|

وقتِ اشاعت :   July 10 – 2016

وارسا : نیٹو کے سیکر ٹری جنر ل سٹو لٹن بر گ اتحاد نے کہا ہے کہ مشکلات کے با و جود نیٹو اتحاد آ ئند ہ تین سا ل میں افغا نستان کو سا لا نہ بنیاد وں پر ایک ارب ڈالر کی امداد فرا ہم کر تا ر ہے گا،افغا نستان سے متعلق تین اہم فیصلے کر لیئے گئے جس کے مطا بق 2016کے بعد بھی افغان اسپو رٹ مشن جا ری رکھتے ہو ئے طو یل المد تی سیا سی شرا کت دا ری اور عملی تعاون کو جا ری رکھا جا ئے گا۔نیٹو کے دو روزہ سر برا ہی اجلاس کے بعد سٹو لٹن بر گ نے تفصیلات کے حوا لے سے پر یس بر یفنگ میں بتا یا کہ افغا نستان کے مستقبل سے متعلق تین اہم فیصلے کیئے گئے ہیں جس کے تحت مستحکم اور علا قا ئی ما ڈل کے تحت 2016کے بعد افغان اسپو رٹ مشن جا ری رکھا جا ئیگا،2020کے اختتام تک سا لا نہ بنیادوں پر افغا نستان کو ایک ار ب ڈالر سا لا نہ فرا ہم کیئے جا ئیں گے اور جنگ زدہ ملک کے ساتھ طو یل المد تی سیا سی شرا کت اور عملی تعاون جا ری رکھا جا ئیگا۔افغان سیکیو رٹی فو رسز اب اپنے ملک میں امن و عا مہ کو برقرار ر کھنے کی ذ مہ دار ہیں،افغان افواج عوام کی مدد سے ملک کا د فا ع کر تی رہیں گی،افغان افواج کو مکمل تر بیت، معا ونت اور رہ نمائی فرا ہم کی جا تی رہے گی،افغا نستان کو سنجیدہ و مشکل صورتحا ل کے ساتھ تا حا ل تشدد کا سا منا ہے لہذا نیٹو کی افغا نستان کے لیئے مستقل بنیا دوں پر سیا سی ، فو جی اور ما لی معا ونت جا ری رہے گی۔افغا نستان کے لیئے دنیا کا پیغام وا ضح ہے کہ افغان قوم تنہا نہیں ہے ہم سب اس کے ساتھ کھڑ ے ہیں اور یہ عزم جا ری رہے گا۔دریں اثناء نیٹو فورسز نے افغانستان کے لیے عسکری تربیت اور مالی معاونت کو مسلسل جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ اس امر کا اعلان وارسا میں جاری مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے اجلاس میں کیا گیا ہے۔نیٹو رہنماؤں نے ہفتے کے روز اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ مغربی دفاعی اتحاد افغانستان کے لیے امداد اور فورسز کی تربیت کا سلسلہ جاری رکھے گا۔ افغان صدر اشرف غنی نے کہا ہے کہ پاکستان کے سوا تمام پڑوسی ممالک سے تعلقات کا ثمر مل رہا ہے پاکستان عملی طور پر اچھے اور برے دہشتگردوں میں امتیاز کی پالیسی برقرار رکھے ہوئے ہے اشرف غنی نے ہفتہ کے روز اپنے بیان میں پاکستان پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان کو تمام پڑوسی ممالک سے تعلقات کا ثمر مل رہا ہے سوائے پاکستان کے انہوں نے کہا کہ پاکستان دہشتگردوں کیخلاف کارروائی نہیں کررہا اور آج بھی اچھے اور برے دہشتگردوں میں امتیازی کی پالیسی پر عمل کررہا ہے ۔ دوسری جانب نیٹو کے سیکرٹری جنرل ڑینس اسٹولٹن برگ نے وارسا میں اس اتحاد کے سربراہی اجلاس کے موقع پر کہا کہ کابل حکومت اور افغان فورسز کی مدد کا سلسلہ جاری رکھا جائے گا، تاکہ افغانستان بین الاقوامی دہشت گردی کے لیے محفوظ پناہ گاہ کبھی نہ بن پائے۔ اس اجلاس میں مغربی دفاعی اتحاد متوقع طور پر افغانستان میں اپنے تربیتی فوجی مشن کی معیاد میں توسیع کا اعلان کر سکتا ہے۔ اس سے قبل امریکی صدر باراک اوباما نے بھی اعلان کیا تھا کہ افغانستان میں موجود آٹھ ہزار چار سو امریکی فوجیوں کو اگلے برس بھی تعینات رکھا جائے گا، تاکہ طالبان کے خلاف افغان فورسز کی صلاحیتں متاثر نہ ہوں۔افغان سکیورٹی فورسز کے لیے نیٹو کا ’سپورٹ مشن‘ 2017 ء کے آخر تک برقرار رہے گا اور اس دوران مغربی دفاعی اتحاد کے ماہرین افغان فورسز کو مشاورت اور تربیت فراہم کرتے رہیں گے۔ واضح رہے کہ افغانستان کی فورسز کے ساتھ تعاون کرنے اور انہوں تربیت دینے والی غیر ملکی افواج میں سے زیادہ تر سال رواں میں ہندو کش کی اس ریاست میں اپنی موجودگی میں واضح کمی کی منصوبہ بندی کر چْکی تھیں تاہم افغانستان میں طالبان کی پْر تشدد کارروائیوں اور شورش زدگی کے تسلسل کے سبب غیر ملکی افواج کو اپنے اس فیصلے پر نظر ثانی کرنا پڑی۔ خاص طور سے گزشتہ برس شمالی افغان صوبے قندوز پر طالبان کے عارضی قبضے کے بعد افغانستان میں اہم کردار ادا کرنے والے غیر ملکی فوجی دستوں کو انخلاء کے منصوبے پر دوبارہ غور وخوض کرنا پڑا۔امریکی صدر باراک اوباما نے گزشتہ بْدھ کو اعلان کیا تھا کہ اْن کا ملک افغانستان متعینہ اپنے فوجی دستوں کے انخلاء کے منصوبے میں سْست روی لاتے ہوئے 8,400 امریکی فوجیوں کو آئندہ برس یعنی 2017ء تک افغانستان میں تعینات رکھے گا۔ اوباما نے اپنے بیان میں افغانستان کی موجودہ صورتحال کو ’نازک‘ قرار دیا ہے۔افغانستان میں اس وقت قومی سکیورٹی فورسز کی امداد کے لیے جاری سرگرمیوں میں 39 ممالک کے قریب 13 ہزار فوجی، جن میں ایک ہزار جرمن فوجی بھی شامل ہیں۔نیٹو لیڈروں کی طرف سے 2020 ء تک افغان سکیورٹی فورسز کی مالی امداد کو جاری رکھنے کے امکانات بھی نظر آ رہے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ غالباً چار بلین ڈالر سالانہ امداد جاری رکھی جائے گی۔ہفتے ہی کو نیٹو کے سربراہان وارسا میں جاری اجلاس کے دوران اس بارے میں بھی فیصلہ کرنے والے ہیں کہ آیا شام میں فعال ’اسلامک اسٹیٹ‘ انتہا پسند گروپ سے نبرد آزما ہونے کے لیے وہاں نیٹو کے نگران طیارے تعینات کیے جانا چاہییں؟ نیٹو اجلاس میں اس بارے میں بھی فیصلہ متوقع ہے کہ شورش زدہ ملک عراق میں نیٹو کے فوجی ٹرینرز کو دوبارہ بھیجا جائے۔