|

وقتِ اشاعت :   July 19 – 2016

کوئٹہ : وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ خان زہری نے بھارتی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ اقوام متحدہ کی قرارداد کے مطابق کشمیریوں کو ان کا حق خود ارادیت دیا جائے ،ان کی مرضی کے مطابق ریفرنڈم کرایا جائے اور ان کے حق رائے دہی کا احترام کیا جائے، بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا دعویدار ہے لیکن وہ کشمیریوں کو حق خود ارادیت دینے سے منحرف ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ رائے شماری پاکستان کے حق میں ہوگی کشمیر نے پاکستان کا حصہ بننا ہے اور بن کر رہے گا، ان خیالات کا اظہار انہوں نے مسلم لیگ(ن) کے زیر اہتمام کشمیری عوام سے اظہار یکجہتی کے لیے منعقدہ ایک بڑے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ عرصہ دراز سے کشمیری عوام اپنے حق کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں جس کے لیے انہوں نے لاکھوں جانوں کی قربانیاں پیش کی ہیں، بھارت کی چھ لاکھ باقاعدہ فوج کی تعیناتی کے باوجود کشمیریوں کی تحریک آزادی میں کمی نہیں آئی بلکہ روز بروز اس میں اضافہ ہو رہا ہے، بلوچستان میں نام نہاد آزادی کی جنگ اور کشمیریوں کی تحریک آزادی میں زمین آسمان کا فرق ہے، یہاں را اور موساد کی فنڈنگ سے نہتے لوگوں کو مار کر چھپ جانا آزادی کی جنگ نہیں بلکہ دہشت گردی ہے جبکہ کشمیر کے نہتے عوام غاصب فوج کے سامنے سینہ کھول کر گولیاں کھا رہے ہیں اور کشمیری رہنما اپنے عوام کے درمیان موجود ہیں جن کی قیادت میں کشمیری اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں، وزیراعلیٰ نے کہا کہ میں باہر بیٹھے لوگوں کو پیغام دینا چاہتا ہوں کہ بلوچستان لاوارث نہیں ، بلوچستان میں بسنے والے تمام قبائل و اقوام ہماری میراث ہیں ، ہم کسی کو اس بات کی اجازت نہیں دیں گے کہ وہ باہر بیٹھ کر نہتے لوگوں کی ٹارگٹ کلنگ کرواتے رہیں اور ہم کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر کے بیٹھے رہیں، یہ لڑائی انہوں نے شروع کی، نائیوں ، دھوبیوں اور بے گناہ نہتے لوگوں کو مارا، میں ان کا وارث ہوں اور آخری دہشت گرد کے خاتمے تک چین سے نہیں بیٹھوں گا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے لوگوں کو مار کر کہا جاتا ہے کہ ہم غدار ہیں اور جب سیکورٹی فورسز بے گناہ لوگوں کے قاتلوں کے خلاف کاروائی کرتی ہیں تو وہ یہ پروپیگنڈہ شروع کر دیتے ہیں کہ نہتے لوگوں کو مارا جا رہا ہے، وزیراعلیٰ نے کہا کہ بلوچستان میں جو بے گناہ لوگ مارے گئے وہ شہدائے وطن ہیں، جبکہ انہیں مارنے والے را اور موساد سے پیسے لیکر لڑرہے ہیں جو ملک کا غدار ہے وہ شہید نہیں ہو سکتا، وزیراعلیٰ نے کہا کہ میں باہر بیٹھے لوگوں کو بتا دینا چاہتاہوں کہ آج پاک سرزمین پر تم موجود نہیں لیکن جنہیں مار کر تم یہاں سے نکالنا چاہتے تھے وہ آج بھی اس پاک سرزمین پر موجود ہیں، انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں جب تک ایک بھی محب وطن قبیلہ موجود ہے بلوچستان کو پاکستان سے کوئی بھی جدا نہیں کر سکتا، وزیراعلیٰ نے کہا کہ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ بھارت کی ایما پر بلوچستان میں حالات خراب کر کے کشمیر کی تحریک آزادی کو دبایا جا سکتا ہے تو یہ ان کی بھول ہے، انہوں نے کہا کہ باہر بیٹھے لوگ لندن اور زیورچ میں لانگ مارچ کی باتیں کرتے ہیں اگر وہ خود کو بلوچستان کے عوام کا نمائندہ سمجھتے ہیں تو یہاں آکر لانگ مارچ کریں ماؤزے تنگ نے بھی اپنے لوگوں کے ساتھ اپنے ملک میں لانگ مارچ کیا تھا، ہم بھی اپنے صوبے اور ملک کی جنگ یہاں بیٹھ کر لڑ رہے ہیں وزیراعلیٰ نے کہا کہ دہشت گردوں کے ایک ٹھکانے پر کچھ عرصہ قبل کی جانے والی کامیاب کاروائی میں بھاری اسلحہ و بارود اور کرنسی برآمد ہوئی جو را کی دی ہوئی تھی، جس کے ذریعے کرائے کے لوگوں سے بے گناہ افراد کو مارنے کا کام لیا جانا تھا ، وزیراعلیٰ نے کہا کہ ہمارا کسی کے ساتھ جائیداد کا جھگڑا نہیں ہمارا اختلاف اصولی ہے کہ نہتے لوگوں کو قتل نہ کیا جائے پاکستان کو مردہ باد نہ کہا جائے اور پاکستان کا جھنڈا نہ جلایا جائے، لیکن اگر ایسا کیا جاتا ہے تو پھر یا وہ صوبے میں رہیں گے یا پھر ہم رہیں گے ، ہم پاکستان کی جنگ لڑ رہے ہیں اور لڑتے رہیں گے، بلوچستان میں آباد بلوچ، پشتون، پنجابی، ہزارہ ، کشمیری سب پاکستانی ہیں اور اس پر فخر کرتے ہیں ، آج بلوچستان کے ان علاقوں میں بھی سبز ہلالی پرچم لہراتا ہے جہاں اس کا تصور بھی نہیں تھا، انہوں نے کہا کہ وہ نام نہاد آزادی کی جنگ میں بے گناہ لوگوں کو بے دردی سے قتل ہوتے دیکھتے تھے اور اپنے والد اور شہداء کی قبروں پر جا کر سوچتے تھے کہ ان حالات میں ان کی کیا ذمہ داری ہے کیونکہ بہت سے لوگ وزیراعلیٰ کے عہدے پر رہے لیکن اپنے عہدے اور خاندانوں کو بچانے کے لیے دہشت گردی کی جانب سے آنکھیں بند رکھیں۔ بہت سوچ بچار کے بعد میں نے فیصلہ کیا کہ جس طرح میرے باپ دادا نے بلوچستان اور یہاں کے عوام کے لیے قربانیاں دیں اسی طرح میں بھی بلوچستان کے بے گناہ لوگوں کی حفاظت کروں گا کیونکہ بلوچستان کے لوگ خواہ وہ بلوچ، پشتون یا پنجابی ہوں یہاں بسنے والے سب لوگوں کی حفاظت میری ذمہ داری بنتی ہے، اگر دودا خان زرکزئی زندہ ہوتا تو یہ ان کی ذمہ داری ہوتی ، یہ سوچ کر مسلم لیگ میں شامل ہوا، دھمکیاں بھی ملیں ، قاتلانہ حملے بھی ہوئے ، اپنے بچوں کی قربانی بھی دی لیکن ناہی اپنے ارادوں سے پیچھے ہٹا اور نہ ہی دوغلی پالیسی اپنائی، میرا ایک بابا تھا جس کا نام دودا خان تھا اور دوسرا بابا سکندر شہید تھا، انہوں نے کہا کہ میرا فیصلہ تھا کہ دہشت گردوں کا ساتھ نہیں دوں گا بلکہ بے گناہ لوگوں کا ساتھ دوں گا، چاہیے اس کے لیے کتنی ہی بڑی قربانی کیوں نہ دینی پڑے میں اپنے اس فیصلے پر قائم ہوں اور قائم رہوں گا۔ اگر میں چپ رہ کر قتل عام دیکھتا رہتا تو شاید قیامت کے روز بے گناہ لوگوں کا ہاتھ میرے گریباں پر ہوتا، وزیراعلیٰ نے کہا کہ مجھے اس بات کا اندازہ تھا کہ یہ بڑی جنگ ہے جس میں بڑا نقصان بھی ہوگا، مجھے فخر ہے کہ میں عوام کے ساتھ ہوں جو عزم میرے بچوں نے عوام کے لیے چھوڑا تھا اس پر قائم ہوں، صوبے کے عوام کو پر امن بلوچستان دیا ہے، بے گناہ لوگوں کے قتل کا فیصلہ روز قیامت ہوگا، انہوں نے کہا کہ آج اتنا بڑا مجمع موجود ہے جسمیں ہر قوم و قبیلے کے لوگ شامل ہیں اور میں بھی ان کے درمیان ہوں، ہم بزدل نہیں ہمارے اباؤاجداد کی روایت سرکٹانا ہے سر جھکانا نہیں، ہماری تاریخ گواہ ہے کہ ہم باہر بیٹھے لوگوں سے بڑے بلوچ ہیں، ہم نے انگریزوں کی بگھی نہیں کھینچی اور جانیں قربان کیں لیکن انگریز کو اپنی سرزمین پر قبضہ نہیں کرنے دیا۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ وزیراعظم محمد نواز شریف کی قیادت میں ضرب عضب کا آغاز کیا گیا جبکہ یہاں بھی ان کی قیادت میں نڈر لیڈر شپ موجود ہے، ہم نے دہشت گردوں کی کمر توڑ دی ہے دھمکیوں کے باوجود بلوچستان کے عوام نے 2013 کے انتخابات میں بھرپور حصہ لیا اور ہم نے مسلم لیگ (ن) کو صوبے کی سب سے بڑی اور اکثریتی سیاسی جماعت بنایا۔ جلسہ سے پروفیسر فضل حق میر، اراکین صوبائی اسمبلی طاہر محمودخان، منظور احمد کاکڑ، ڈپٹی میئر محمد یونس بلوچ، وزیراعلیٰ کے پولیٹیکل سیکریٹری سیدال خان ناصر، وزیراعلیٰ کے اسسٹنٹ کوآرڈینیٹر مرزا شمشاد مغل،سردار نقیب اللہ ترین، اشرف ڈار، قیوم ماگرے، سردار نوید اصغر اور شوکت کشمیری نے بھی خطاب کیا، جبکہ شہید کشمیری عوام اور بلوچستان کے شہدا کی درجات کی بلندی کے لیے دعا بھی کی گئی۔ وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ خان زہری نے کہا ہے کہ بلوچستان معدنیات اور دیگر قدرتی وسائل سے مالامال ہے اگر ایمانداری اور نیت نیتی سے ان وسائل کا استعمال کیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم اپنی چھوٹی سی آبادی کے مسائل حل نہ کر سکیں۔ ہم خوش قسمت ہیں کہ ہمارے وسائل بے پناہ اور آبادی کم ہے، ہم اپنے صوبے کو ایک فلاحی صوبہ بنا سکتے ہیں بے روزگاروں کی کفالت کر سکتے ہیں اور انہیں 20تا 25ہزار روپے بیروزگاری الاؤنس ہر ماہ گھر بیٹھے دے سکتے ہیں، ان خیالات کا اظہار انہوں نے بلوچستان انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنیکل ایجوکیشن (بائیٹ) کے 11ویں کورس کے فارغ التحصیل طلبا و طالبات میں اسناد کی تقسیم کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ کمانڈر سدرن کمانڈ لیفٹیننٹ جنرل عامر ریاض، جی او سی 41ڈویژن میجر جنرل عابد لطیف اور دیگر سول و عسکری حکام بھی اس موقع پر موجود تھے، وزیراعلیٰ نے کہا کہ کوئی بھی قوم علم و ہنر کے بغیر ترقی نہیں کر سکتی، آج کے جدید دور میں ترقی کرنے کے لیے فنی مہارت کا حصول ناگزیر ہے اور اس بات کی ضرورت کو شدت سے محسوس کیا گیا ہے کہ اس دور میں روایتی تعلیم کے ساتھ ساتھ فنی تربیت بھی ضروری ہے، انہوں نے کہا کہ ہم خوش نصیب ہیں کہ ہمارے یہاں نوجوانوں کی آبادی کی شرح 55فیصد ہے جنہیں ہنر مند بنا کر ہم ایک بہترین افرادی قوت بنا سکتے ہیں جو ہماری سب سے بڑی دولت ہوگی کیونکہ یہ افرادی قوت ہمارے صوبے اور ملک کی تقدیر بدل سکتی ہے، وزیراعلیٰ نے کہا کہ اگر ہم نے اپنے نوجوانوں کے لیے آگے بڑھنے کی سمت کا تعین نہ کیا تو یہ عدم تحفظ اور مایوسی کا شکار ہو کر معاشرے کے لیے بوجھ بن سکتے ہیں، انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے معاشی مسائل کی ایک بڑی وجہ نوجوانوں کے لیے آگے بڑھنے کے مواقعوں کی عدم دستیابی ہے اور صوبے کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ بھی ہنر مند افراد کی کمی ہے، انہوں نے کہا کہ یہ بات مسرت کا باعث ہے کہ پاک فوج نے بائیٹ کو ازسر نو فعال کیا، جو بلوچستان کے نوجوانوں کو بہترین فنی تربیت سے آراستہ کر کے کارآمد اور باوقار شہری بننے کا موقع فراہم کر رہا ہے، انہوں نے کہا کہ ادارے میں کی جانے والی اصلاحات سے بائیٹ نہ صرف بلوچستان بلکہ پاکستان کا بہترین فنی ادارہ بن رہا ہے، انہوں نے کہا کہ نوجوانوں ہی نے ملک اور صوبے کو سنبھالنا ہے، سیاسی و عسکری قیادت ایک صفحہ پر ہیں جو خلوص نیت کے ساتھ صوبے کے نوجوانوں کو علم و ہنر سے آراستہ کرناچاہتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اپنی نوجوان نسل کو علم و ہنر سے آراستہ کرنا کار خیر ہے، اچھے اور نیک کام سے دنیا اور آخرت میں کامیابی ملتی ہے، وزیر اعلیٰ نے کہا کہ خضداراور ژوب میں بھی بائیٹ جیسے ادارے قائم کئے جائیں گے۔ ہنر مند افراد کو روزگار کے مواقعوں کے ساتھ ساتھ بلاسود چھوٹے قرضے فراہم کئے جائیں گے تاکہ وہ اپنا کاروبار شروع کر سکیں، انہوں نے کہا کہ ہمارے بچے بااعتماد اور باصلاحیت ہیں اور وہ ان مواقعوں سے بھرپور فائدہ اٹھائیں گے، وزیراعلیٰ نے اس موقع پر بائیٹ کے لیے ایک بس کی فراہمی اور ہاسٹل کے قیام کے لیے فنڈز دینے کا اعلان بھی کیا جبکہ انہوں نے مختلف آئٹمز پیش کرنے والے طلباء و طالبات کے لیے 10لاکھ روپے کا اعلان کیا۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کمانڈر سدرن کمانڈ لیفٹیننٹ جنرل عامر ریاض نے کہا کہ ترقی یافتہ قوموں نے علم و ہنر کو ہی بنیاد بنا کر اقوام عالم میں عزت و وقار حاصل کیا، ماضی میں جب مسلمان حکمران تھے تو ان کی حکمرانی کی بنیاد علم اور دین پر تھی، انہوں نے کہا کہ بائیٹ جیسے اداروں سے تربیت حاصل کرنے والے نوجوان صوبے اور ملک کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی طرح کام کریں گے جس طرح قطرہ قطرہ دریا بن جاتا ہے اسی طرح یہاں سے تربیت حاصل کرنے والے ہمارے نوجوان صوبے اور ملک کا مستقبل سنواریں گے، کمانڈر سدرن کمانڈ نے کہا کہ علم و ہنر بانٹنے سے بڑھتا ہے لہذا فارغ التحصیل ہونے والے نوجوان اپنے ارد گرد کے نوجوانوں کو بھی ہنر سکھائیں۔ انہوں نے کہا کہ فارغ التحصیل نوجوانوں کو نجی اور سرکاری شعبوں میں ملازمتوں کی فراہمی اور ذاتی کاروبار کے لیے معاونت کی فراہمی کے لیے کام کیا جائیگا، صوبائی حکومت اور نجی شعبہ کے ساتھ مل کر اس حوالے سے لائحہ عمل مرتب کیا جائیگا، انہوں نے بائیٹ کے اساتذہ کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے کامیاب کورسز کے انعقاد پر انہیں مبارکباد پیش کی، انہوں نے اس یقین کا اظہار کیا کہ ہنر حاصل کرنے والے نوجوان اپنے خاندانوں کی کفالت کرتے ہوئے عزت و وقار کے ساتھ زندگی گزاریں گے، قبل ازیں پریذیڈنٹ بائیٹ بریگیڈیئرشعیب نے سپاسنامہ پیش کرتے ہوئے ادارے کی کارکردگی پر روشنی ڈالی، انہوں نے بتایاکہ اب تک ادارے سے بلوچستان کے سات ہزار سے زائد نوجوان ہنر حاصل کر کے مختلف شعبوں میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں، انہوں نے بتایا کہ دوران تربیت طلبا ء کو دو ہزار روپے ماہانہ وظیفہ ، مفت رہائش اور یونیفارم وغیرہ فراہم کی جاتی ہیں، اس وقت گیارہ شعبوں میں تربیت فراہم کی جا رہی ہے، جس میں مزید اضافہ کیا جائیگا۔دریں اثناء وزیراعلیٰ بلوچستان اور کمانڈر سدرن کمانڈ نے بائیٹ کے مختلف شعبوں کا معائنہ کیا اور طلباء و طالبات کو تربیت حاصل کرتے ہوئے دیکھا اور ان سے بات چیت کی۔