|

وقتِ اشاعت :   August 19 – 2016

کوئٹہ : چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ جسٹس محمد نورمسکانزئی نے کہا ہے کہ آئین و قانون کی خلاف ورزی اور کوتاہی برداشت نہیں کرینگے چاہئے اس کیلئے جو قیمت ادا نہ کرنا پڑے اگر کسی پی اینڈ ڈی کے کسی اہلکار نے غیر قانونی ریلیز کی تو اس کے تنخواہ سے اس کی ریکوری کی جائیگی ایڈیشنل چیف سیکرٹری پی ایس ڈی پی بنانے کے حوالے سے ایک جامہ رپورٹ بناکر 7تاریخ کو بلوچستان ہائی کورٹ میں جمع کرائے پی ایس ڈی پی کی تشکیل کے حوالے سے رول آف بزنس اور دیگر لوازمات کا کس قدر خیال رکھا گیا ہے اور پی ایس ڈی پی بنانے کے لیے کونسا طریقہ کاراپنا یا گیا ہے پی اینڈ ڈی کے تمام چیف اکانومسٹ‘جوائنٹ چیف اکانومسٹ اور چیف آف سیکشنز پی ایس ڈی پی کے بنانے میں اپنے رول کا تحریری جواب جمع کرائے کہ پی ایس ڈی پی کے بنانے میں ان کا کیا کرداررہا ہے ۔ یہ حکم چیف جسٹس بلوچستان ہائی جسٹس محمد نور مسکانزئی‘ جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس اعجاز سواتی پر مشتمل بینچ نے درخواست گزار شیخ محمد عالم مندوخیل کی آئینی درخواست نمبر 482/2016برخلاف ایڈیشنل چیف سیکرٹری بلوچستان ، سیکرٹری خزانہ و دیگر نے حکم دیتے ہوئے کیا۔ معزز عدالت کے سامنے پی اینڈ ڈی کے تمام چیف اکانومسٹ‘جوائنٹ چیف اکانومسٹ اورچیف آف سیکشنز پیش ہوئے عدالت کے استفسار کیا کہ پی ایس ڈی پی کس طرح بنایا ہے ؟ پی ایس ڈی میں شامل اسکیمات قانون کے مطابق ہے یا نہیں کیا پی ایس ڈی بناتے ہوئے رول آف بزنس سمیت تمام لوازمات کو ملحوض خاطر رکھا گیا تھا ؟ جس پرچیف اکانومسٹ‘جوائنٹ چیف اکانومسٹ اورچیف آف سیکشنز نے عدالت کو بتایا کہ ان میں اکثر 30سال سے خالصتاً پلاننگ کا تجربہ ہے اور ان کی تعیناتی بھی پلاننگ کرنے کیلئے عمل میں لائی گئی ہے لیکن پی ایس ڈی پی کی تشکیل کے حوالے سے ان سے کوئی مشاورت کی گئی ہے اور نہ ہی پی ایس ڈی پی بناتے ہوئے ان کو پی ایس ڈی پی بنانے کیلئے عمل میں شامل کیاگیا ہے جس پر عدالت نے تمام چیف اکانومسٹ‘جوائنٹ چیف اکانومسٹ اورچیف آف سیکشنز کو حکم دیا کہ وہ اگلی پیشی پر تحریری طور پر اس حوالے سے اپنے بیانات عدالت عالیہ میں جمع کرائیں عدالت عالیہ نے ایڈیشنل چیف سیکرٹری کو بھی حکم جاری کیا کہ وہ بھی 7تاریخ کو پی ایس ڈی پی کے بنانے کے حوالے سے اپنی مکمل رپورٹ عدالت میں جمع کرائیں درخواست گزار نے عدالت سے التجا کی کہ ان کے ساتھی پیٹشنر غنی جان ایڈوکیٹ چونکہ سول ہسپتال بم دھماکے میں شہید ہوچکے ہیں لہذا ان کانام سی پی سے نکالا جائے تاکہ اس حوالے سے ان کو کوئی قانونی مشکل پیش نہ آئے جس کی استدعا منظور کرتے ہوئے عدالت نے درخواست گزار کے ساتھی پیٹشنر کانام سی پی سے خارج کرنے کا حکم دیا درخواست گزار نے عدالت کو بتایا کہ پلاننگ کمیشن آف پاکستان کے منیول /گائیڈ لائن بلوچستان کے رولز آف بزنس سپریم کورٹ آف پاکستان کا فل بینچ کا راجہ پرویز اشرف سابق وزیراعظم‘عبدالرحیم زیارتوال برخلاف فیڈریشن آف پاکستان بلوچستان ہائیکورٹ کا انجینئر زمرک خان اچکزئی کیسز کے فیصلوں کے حوالے دیتے ہوئے کہاکہ غیر منظور شدہ اسکیموں کو بلاک ایلوکیشن کے نام پر پی ایس ڈی پی ان کیلئے فنڈز مختص نہیں کیا جاسکتا مگر2016-17کی پی ایس ڈی پی میں 50ارب روپے سے زائد لاگت کے فنڈز اس مد میں مختص رکھے گئے ہیں جبکہ جاری منصوبوں کیلئے بمشکل 20ارب رکھے گئے ہیں درخواست گزارنے عدالت کو بتایا کہ دلچسپ امر یہ ہے کہ ایک ارب روپے کی منظور شدہ جاری منصوبے کیلئے 15لاکھ جبکہ 14کالجز کی تعمیر کیلئے صرف15لاکھ روپے رکھے گئے ہیں جس سے کالج میں تعیناتی چوکیدار کی تنخواہ پوری نہیں کی جاسکتی پروجیکٹ کیسے تعمیر ہوگا جبکہ دوسری جانب پی ایس ڈی پی میں 1100سے زائد غیر منظور شدہ منصوبوں کو شامل کیاگیا ہے درخواست گزار نے استدعا کی کہ پی ایس ڈی پی کی تکمیل چونکہ غیر قانونی ہے اور خطرہ ہے کہ سرکاری پیسوں کا ضائع ہو اس لئے عدالت پی ایس ڈی پی کو معطل کرنے کا حکم دیں جس کو عدالت نے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ جب تک اس حوالے سے صوبائی حکومت کا جواب سامنے نہیں آتا ایسا حکم جاری نہیں کرینگے۔ 7تاریخ کو اگلے پیشی پر ایڈیشنل چیف سیکرٹری چیف آف سیکشنز، جوائنٹ چیف اکانومسٹ اپنے تحریری جوابات جمع کرائیں۔