|

وقتِ اشاعت :   June 22 – 2016

کراچی : چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ سجاد علی شاہ کے پراسرار طور پر لاپتہ ہونے والے بیٹے اویس شاہ کی بازیابی کے لیے کوششیں تیز کر دی گئی ہیں ۔ ایس آئی یو ، اے وی سی سی ، سی پی ایل سی ، ایس ایس یو واقع کی تفتیش کر رہے ہیں۔ڈی جی رینجرز نے جائے وقوعہ کا معائنہ کیا ۔ ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی ثنا اللہ عباسی اور ایس آئی یو کی ٹیم نے بھی جائے وقوعہ کا دورہ کیا ۔ عینی شاہدین کے مطابق شلوار قمیض پہنے چار مسلح افراد اویس علی کو ایک گاڑی میں لے گئے ۔ اویس علی شاہ کے موبائل ریکارڈ سے کوئی مشکوک کال نہیں ملی ہے ۔تفتیشی ذرائع سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے بیٹے اویس علی شاہ کا سراغ لگانے کی کوششیں تیز کر دی گئی ہیں ۔ ایس آئی یو ، اے وی سی سی ، سی پی ایل سی ، ایس ایس یو واقعے کی تفتیش کررہے ہیں ۔ ڈی جی رینجرز سندھ میجر جنرل بلال اکبر منگل کی صبح سویرے کلفٹن میں واقع نجی سپر سٹور پہنچے اور جائے وقوعہ کا معائنہ کیا ۔ ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی ثنااللہ عباسی اور ایس آئی یو کی ٹیم نے بھی جائے وقوعہ کا دورہ کیا ۔ ڈی ایس پی رشید کا کہنا ہے کہ اویس علی کو لیجانی والی گاڑی کی آخری لوکیشن ٹیپو سلطان کی آئی تھی ۔ مختلف علاقوں سے ایس ایس یو نے 20 سے 25 مشتبہ افراد کو حراست میں لیا ہے ۔ حراست میں لئے گئے افراد سے تفتیش جاری ہے ۔ تفتیشی ذرائع کے مطابق اویس علی شاہ کا موبائل ریکارڈ حاصل کرلیا گیا ۔ موبائل ریکارڈ سے کوئی مشکوک کال نہیں ملی ۔ اویس علی شاہ نے مختلف اوقات میں اہل خانہ اور دوستوں سے رابطہ کیا ۔ اویس شاہ کا موبائل فون کینٹ سٹیشن کے قریب بند ہوا ۔ 18 مختلف سی سی ٹی وی کیمروں کی فوٹیج حاصل کرلی گئی ہے ۔ پولیس کی مختلف ٹیمیں شہر کی مختلف کچی آبادیوں میں سرچ آپریشنز میں مصروف ہیں ۔ دو عینی شاہدین نے پولیس کو بیان قلمبند کرایا ہے جس کے مطابق شلوار قمیض پہنے چار مسلح افراد اویس علی کو شاپنگ سینٹر کے باہر کھڑی ایس پی 0586 گاڑی میں لے گئے ۔ پولیس کے مطابق اویس علی شاہ کی آخری لوکیشن کینٹ سٹیشن کے قریب آئی تھی ۔ ایس پی 0586 نمبر پلیٹ والی سفید گاڑی ڈیفنس سے شارع فیصل تک دیکھی گئی ۔ یہ گاڑی شارع فیصل کے قریب ٹیپو سلطان تھانے کی حدود میں دیکھی گئی ۔ وزیر اعلی سندھ اور گورنر سندھ کے واقعہ کا نوٹس لے کر شہر کے داخلی و خارجی راستوں پر سرچنگ کے عمل کو تیز کرنے کا حکم دیا ہے ۔دریں اثناء پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرینز کے سربراہ اورسابق صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ اویس علی شاہ کی بازیابی کیلئے جے آئی ٹی تشکیل دی جائے اورٹیم میں تمام انٹیلی جنس کے نمائندوں کو شامل کیا جائے اور بازیابی کیلئے تمام وسائل بروئے کار لائے جائیں۔ سابق صدر آصف علی زرداری نے چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ کے صاحبزادے اویس علی شاہ کے اغوا پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اویس علی شاہ کی بازیابی کیلئے جے آئی ٹی تشکیل دی جائے اور ٹیم میں تمام انٹیلی جنس کے نمائندوں کو شامل کیا جائے۔انہوں نے کہاکہ معاملے کی تحقیقات کرائی جائیں اور مشترکہ تحقیقاتی ٹیم میں تمام ایجنسیوں کو شامل کیا جائے ۔اویس علی شاہ کی بازیابی کیلئے تمام وسائل بروئے کا ر لائے جائیں،علاوہ ازیں وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے کہا ہے کہ چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ سید سجاد علی شاہ کے بیٹے ایڈوکیٹ سید اویس شاہ کا پوش علاقے سے اغوا ہونا سنجیدہ سیکیورٹی لیپس ہے لیکن میں نے اس معاملے کو سنجیدہ لیا ہے اور انشاء اللہ ہم اسے جلد ہی بازیاب کرا لیں گے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے منگل کے روزوزیراعلیٰ ہاؤس میں منعقدہ امن و امان کے حوالے سے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔اجلاس کے ایجنڈا میں ایڈوکیٹ اویس شاہ کی بازیابی ، شہر میں امن و امان برقرار رکھنے کے لئے ٹھوس اقدامات اٹھانے کے لئے حکمت عملی اور 21ویں رمضان کے حوالے سے سیکیورٹی پلان اور کراچی آپریشن کا جائزہ شامل تھا ۔ اجلاس کو بریفینگ دیتے ہوئے انسپیکٹر جنرل سندھ پولیس اے ڈی خواجہ نے بتایا کہ ایڈوکیٹ اویس شاہ کو دوپہر ڈھائی بجے کے قریب ایک شاپنگ سینٹر کے احاطے سے 4مسلح افراد نے اغوا کیا ۔ ہم نے شاپنگ سینٹر کے باہر پارک کی گئی انکی گاڑی حاصل کر لی ہے اور 3 عینی شاہدین کے بیانات بھی ریکارڈ کر لیئے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ اویس شاہ کی فیملی نے افطار کے وقت پولیس کو اطلاع دی کہ وہ پراسرار طریقے سے گم ہو چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کے احکامات پر میں اور چیف سیکریٹری سندھ چیف جسٹس سندھ جسٹس سید سجاد علی شاہ کے ہاں گئے اور ان سے انکے بیٹے کی اغوا کے بارے میں بات چیت کی تب تک وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے ڈی جی رینجرز اور حساس اداروں سے ذاتی طور پر بات کر کے تمام فورسسز کو ہائی الرٹ کر دیا تھا ۔ آئی جی سندھ نے مزید کہا کہ رینجرز اور حساس اداروں کے تعاون سے ایڈوکیٹ اویس شاہ کو اغوا کرنے والی مشکوک کار کی نشاندہی کی گئی ہے اور ہمیں یقین ہے کہ تمام اداروں کی باہمی کاوشوں سے یہ کیس بہت جلد ہی حل کیا جائیگا۔ وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے کہا کہ یہ ایک بہت ہی سنجیدہ سیکیورٹی لیپس ہے اور یہ کس طرح ممکن ہوا کہ چار مسلح افراد آئے اور ایک شاپنگ سینٹر کے احاطے سے دن کے ڈھائی بجے کسی کو اغوا کر لیا اور پولیس اور دیگر ایجنسیوں کو تب تک پتہ ہی نہ چلا جب تک مغوی کی فیملی نے اسکی رپورٹ نہیں کی جو کہ حیرت انگیز اور افسوسناک بات ہے ۔ ڈی جی رینجرز بلال اکبر نے کہا کہ کراچی آپریشن تیزی سے جاری ہے لیکن اسکو مزید موثر اور جامع حکمت عملی اختیار کرنے کی اشد ضرورت ہے جس سے شہر میں دیر پا اور پائیدار امن قائم ہوگا۔ سید اویس شاہ کے اغواکے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دہشت گرد تنظیمیں اس ملک میں عدم استحکام پیدا کرنا چاہتی ہیں ۔ اور یہ ایک بہت ہی سنجیدہ معاملہ ہے اور ہم سب مختلف زاویوں سے سنجیدگی کے ساتھ کام کر رہے ہیں وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے تمام اداروں کو احکامات دیئے کہ شہر سے دہشت گردوں اور کریمنلز کے خاتمے کے لئے آپریشن کلین اپ میں مزید تیزی لائی جائے کیونکہ اب بہت ہو چکا اور کریمنلز کی سرگرمیوں کو بالکل بھی برداشت نہیں کیا جائیگا۔ حساس اداروں کے نمائندگان نے وزیراعلیٰ سندھ کو اپنے کام کی تفصیلات بتائی اور کہا کہ جیو فنسنگ کے ذریعے اویس شاہ کو اغوا کرنے والی مخصوص کار کا پتہ لگایا جاسکتا ہے ۔ انہوں نے مزید بتایا کہ انکے موبائل فون کی کسی بھی سرگرمی پر نظر رکھے ہوئے ہیں جو کہ ابھی تک بند ہے ۔ وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے کہا کہ شہر میں اسٹریٹ کرائم میں اضافہ ہوا ہے اور کریمنلز شاپنگ سینٹرز اور چوراہوں سمیت دیگر علاقوں سے کھلے عام لوٹ مار کر رہے ہیں جس کو ہر صورت میں ختم کیا جائے ۔ اس موقع پر وزیراعلیٰ سندھ نے پالیسی فیصلے لیتے ہوئے محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن اور سندھ پولیس کو حکم دیا کہ جعلی نمبر پلیٹ والی گاڑیوں کے خلاف کاروائی شروع کی جائے۔ اس پر سینئر صوبائی وزیر خزانہ سید مراد علی شاہ نے نشاندہی کی کہ کچھ افراد شہر میں اپنی ذاتی گاڑیوں پر بھی پولیس کی گاڑیوں کی جعلی نمبر پلیٹ لگا کر گھوم رہے ہیں جس کو بھی ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے تمام اداروں کو حکم دیا کہ غیر قانونی ہتھیار رکھنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیا جائے کیونکہ غیر قانونی ہتھیار جرائم میں استعمال ہوتے ہیں۔ انہوں نے محکمہ داخلہ کو ہدایت دی کہ تمام سیکیورٹی ایجنسیوں کی تصدیق شروع کی جائے اور انکے پاس موجود اسلحے کا بھی معائنہ کیا جائے ۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ صوبائی وزیر قانون پراسیکیوشن کو ذاتی طور پر مانیٹر کریں کیونکہ ابھی بھی بہت سی شکایات موصول ہور ہی ہیں کہ کریمنلز عدالتوں سے ضمانت لینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ کراچی اور صوبے کے دیگر علاقوں میں رہنے والے غیر ملکیوں کی سرگرمیوں پر بھی کڑی نظر رکھی جائیگی۔ اجلاس میں یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ صوبے کی سرحدوں کی داخلی اور خارجی حصوں پر اسکیننگ سسٹم کو مزید مستحکم کیا جائیگا۔ وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ اس چیکنگ سسٹم کو مزید مضبوط اور آٹو میٹیک بنایا جائے ۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ تما م ایجنسیوں کے مابین انٹیلیجنس رپورٹ کے تبادلے اور وزیراعلیٰ سندھ کو ہر تین گھنٹے میں پروگریس رپورٹ بھیجی جائیگی ۔ وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے آئی جی سندھ پولیس اور رینجرز کو 21ویں رمضان کو سیکیورٹی بڑھائی جائے اور اس دوران جلوسوں اور مجالسوں کو فول پروف سیکیورٹی فراہم کی جائے ۔ اجلاس میں صوبائی وزراء سید مراد علی شاہ ، سہیل انور سیال ، مرتضی ٰ وہاب ، مولا بخش چانڈیو، چیف سیکریٹری سندھ ، ڈی جی رینجرز بلال اکبر ، آئی جی سندھ پولیس اے ڈی خواجہ ، پرنسپل سیکریٹری علم الدین بلو، ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی ، حساس اداروں کے صوبائی سربراہان اور دیگر متعلقہ افسران نے شرکت کی۔ بعد ازاں وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سید سجاد علی شاہ کے ہاں گئے اور انکے ساتھ حساس اداروں کی معلومات اور انکے بیٹے کے اغوا کیس میں اب تک کی پروگریس کے حوالے سے بات چیت کی۔ انہوں نے چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ کو یقین دہانی کرائی کہ میں ذاتی طور پر اس کیس کو مانیٹر کر رہا ہو ں اور انکے بیٹے کو بہت جلد بازیاب کرا لیا جائیگا۔