کوئٹہ: وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ خان زہری کی زیر صدارت سول ہسپتال سمیت کوئٹہ کے دیگر سرکاری ہسپتالوں میں سہولیات میں اضافہ ، نظم و ضبط کی بحالی، صحت و صفائی کی صورتحال کی بہتری اور سیکورٹی اقدامات کو موثر بنانے سے متعلق امور کا جائزہ لینے کے لیے منعقدہ اعلیٰ سطحی اجلاس میں سول ہسپتال کوئٹہ کے نو تعمیر شدہ ٹراما سینٹر کو آئندہ ماہ کے پہلے ہفتہ میں جزوی طور پر فعال کرنے جبکہ اکتوبر 2016 میں مکمل طور پر فعال کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، اجلاس میں ٹراما سینٹر کے لیے نئے فوکل پرسن کی تعیناتی، ٹراما سینٹر کے آلات کی خریداری کے لیے ایڈیشنل چیف سیکریٹری منصوبہ بندی و ترقیات کو پرچیز کمیٹی کا سربراہ مقرر کر کے خریداری کے عمل کو جلد پائیہ تکمیل تک پہنچانے ، سینٹر کے لیے منظور شدہ 138 آسامیوں پر بھرتی کے عمل کو جلد مکمل کرنے اور سینئر ڈاکٹروں کی تعیناتی کی منظوری دے دی گئی۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ سول ہسپتال ، بولان میڈیکل کمپلیکس ہسپتال اور شہر کے دیگر سرکاری ہسپتالوں پر عوام کے اعتماد کی بحالی کے لیے تمام تر وسائل بروئے کار لائے جائیں گے، ان ہسپتالوں میں فوری طور پر میڈیکو لیگل آفیسر (ایم ایل او) نامزد کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا تاکہ کسی بھی حادثے یا سانحہ کی صورت میں زخمیوں کو بلا کسی قانونی رکاوٹ کے فوری طبی امداد کی فراہمی کے لیے کسی بھی نزدیکی ہسپتال میں منتقل کیا جا سکے، اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ ہسپتالوں کے سیکورٹی عملہ کو پولیس کے ذریعے تربیت فراہم کی جائے گی، ہسپتالوں میں سیکورٹی انتظامات کو مزید موثر بنانے کے لیے غیر متعلقہ افراد کا داخلہ ممنوع ہوگا، سیکورٹی کیمروں کو فعال کیا جائیگا اور مزید کیمرے بھی نصب کئے جائیں گے، ہسپتال میں داخلے کے وقت ہر شخص اور گاڑی کی تلاشی لی جائے گی اور اس حوالے سے کسی قسم کا دباؤ اور دھونس ناقابل برداشت ہوگی اور ایسا کرنے والے شخص کو حوالہ پولیس کیا جائیگا، تمام ہسپتال فوری طور اپنا سیکورٹی پلان آئی جی پولیس کو فراہم کریں گے تمام ہسپتالوں کے سپرنٹنڈنٹس بااختیار ہونگے انہیں غیر حاضری پر ہسپتال میں تعینات ڈاکٹروں اور طبی عملہ کے خلاف کاروائی کرنے کا اختیار ہوگا اور کسی بھی ایمرجنسی کی صورت میں سینئر ڈاکٹرزاور طبی عملہ ایم ایس کے طلب کرنے پر فوری طور پر ہسپتال پہنچنے کا پابند ہوگا، اجلاس میں اس بات پر تشویش کا اظہار کیا گیا کہ سرکاری ہسپتالوں میں سینئر ڈاکٹروں، آپریشن تھیٹرز، طبی عملہ اور دیگر ضروری سہولیات کے باوجود عوام ان پر اعتماد نہیں رکھتے جبکہ دیگر صوبوں سے زیادہ مراعات حاصل کرنے والے ڈاکٹرز بھی صحیح معنوں میں اپنے فرائض سر انجام نہیں دے رہے، اجلاس میں اس بات سے اتفاق کیا گیا کہ اصلاح احوال کے لیے سخت ترین اقدامات سے بھی گریز نہیں کیا جائیگا اور حکومت عوام کو علاج و معالجہ کی بہترین سہولتوں کی فراہمی کے لیے مختص فنڈز اور دسیتاب وسائل کے صحیح استعمال کو ہر صورت یقینی بنائے گی۔ وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ خان زہری نے اس بات کا سختی سے نوٹس لیا کہ خطیر فنڈز خرچ کرنے کے باوجود سول ہسپتال میں تعمیر کئے جانے والے ٹراما سینٹر کو طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود بھی فعال نہیں کیا گیا، انہوں نے کہا کہ اگر سول ہسپتال بم دھماکہ کے موقع پر ٹراما سینٹر فعال ہوتا تو بہت سے زخمیوں کو بروقت طبی امداد فراہم کی جا سکتی تھی، انہوں نے کہا کہ حکومت شعبہ صحت کی بہتری ، ہسپتالوں میں سہولیات کی فراہمی اور ادویات کی دسیتابی کے لیے خطیر فنڈز خرچ کر رہی ہے لیکن اس کے باوجود سرکاری ہسپتالوں پر عوام کا اعتماد نہ ہونا ایک سوالیہ نشان ہے، وزیراعلیٰ نے صوبائی وزیر صحت رحمت صالح بلوچ سے کہا کہ وہ اپنے محکمہ کے بااختیار وزیر ہونے کے ناطے اس حوالے سے موثر اقدامات کو یقینی بنائیں اور ہسپتالوں کی کارکردگی کے حوالے سے عوام کو درپیش سیکورٹی خدشات اور دیگر شکایات کا فوری ازالہ کریں، ہسپتالوں کی نگرانی کے لیے محکمہ صحت میں ایک بااختیار کمیٹی تشکیل دی جائے جو باقاعدگی کے ساتھ ہسپتالوں کی کارکردگی رپورٹ پیش کرے۔ وزیراعلیٰ نے سیکریٹری صحت کو ہدایت کی کہ ہسپتالوں کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹس کو درپیش مسائل اور ان کے حل کے حوالے سے سمری تیار کر کے انہیں پیش کی جائے، اس موقع پر چیف سیکریٹری سیف اللہ چٹھہ نے اجلاس کو بتایا کہ سول ہسپتال سمیت دیگر ہسپتالوں اور حساس مقامات کی سیکورٹی کا ازسرنو جائزہ لے کر انہیں مزید بہتر بنانے کے لیے اقدامات کا آغازکر دیا گیا ہے جن میں سیکورٹی اہلکاروں میں اضافہ اور مزید کیمروں کی تنصیب بھی شامل ہے، آئی جی پولیس احسن محبوب نے یقین دلایا کہ پولیس ہسپتالوں میں تعینات سیکورٹی اہلکاروں کے لیے فوری طور پر تربیتی پروگرام کا آغاز کرے گی، جبکہ ہسپتالوں میں ضرورت کے مطابق مزید پولیس اہلکار تعینات کر دئیے گئے ہیں، ایم ایس سول ہسپتال نے اجلاس کو آگاہ کیا کہ سول ہسپتال بم دھماکہ کے زخمیوں کو طبی سہولتوں کی فراہمی کے حوالے سے سول ہسپتال سے متعلق شکایات غیر حقیقی ہیں ہسپتال میں دھماکے کے بعد سرجن ،دیگر سینئر ڈاکٹروں اور طبی عملہ کو فوری طور پر طلب کر لیا گیا تھا اور سانحہ کے روز بم دھماکے کے زخمیوں کے 32بڑے اور چھوٹے آپریشن کئے گئے، جبکہ ورثاء نے اپنی مرضی سے زخمیوں کو دیگر ہسپتالوں میں منتقل کیا، صوبائی وزراء و اراکین صوبائی اسمبلی اور دیگر متعلقہ حکام نے اجلاس میں شرکت کی۔دریں اثناء وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ خان زہری نے کہا ہے کہ صوبائی حکومت سرکاری تعلیمی اداروں کے اساتذہ کو نجی سکولوں کے اساتذہ کے مقابلے میں کئی گناہ زیادہ تنخواہیں اورمراعات فراہم کر رہی ہے لیکن یہ امر انتہائی افسوسناک ہے کہ اساتذہ گھر بیٹھے تنخواہیں وصول کرتے ہیں اور امتحانات میں بچوں کو جعلی مارکنگ کے ذریعے نمبر دے دیتے ہیں یہ رجحان صوبے کے مستقبل کے لیے انتہائی خطرناک ہے جسے سختی سے روکا جائیگا، محکمہ تعلیم میں اصلاحات کے ذریعے بہتری لائی جائے گی اور سخت فیصلے کرنے سے گریز نہیں کیا جائیگا، ان خیالات کا اظہار انہوں بلوچستان ایجوکیشن انڈومنٹ فنڈ کے تحت صوبہ بھر کے باصلاحیت اور ہونہار طلبہ و طالبات میں وظائف اور اسناد کی تقسیم کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ صوبائی وزیر تعلیم عبدالرحیم زیارتوال، چیف سیکریٹری بلوچستان سیف اللہ چٹھہ، سیکریٹری خزانہ اکبر حسین درانی، سیکریٹری کالجز عبداللہ جان اور وظائف حاصل کرنے والے طلبہ و طالبات اور ان کے والدین بھی تقریب میں شریک تھے، وزیراعلیٰ نے کہا کہ اساتذہ کو سوچنا چاہیے کہ وہ اپنے غیر سنجیدہ رویے کے ذریعے ایک پوری نسل کو تباہی کی طرف لے جا رہے ہیں لیکن ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے ایک پڑھا لکھا اور پرامن بلوچستان ہمارا ویژن ہے، جسے ہر صورت یقینی بنایا جائیگا، انہوں نے کہا کہ سڑکیں بھی بنتی رہیں گی اور ترقیاتی منصوبے بھی چلتے رہیں گے لیکن اگر ہم اپنے بچوں کو بہتر تعلیم نہ دے سکے تو کبھی بھی ترقی نہیں کر سکیں گے، انہوں نے کہا کہ گذشتہ ادوار میں تعلیم اور صحت کے شعبوں کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا اور نہ ہی ہمارے لیے قابل تقلید مثال قائم کی گئی، ہم نے تمام عمر اقتدار میں نہیں رہنا تاہم کوشش ہے کہ گڈ گورننس کے قیام اور بدعنوانی کے خاتمے کے لیے ایسے اقدامات کر کے جائیں جن کی آئندہ آنے والی حکومتیں بھی تقلید کریں، ہم اپنی اننگز تو کھیل چکے ہیں لیکن آئندہ نسلوں کو آئندہ کھیلنے کے لیے ایک ہموار میدان دے کر جانا چاہتے ہیں، وزیراعلیٰ نے کہا کہ ہم پر مسلط کی گئی نام و نہاد آزادی کی جنگ نے بھی شعبہ تعلیم کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ، ہم پر امن و تعلیم یافتہ بلوچستان واپس لائیں گے جس کے لیے جدوجہد اور کوششیں کر رہے ہیں، گذشتہ تین سال میں صوبے کو ٹریک پر ڈال دیا ہے اب اس میں مزید بہتری لانی ہے، انہوں نے کہا کہ اگر شعبہ تعلیم کو بے یارو مددگار چھوڑ دیا گیا تو ہم مزید تعلیمی پسماندگی میں گر جائیں گے اور اگر اسے ٹھیک کر لیا تو بلندیوں کو چھو جائیں گے۔ وزیراعلیٰ نے کہا 70اور 80کی دہائی میں کوئٹہ تعلیم کا مرکز ہوتا تھا اور باہر سے لوگ بچوں کو یہاں پڑھائی کے لیے بھیجتے تھے ہمارے پاس اعلیٰ تعلیمی ادارے اور قابل اساتذہ تھے اور اس وقت کے طالب علم آج اچھے عہدوں پر فائز ہیں، انہوں نے کہا کہ ہر ترقی یافتہ ملک نے تعلیم کے ذریعے ترقی کی ۔انہوں نے خیبرپختونخوا کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ خان عبدالقیوم خان نے اپنے صوبے میں تعلیمی ترقی کو عروج دیا اور آج وہاں تعلیمی معیار ملک میں سب سے بلند ہے،ہم نے بھی اپنی تمام تر توجہ تعلیم اور صحت کے شعبوں کی بہتری کی جانب سے مرکوز کر رکھی ہے تاکہ تعلیمی معیار کو 70کی دہائی پر لے جائیں اور نسٹ (NUST) سمیت ایسے معیاری تعلیمی ادارے قائم کریں کہ ہمارے بچوں کو حصول تعلیم کے لیے کہیں اور نہ جانا پڑے اور وہ دیگر صوبوں کے طالبعلموں کامقابلہ کر سکیں ،ہر جگہ ان کی قدرو قیمت ہواور ان کی ڈگری کو تسلیم کیا جائے، وزیراعلیٰ نے کہا کہ وہ جب وزارت اعلیٰ کے عہدے پر فائز نہیں تھے اور دیگر صوبوں کے طلباء و طالبات کو لیپ ٹاپ اور تعلیمی وظائف لیتے دیکھتے تو سوچتے تھے کہ کیا بلوچستان کے طلبہ کو یہ حق حاصل نہیں کہ انہیں بھی لیپ ٹاپ اور وظائف دیئے جائیں ، اب اللہ تعالیٰ نے انہیں موقع دیا ہے تو وہ صوبے کے تمام اہل بچوں کو لیپ ٹاپ اور تعلیمی وظائف دیں گے، تاکہ وہ بھی جدید علوم اور علم و دانش سے آراستہ ہو سکیں، وزیراعلیٰ نے طلبہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ ہمارا مستقبل ہیں آپ ہی نے بلوچستان اور پاکستان کو آگے لے کر جانا ہے لہذا اپنی تمام تر توجہ حصول تعلیم پر مرکوز رکھیں اور غیر حاضر اساتذہ کے خلاف کاروائی ہونے پر ان کا ساتھ نہ دیں، وزیراعلیٰ نے کہا کہ ہمیں اپنے قابل اور باصلاحیت بچوں پر فخر ہے اور یقین ہے کہ وہ ہماری امیدوں پر پورا اتریں گے، انہوں نے کہا کہ ہم بھی اپنے تعلیمی اداروں کو نقل سے پاک اور معیاری تعلیمی ادارے بنائیں گے۔ وزیراعلیٰ نے اس موقع پر انڈومنٹ فنڈ کے ذریعے وظائف کی تعداد کو بڑھانے کی ہدایت کی، انہوں نے وظائف حاصل کرنے والے بچوں کو لیپ ٹاپ دینے کا اعلان بھی کیا۔ بعد ازاں وزیراعلیٰ نے طلبہ و طالبات میں وظائف اور اسناد تقسیم کیں۔