کابل/اسلام آباد : افغان دارالحکومت کابل میں پاور اسٹیشن کی تعمیر کے خلاف ہزارہ برادری کے مظاہرے کے دوران خودکش دھماکوں میں 80افراد ہلاک اور250 زخمی ہوگئے ،داعش نے حملے کی ذمہ داری قبول کرلی،بیشتر زخمیوں کی حالت تشویشناک ہونے سے ہلاکتوں میں مزید اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے،ہفتہ کو افغان میڈیاکے مطابق دارالحکومت کابل میں ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد اربوں ڈالر کے پاور پروجیکٹ کے مجوزہ روٹ کے خلاف مظاہرے کیلئے اکھٹے ہوئے تھے کہ دوپہر اڑھائی بجے کے قریب مظاہرے کی جگہ پرخودکش حملہ آوروں نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔افغان وزارت صحت کے سربراہ محمد اسماعیل خواسی نے تصدیق کی ہے کہ دھماکوں میں 80افراد ہلاک اور250 زخمی ہوئے ہیں ۔دھماکے کے فوری بعد زخمیوں کو قریبی ہسپتالوں میں منتقل کردیا گیا ہے جہاں بعض افراد کی حالت تشویش ناک بتائی جاتی ہے جس سے ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ہے ۔دھماکے سے قریبی عمارتوں کو بھی نقصان پہنچا جبکہ ہر طرف انسانی اعضاء اور خون بکھر گیا۔دھماکہ ہوا تو مظاہرین میں بھگدڑ مچ گئی اور لوگ ادھر ادھر بھاگنے لگے۔حکومت کی جانب سے مظاہرین کو صدارتی محل کی طرف بڑھنے سے روکنے کیلئے لگائے گئے کنٹینرز کی وجہ سے ایمبولینسز کو جائے وقوعہ تک پہنچنے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔افغان ٹی وی ’’تولو نیوز‘‘ کے مطابق مظاہرین کے درمیان تین خودکش حملہ آور موجود تھے جن میں سے ایک نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا،دوسرے حملہ آور کی خودکش جیکٹ نہ پھٹ سکی جبکہ تیسرے خودکش حملہ آور کو سیکورٹی فورسز نے ہلاک کردیا۔عینی شاہدین کے مطابق ایک خودکش حملہ آور نے برقعہ پہن رکھا تھا جس نے مظاہرین کے درمیان خودکو دھماکے سے اڑا لیا۔دھماکوں کے بعدسیکورٹی فورسز کے دستے موقع پر پہنچ گئے اور علاقے کو گھیرے میں لے کر سرچ آپریشن شروع کردیا ۔شدت پسند تنظیم اسلامک اسٹیٹ(داعش ) نے حملے کی ذمہ داری قبول کرلی ہے ۔آئی ایس کے تعلق رکھنے والی آن لائن نیوز ایجنسی کی طرف سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ داعش کے 2خودکش حملہ آوروں نے کابل میں ہزارہ برادری کے مظاہرے میں اپنی جیکٹوں کو دھماکہ خیز مواد سے اڑا لیا۔اس سے قبل طالبان کی طرف سے برطانوی خبررساں ادارے کو بھیجی گئی ای میل میں دھماکے سے لاعلمی کا اظہار کیا گیا تھا۔دھماکوں کے بعد سوشل میڈیا پر جاری ہونے والی تصویروں میں دھماکوں کے نتیجے میں مرنے والوں کی لاشیں دیکھی جاسکتی ہیں۔عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ گزشتہ چار گھنٹے سے ہزارہ برادری کا احتجاج جاری تھا جس کے بعد مظاہرین احتجاجی کیمپ لگانے کی تیاریاں کررہے تھے ، اسی دوران زور دار دھماکا ہوگیا۔واضح رہے کہ بجلی کے مذکورہ منصوبے کے خلاف ہزارہ برادری کا یہ دوسرا احتجاج ہے اور اس میں پرتشدد واقعات کا خدشہ پہلے ہی ظاہر کیا گیا تھا۔یہ منصوبہ ایشیائی ترقیاتی بینک کا حمایت یافتہ ہے اور اس میں ترکمانستان، ازبکستان، تاجکستان، افغانستان اور پاکستان بھی شامل ہیں۔اس منصوبے کا ابتدائی روٹ بامیان صوبے سے ہوکر گزررہا تھا جہاں ہزارہ برادری کی اکثریت ہے تاہم 2013 میں اس وقت کی حکومت نے اس کا راستہ تبدیل کردیا تھا۔مظاہرے میں شریک رہنماؤں نے روٹ کی تبدیلی کو ہزارہ برادری کے ساتھ امتیازی سلوک قرار دیا۔مظاہرے میں شامل افراد افغان صدر اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ کے خلاف نعرے لگارہے تھے اور امتیازی سلوک مردہ باد اور تمام افغان باشندوں سے یکساں سلوک کا مطالبہ کررہے تھے۔