۔ اور یہ انکے اپنے ادارے کے فیصلوں کو نہیں مانتے۔ ااگر قومی جذبہ ہوتا توامریکی وزیر خارجہ مشرف کو یہ نہ کہتا کہ ’اگر ہمارا ساتھ نہیں دوگے تو ہم تمہیں پتھر کے دور میں پہنچا دینگے۔‘ اور وہ کہتا ہے کہ ’جی ہم آپ کے ساتھ ہیں۔‘ اگر ان میں قومی جذبہ یا قومی عظمت ہوتی تو وہ اسے قبول نہ کرتے لیکن چونکہ ان میں قومی جذبہ نہیں ہے۔ مشرف تو حویلی والا ہے، لکھنو دہلی سے آیا ہوا۔ مدتوں سے پاکستان میں ہے لیکن کہتا پھرتا ہے کہ اسے ہندوستان عزیز ہے۔ اور وہ وہاں اپنی والدہ کیساتھ جاتا ہے۔ اپنی جائے پیدائش دیکھتا ہے، اسے عزیز ہے۔ مطلب یہ کہ اس کی فطری ہمدردیاں ہندوستان کے ساتھ ہے۔ آج فورسزمیں زیادہ تر مہاجر اور پنجابی ہیں۔ ایک پنجاب ہندوستان میں ہے اور ایک پاکستان میں۔ مہاجر کو جب کوئی تکلیف ہوتی ہے تو وہ اپیل کرتے ہیں کہ ہندوستان ہمیں جگہ دے۔ یعنی کہ اگر کوئی مہاجر یہاں وزیر بنتا ہے ،مہاجرفورسزمیں آتا ہے، اسی طرح کوئی پنجابی فورسزمیں آتا ہے یہ سب کرایے کے لوگ ہیں۔ کسی میں قومی جذبہ نہیں ہے۔ اسی لئے کرایے کی فورسزجلد ازجلد شکست کھالیتی ہے۔ ہماری جو یہ فورسزہے اس میں ایک قومی جذبہ موجود ہے۔ ہم اس قومی جذبے کو کس طرح سنوار سکتے ہیں اور اسے کیسے صحیح راہ پر لگا سکتے ہیں؟ تو لہٰذا ہم اسے مکمل نظم و ضبط اور پابندی کے اصولوں کے ساتھ ایک تنظیم کے حوالے کردیتے ہیں۔ اگر تنظیم، نظم و ضبط اور پابندی ہم میں ہو تو بھلے ہی ہم کمزور ہوں لیکن شکست نہیں کھا سکتے۔ شکست ہمارے دشمن کا مقدر ہے۔ سرمایہ کار اور اس کی فورسزبیزار ہوکر بھاگ جائیں گے۔ اس کے کمانڈر بھی اپنی پوسٹنگ بلوچستان میں نہیں کریں گے، وہ بھی چھوڑ کر چلے جائیں گے۔ وہ کسی سپاہی کو بلوچستان میں بھیجیں تو وہ بھی بھاگ جائیں گے یا استعفیٰ دیکر بھگوڑے بن جائیں گے۔ آج ان کے کتنے فورسز بھگوڑے بن رہے ہیں۔ کتنے فورسزکے اہلکار خوف سے بلوچستان کا رخ نہیں کرتے۔ کتنے افسر خوف سے بلوچستان میں نہیں آرہے ہیں۔ اس لئے کہ یہاں آپکی قوم موجود ہے آپکی اپنی زمین اور قومی جذبہ ہے اور اُن کا صرف اور صرف تنخواہ ہے۔ آج فورسز کے بجائے وہ کوئی اور پیشہ اختیار کرسکتے ہیں۔لہٰذاہمیں اپنے قومی جذبے کو جلا بخشنے کیلئے تنظیمی پابندی اور پختگی کی ضرورت ہے۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ جنگوں میں لوگ تھک جاتے ہیں۔ ایک فردوں کا تھکنا اور دوسرا مجموعی تھکنا۔ فرد تھک جاتے ہیں۔ دن میں ایک یا دو تھک جاتے ہیں۔ لیکن قومی جذبہ اور قومی ذہانت یا پختگی کھبی نہیں تھکتے۔ آج کئی دنوں سے ریڈیو، ٹی وی، اخبارات، سب یہ پروپیگنڈہ کر رہے ہیں کہ بلوچ غیر مسلح ہورہے ہیں اور وہ ریاستی دھارے میں آرہے ہیں لیکن کتنے لوگ گئے ہیں؟ گزشتہ شب بتا رہے تھے کہ چھ سو سے زائد لوگ ہم نے مار دیئے ہیں اور چار سو سے زائد لوگوں نے ہتھیار ڈال دیئے ہیں۔ پہلے وہ کہتے تھے کہ بلوچ آزادی پسند صرف دو سو ہیںآج کیسے چار سو نے ہتھیار ڈال دیئے اور چھ سو لوگ ہلاک کئے گئے؟ ہزار تو صرف یہی بنتے ہیں۔ وہ خود کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے آٹھ ہزار افراد صرف اسی سال بلوچستان سے حراست میں لئے ہیں۔ یہ لوگ کون ہیں؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ جھوٹ بول رہے ہیں۔ بیس ہزار سے زائد بلوچوں کو تو پہلے ہی لاپتہ کیا گیا ہے۔ آٹھ ہزار افراد نیشنل ایکشن پلان کے تحت حراست میں لئے گئے ہیں۔ ایک سال میں اتنے افراد کی شہادت اور اتنے افراد کا ہتھیار ڈالنا اور اتنے افراد کی گرفتاری کے باوجود اس کی فورسز خوفزدہ ہے۔ پھر بھی ہمارے کیمپ مضبوط ہیں، ہماری سرزمین پر مزاحمت اسی طرح جاری ہے کیونکہ ہماری وابستگی ایک قوم اور ایک تنظیم کے ساتھ ہے کسی کرایے کے ساتھ نہیں۔ ہم کرایے کے سپاہی نہیں ہیں کہ پیسے ہونگے تو ہم لڑیں گے اور اگر پیسے نہ ہوں تو نہیں لڑیں گے۔ میرے خیال میں آج ہم سب یہاں خلوص دل کیساتھ آئے ہیں اور ہمیں یہ مثال قائم کرنی ہے کہ اگر آج ہم اپنا وطن آزاد نہ کرا سکے تو اپنے آنے والی نسلوں کیلئے ایک راہ چھوڑ جائیں تاکہ وہ اس پر چلیں اور اسی طرح اُنکی آئندہ نسل اسی راہ کو اپنائے اس راہ کو صرف ایک تنظیم اور وقت کی پابندی استوار کرسکتی ہے جو ہمیں اپنی منزل کی جانب کامیابی دلاسکتی ہے۔