انقرہ: ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کے بعد صفائی کا عمل جاری ہے، 30صوبوں کے گورنروں سمیت ہزاروں سرکاری ملازمین کو برطرف کردیاگیا اور ترکی بحریہ کے 14جنگی جہاز لاپتہ ہیں، جبکہ ترکی بحریہ کا سربراہ ناکام بغاوت کے بعد سے غائب ہیں، بحریہ جہاز مکمل مسلح ہیں، دریں اثناء ترکی فوج ایک باضابطہ بیان میں کہا ہے کہ بغاوت میں فوج کے ایک چھوٹا گروہ ملوث تھا ، پوری فوج کااس سے کوئی تعلق نہیں، ترک کے ایک مرکزی وزیر نے کہا کہ بغاوت میں امریکہ ملوث تھا، آمدہ اطلاعات کے مطابق ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کے بعد کریک ڈاون جاری،30 گورنرز سمیت ہزاروں سرکاری ملازمین برطرف، عدالت نے غداری کے الزام میں گرفتار26 فوجیوں کا ریمانڈ دے دیا۔تفصیلات کے مطابق ناکام بغاوت کے بعد ترک حکام نے آٹھ ہزار پولیس اہلکاروں کو معطل کر دیا تھا جبکہ عدلیہ اور 6 ہزار فوجیوں کے علاوہ131 اعلیٰ فوجی افسروں کو بھی حراست میں لے لیا گیا تھا ۔ بغاوت کی سازش میں شامل 30گورنرز سمیت ہزاروں سرکاری ملازمین کو برطرف کر دیا گیا، جبکہ عدالت نے غداری کے الزام میں گرفتار26 فوجیوں کا ریمانڈ بھی دیدیا ہے،ترکی میں ناکام بغاوت کے اثرات تاحال مکمل طور پر ختم نہیں کئے جاسکے۔ اس وقت بھی ترکی میں خوف کا سماں ہے اور ترک باشندوں سے صدر طیب اردگان نے جمہوریت کیلئے اپنی جدوجہد جاری رکھنے کی اپیل کی ہے۔ دوسری طرف اس ناکام بغاوت کے بعد سے ترکی کے نیول چیف ایڈمرل ویسل کوسلیمنظر عام سے غائب ہیں۔ امریکی میڈیا کے مطابق ان کے بارے میں تاحال علم نہیں ہوسکا کہ وہ کہاں ہیں ان کے بارے میں یہ نہیں بتایا گیا کہ ان کو یرغمال بنایا گیا ہے یا وہ حکومت کی حراست میں ہیں۔ اس کے علاوہ صدر اردگان کیلئے ایک اور پریشان کن خبر یہ ہے کہ ترک نیوی کے متعدد جہاز بھی غائب ہیں ان میں سے 14جہاز جنگی ہیں جن پر کافی زیادہ جنگی سازوں سامان لدا ہوا ہے۔ ان کے بارے میں یہ خبر آئی ہے کہ یہ جنگی جہاز یونان کی سمندر حدود میں بحیرہ ایجینن میں موجود ہیں اور ان جہازوں کے پائلٹس نے ترکی کے نیول ہیڈ کوارٹر سے واپسی کیلئے کوئی رابطہ نہیں کیا یہ جنگی جہاز مکمل طور پر کام کر رہے ہیں۔واضح رہے کہ بحیرہ ایجینن ترکی، یونان، مقدونیہ اور بلغاریہ کے درمیان واقع ہے۔یہ بات واضح نہیں ہوسکی کہ ترک بحریہ کے سربراہ اس بغاوت میں شریک تھے یا نہیں لیکن ان کی روپوشی نے کئی سوالات کو جنم دے دیا ہے، ترک فوج نے گزشتہ جمعے کو ہونے والی ناکام بغاوت میں شامل اہلکاروں کو سخت سزا کی تنبہہ کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ فوج کے بڑے حصے کا اس بغاوت میں کوئی کردار نہیں تھا اور ‘فتح اللہ دہشت گرد تنظیم’ اس کی ذمہ دار ہے۔ غیر ملکی خبررساں ادارے کے مطابق ترک فوج کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ‘ہمارے ہلکاروں کی کثیر تعداد اپنے لوگوں، قوم اور پرچم سے محبت کرتے ہیں اور غداروں کی جانب سے کی گئی کوشش سے ان کا کوئی لینا دینا نہیں ہے،ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کے بعد امریکہ پر اس واقعے میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا جا رہا ہے۔ اب ترک سکیورٹی فورسز نے امریکی فوج کے زیرانتظام فوجی اڈے سے ترک فوج کے اعلیٰ افسر جنرل بکیر ایرکان وان کو گرفتار کر لیا ہے جس سے امریکہ پر عائد کیے گئے ترکی کے الزام کو تقویت ملی ہے۔ اس کے علاوہ ترک صدر رجب طیب ایردوگان نے خودساختہ جلاوطنی پر امریکہ میں موجود فتح اللہ گولن کو گرفتار کرنے کا بھی اعلان کر دیا ہے۔ ان دونوں واقعات سے امریکہ کی پریشانی میں اضافہ ہو گیا ہے۔ لاس اینجلس ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق جنرل بکیر ایرکان وان کے ساتھ 10دیگر فوجیوں کو بھی گرفتار کیا گیا ہے۔ ان پر باغیوں کے ایف 16طیاروں کو فضاء4 میں ایندھن فراہم کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔رپورٹ کے مطابق ترک صدر رجب طیب ایردوگان نے امریکہ سے فتح اللہ گولن کی حوالگی کا مطالبہ بھی کر دیا ہے اور پارلیمنٹ کو بھی پھانسی کی سزا سے پابندی اٹھانے کی ہدایت کر دی ہے تاکہ بغاوت میں ملوث فتح اللہ گولن اور اس کے حامیوں سے نمٹا جا سکے۔ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے رجب طیب ایردوگان کا کہنا تھا کہ ’’امریکہ کو چاہیے کہ ہر حال میں گولن کو ترکی کے حوالے کر دے۔‘‘دوسری طرف وزیراعظم بن علی یلدرم کا کہنا تھا کہ ’’ناکام ہو جانے والی بغاوت جنگی جرم کے زمرے میں آتی ہے لہٰذا اس میں ملوث افراد سے بھی اسی طرح نمٹا جائے گا۔‘‘ترکی کے وزیر محنت سلیمان سوئیلو نے ایک بار پھر کہا ہے کہ ’’ میں پورے وثوق سے کہہ رہا ہوں کہ اس بغاوت کے پیچھے امریکہ کا ہاتھ ہے۔‘‘ ان تمام بیانات کے باعث امریکی حکومت اپنے اس قریب ترین اتحادی کی طرف سے سختی پریشانی میں مبتلا ہو گئی ہے اور اس نے بھی فتح اللہ گولن کی ترکی کو حوالگی کا بظاہر عندیہ دے دیا ہے۔ امریکی وزیرخارجہ جان ایف کیری کا کہنا ہے کہ ’’ترکی کی طرف سے بغاوت میں امریکہ کے ملوث ہونے کا الزام غیرذمہ دارانہ ہے۔ فتح اللہ گولن کی حوالگی کے لیے ہم صرف ترکی کی درخواست کا انتظار کر رہے ہیں۔ اگر وہ قانونی معیار پر پوری اتری تو ہم گولن کو ترکی کے حوالے کرنے کو تیار ہیں۔