|

وقتِ اشاعت :   July 18 – 2016

اسلام آباد: پاناما لیکس اسکینڈل اور وزیراعظم نواز شریف کی لندن میں قیام میں توسیع کی وجہ سے پاک-چین اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبہ تاخیر کا شکار ہے اور چین منصوبے کی کامیاب تکمیل کے لیے پاک فوج کو اس میں شامل کرنے کا خواہشمند ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ سی پیک منصوبہ سویلین حکومت اور ملٹری قیادت کے درمیان کشیدگی کا باعث بن رہا ہے۔ ایک سیکیورٹی ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ چین نے ہمیشہ سے تجویز دی کہ سی پیک منصوبے کی تکمیل کو یقینی بنانے کے لیے پاک فوج کو شامل کیا جائے۔ انہوں نے بتایا کہ چین پروجیکٹ کے منتظمین، خاص طور پر کئی وزراء کی شمولیت سے ناخوش ہے، جس کی وجہ سے سی پیک منصوبہ تاخیر کا شکار ہے، چین منصوبے کے لیے الگ ٹیم تشکیل دینا چاہتا تھا تاکہ اس منصوبے کی باقاعدہ مانیٹرنگ کی جائے۔ سی پیک منصوبے میں ملٹری قیادت کے کردار کے حوالے سے ایک سیکیورٹی عہدیدار کا کہنا تھا کہ یہ منصوبہ پاکستان کے اقتصادی اور اسٹریٹجک مفاد میں ہے اس لیے ہم اس منصوبے کو کامیاب بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہیں۔ خیال رہے کہ گذشتہ ماہ 7 جون کو پاکستان میں چینی سفیرسن وی ڈانگ نے پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف سے ملاقات کی تھی، جس کے دوران پاک-چین اقتصادی راہداری منصوبے سمیت دیگر مشترکہ مفادات پر تبادلہ خیال کیا گیا تھا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ گزشتہ دو ہفتوں سے چین نے اس منصوبے کے حوالے سے کئ بار سویلین اور ملٹری قیادت پر غالب آنے کی کوشس کی۔ پاک آرمی پہلے ہی سی پیک منصوبے اور چینی شہریوں کی حفاطت کے لیے ایک اسپیشل سیکیورٹی ٹیم بناچکی ہے۔ واضح رہے کہ 23 جون کو تاشقند میں شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کی سائیڈ لائن میں پاکستانی صدر ممنون حسین نے اپنے چینی ہم منصب شی جن پنگ سے ملاقات کی، جس کے بعد صدر مملکت ممنون حسین کا کہنا تھا کہ ’پاکستان سی پیک کے تحت تمام منصوبوں کو مقررہ وقت پر مکمل کرنے کے لیے پرعزم ہے۔‘ گزشتہ ہفتے وزیر داخلہ چوہدری نثار نے چینی اسٹیٹ سیکیورٹی کے وزیر جینگ ہوئی چنگ سے بھی ملاقات کی تھی اور دونوں رہنماؤں نے ملاقات میں (سی پیک) منصوبے کو اولین ترجیح اور مقررہ وقت میں تکمیل کرنے پر اتفاق کیا تھا۔

انتظامی معاملات کے مسائل

وفاقی وزیر برائے ترقی و منصوبہ بندی احسن اقبال کی سربراہی میں ایک خصوصی ٹیم پاک-چین اقتصادی راہداری منصوبے کی نگرانی کررہی ہے۔ سی پیک منصوبے کے لیے علیحدہ سے خصوصی ٹیم تشکیل دینے کا مقصد صوبائی حکومتوں اور فوج سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کو اس منصوبے میں باقاعدہ طور پر اپنا کردار ادا کرنے کے لیے موقع فراہم کرنا ہے۔ اس کے علاوہ سینیٹ کمیٹی نے تجویز دی تھی کہ سی پیک منصوبہ مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) کو دے دیا جائے۔ چین نے سی پیک منصوبے کے حوالے سے پاکستانی حکومت اور سیاسی تنظمیوں میں اتفاق رائے نہ ہونے پر شدید تحفظات کا اظہار کیا تھا اور زور دیا تھا کہ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں سی پیک پر باہمی اختلافات ختم کریں۔ چینی سیفر کے ترجمان نے امید ظاہر کی تھی کہ پاکستان میں سیاسی تنظیمیں رابطے اور تعلقات مضبوط کرتے ہوئے مختلف منصوبوں کی تکمیل کے لیے موزوں حالات پیدا کریں گی۔ دوسری جانب سی پیک میں آرمی کو شامل کرنے کے حوالے سے چین کی تجویز کے بارے میں وفاقی وزیر احسن اقبال نے لاعملی کا اظہار کیا۔ انہوں نے ڈان کو بتایا کہ چین سی پیک منصوبے کے لیے کیے گئے تمام اقدامات سے خوش ہے اور انھیں اس بات کا علم نہیں کہ چین اس منصوبے کو پاک فوج کی نگرانی میں مکمل کرنے کا خواہش مند ہے۔ دوسری جانب ایک سرکاری عہدے دار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ چین نے پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کو اس منصوبے کی کامیاب تکمیل کے لیے ملٹری کی خدمات حاصل کرنے کی تجویز پیش کی تاہم وزیراعظم چین کی اس تجویز سے ناخوش ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ میرے خیال میں سی پیک منصوبے کو ملٹری کے سپرد کرنے سے سیاسی تنظیموں کے تحفظات اور تکمیل میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے میں مدد ملے گی، کیونکہ فوجی اسٹیبلشمنٹ کو افرادی قوت اور مطلوبہ مہارت حاصل ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) اہم سی پیک منصوبہ کی تکمیل کا کریڈٹ خود اس لیے لینا چاہتی ہے تاکہ وہ آئندہ عام انتخابات کی مہم کے لیے اس کارنامے کو استعمال کرسکے۔ حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کا خیال ہے کہ سی پیک منصوبے میں فوج کی خدمات لینے سے دیگر کئی معاملات میں بھی انھیں شامل کرنا پڑے گا۔