|

وقتِ اشاعت :   September 5 – 2016

کوئٹہ:عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر اصغرخان اچکزئی نے کہاہے کہ سانحہ 8اگست کے ذریعے قیامت برپا کیاگیااور ہمیں گہرے زخم دئیے ہم کب تک لاشیں اٹھاتے رہینگے ، اس ملک میں دہشت گردی کیخلاف اورپشتون وطن کی دفاع کی خاطر فوج سے بھی زیادہ قربانیاں دی ہیں اورہماری قربانیوں کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔ان خیالات کااظہارانہوں نے کوئٹہ پریس کلب میں ایک پرہجوم پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔اس موقع پر اے این پی کے پارلیمانی لیڈرانجینئرزمرک خان اچکزئی ،صوبائی جنرل سیکرٹری حاجی نظام الدین کاکڑ،سینیٹرداؤد خان اچکزئی ،عبدالمالک پانیزئی ،نواب زادہ عمر فاروق کاسی ،میر علی آغا ،جمالدین رشتیاصابر مندوخیل ،ملک ابراہیم کاسی ،سمیع آغا اوردیگر بھی موجود تھے ۔اصغرخان اچکزئی نے کہاکہ سانحہ 8اگست کے ذریعے قیامت برپا کیاگیا اس واقعہ کے ذریعے بلوچستان کے وہ وکلاء ہم سے جدا کئے گئے جو بڑی محنت سے تیار ہوئے تھے یہ شہید وکلاء روشن فکر اوروطن دوست وکلاء تھے مگر دشمن اور دہشتگردوں نے انہیں شہید کرکے ہمیں بہت گہرے زخم دئیے ،ژوب سے گوادر ،چمن سے حب چوکی پشین اورنوشکی تک لاشیں بھجوائی گئی گھر گھرمیں صف ماتم بچ گیا اور ابھی تک پورا صوبہ خون کے آنسوں رو رہاہے مگر ہم اپنے شہداء کے خون کے ساتھ یہ عہد کرتے ہیں کہ ہم ان کے مشن کو جاری رکھتے ہوئے دشمن وان کے سہولت کاروں کو چھین سے نہیں بیٹھنے دینگے ،ہم قربانی دینا جانتے ہیں اور ہماری تاریخ قربانیوں سے بھری پڑی ہے ،ہم نے اس ملک میں دہشت گردی کیخلاف اورپشتون وطن کی دفاع کی خاطر فوج سے بھی زیادہ قربانیاں دی ہیں اورہماری قربانیوں کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔انہوں نے کہاکہ حکمران اور ریاست کے اختیاردار سانحہ 8اگست و دہشت گردی کے دیگر واقعات کے ذمہ داروں کیخلاف کارروائی کرنے سے بالکل گریزاں ہیں اور الٹا عوام کو ان واقعات پر رونے بھی نہیں دیاجارہا ،کل چمن میں اے این پی کے زیراہتمام احتجاجی جلسہ اور مظاہرہ ہے مگر وہاں کے انتظامیہ اور سیکورٹی اداروں نے ہمیں جلسہ کرنے سے یہ کہہ کر منع کردیاہے کہ چمن میں تین خودکش حملہ آور داخل ہوئے ہیں ہمارے پارٹی کے رہنماؤں اور ذمہ داروں کو فون کئے جارہے ہیں کہ آپ لوگ جلسہ اورمظاہرہ نہ کرے ،سوال یہ ہے کہ یہ خودکش حملہ آور کہاں سے اورکس راستے سے کیسے داخل ہوئے ؟جب آپ کو پتہ چلا کہ خودکش حملہ آور داخل ہوئے ہیں تو پھر آپ کی ذمہ داری کیاہے ؟آپ سیکورٹی کے نام پر اربوں روپے کس لئے لے رہے ہو ؟ان کو کیوں نہیں روکا گیا؟یا محض اس طرح کے حربوں کے ذریعے ہمیں ڈرایااوردھمکا کر خاموش کرانے کی کوشش کی جارہی ہے ،کوئٹہ اور خیبرپشتونخوا میں دہشت گردی کے اتنے بڑے بڑے سانحات کے بعد دہشتگردوں اور دہشتگرد تنظیموں کیخلاف کیا کارروائیاں کی گئی؟،نیشنل ایکشن پلان پر کتنا عملدرآمد ہوا؟دہشت گرد تنظیموں کا تعلق اور ٹھکانے پنجاب میں ہیں ان کی ذہین سازی پنجاب ہی میں کی جارہی ہے آخر ان کیخلاف کیوں کارروائی نہیں کی جارہی ہے اور یہ تاثر دی جارہی ہے کہ سب کچھ پنجاب کی مفادات کیلئے ہورہاہے پنجاب کی مفادات کی خاطر پاکستان کو بھی داؤ پر لگایاگیاہے یہ عمل بہت نقصان دہ ہوگا انہوں نے کہاکہ یہ تو مشہور کہاوت ہے کہ دشمن کا دشمن دوست ہوتاہے یہ بات تو طے ہیں کہ بھارت اور را پاکستان کے دشمن ہیں اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ وان کے آلہ کاروں کے بقول ہم تو را کے ایجنٹ ہے حالانکہ ہم کسی کے ایجنٹ نہیں بلکہ اپنے سرزمین کے وفادار اور اپنی ہی سرزمین کے ایجنٹ ہے را والے کیوں ہم کو نشانہ بنارہے ہیں ہم تو ان کے ایجنٹ ہے یہ بھارت اور را کے دشمنوں کو کیوں ٹارگٹ نہیں کررہے دوسری بات یہ ہے کہ سانحہ 8اگست کے حوالے سے حکومت یہ کہہ رہی ہے کہ اس میں را ملوث ہے اور8اگست کو جب دونوں شریف اسلام آباد سے کوئٹہ آرہے تھے تو ائیرپورٹ پر ہی کہہ دیاتھاکہ سانحہ سول ہسپتال کوئٹہ میں را ملوث ہے جب اس میں را ملوث ہے تو پھر حکومت انہیں سانحہ8اگست پر بھارت سے کیوں احتجاج نہیں کیاگیاکیوں ان کے سفیر کوطلب نہیں کیاگیا ۔دہشت گرد تنظیموں کی گزشتہ 60سال سے جن قوتوں نے پرورش کی وہ سب کو پتہ ہے اور 9/11کے بعد جب دہشت گرد تنظیموں نے کوئی اور رخ اختیار کی تو یہ ریاست کیلئے درد سر بن گئے ورنہ یہ ریاست کے اپنے ہی لوگ تھے اور ان سے دنیا بھر میں کام لیاجارہاتھا۔انہوں نے کہاکہ سانحہ 8اگست پر وزیراعلیٰ ،وزیراعظم اور ان کے کابینہ مگر مچھ کے آنسو بہارہے ہیں حقیقت یہ ہے کہ اتنے بڑے سانحہ پر نہ کسی ایک اہلکار کو معطل کیاگیا نہ ہی کسی نے استعفیٰ دیا یہاں تک کہ صوبائی وزیر صحت اور وزیرداخلہ نے بھی اپنی ناکامیوں کو قبول کرتے ہوئے استعفیٰ دینے کی زحمت نہیں کی 8اگست کے واقعہ میں کئی زخمی وکلاء نے تو اس دوران اپنے گھروالوں سے بھی فون پر بات کی مگر زیادہ تر وکلاء خون بہنے اور بروقت طبی امداد نہ ملنے کے باعث شہید ہوئے،وہ لوگ جو بڑے فخر سے کہتے تھے کہ انہوں نے 69سالوں میں کبھی بھی جشن آزادی کی تقریبات میں شرکت نہیں کی وہ سانحہ 8اگست کے فوراََ بعد اور پہلی دفعہ کیسے جشن آزادی کی تقریبات اوررقص وسرود کے محفلوں میں شریک ہوئے وہ کونسی بات تھی کہ جس نے انہیں ان تقریبات میں شرکت کرنے پرمجبور کیااور یہ تقریبات ایسے جگہوں پر تھے جہاں قریب میں تین چار شہداء کے گھر بھی واقع تھے اور پھر 19اگست کو اسلام آباد میں ڈھول پر جو رقص کی گئی وہ بھی پوری پشتون قوم نے دیکھ لی ان ناچ گانوں سے بھرپور تقریبات کے ذریعے شہداء کے لواحقین اور پشتونوں وبلوچوں کو کیا پیغام دیاگیا ؟کیا یہ تقریبات سانحہ 8اگست کی سوگ میں سادگی سے نہیں منائی جاسکتی تھی ہم نے بہت لاشیں اٹھائیں اور لاشیں اٹھا اٹھا کر اب ہم تھک چکے ہیں ،حکمران اور ریاست ہمیں بتائیں کہ ہم کب تک اپنے پیاروں کی لاشیں اٹھاتے رہیں گے کب تک ہمیں ڈرا دھمکا کر آنسو بہانے سے بھی روکا جاتا رہے گا۔یہ عمران اورقادری کے دھرنوں اور بھنگڑوں میں کیوں کچھ نہیں ہوتا ان کو کیو ں کوئی ٹارگٹ نہیں کررہا کہ صرف پشتونوں اوربلوچوں کو نشانہ بنایاجارہاہے ،کیا پشتونوں اوربلوچوں کو ان کے وسائل اورسرزمین گلے پڑ گئی ہے ؟کیا ریاست اور اس کے حکمرانوں کو ہماری سرزمین چاہئے ان کی ہماری عوام سے کوئی دلچسپی نہیں وہ ہمارے لئے امن کیوں نہیں چاہتے پتہ نہیں یہ ریاست کو کس طرح چلارہے ہیں ہم کمزور سہی ،ہم لاشوں پہ لاشیں اٹھانے والے ہی سہی ،مگر یہ ظلم ،جبر تو بنگالیوں کیساتھ بھی ہوا ان کے خواتین تک نہیں بخشا گیا مگر یہ طاقت ظلم وجبر تو بنگالیوں کو نہیں دبا سکی ہم پر بھی کب تک ظلم وجبر ہوتارہے گاہم کب تک برداشت کرتے رہیں گے ،ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ حکومت اور مرکز کیخلاف ہمارا لہجہ رویہ اتنا سخت اور تلخ نہیں ہے مگر حکومت ،اسلام آباد اور پنجاب کارویہ ہمارے ساتھ ٹھیک نہیں ہے ان کارویہ ہمیں کسی اور طرف لے جارہا ہے اورہمیں یہ تاثر دیاجارہاہے کہ یہ فوج ملک کی نہیں بلکہ پنجاب کی فوج ہے اورادارے ملک کیلئے نہیں بلکہ پنجاب کی تحفظ کیلئے کام کررہی ہیں اگر یہ بات غلط ہے تو مہینے مہینے ڈیرے اوربھنگڑے ڈالنے والے دھرنوں میں کیوں کچھ نہیں ہوتاجو پشاور سے ڈیڑھ گھنٹے کے فاصلے پر ہے جبکہ پشاور اور مردان سمیت دوسرے علاقے آئے روز دھماکوں اورخودکش حملوں سے لہو لہان ہے ،بنگلہ دیش کے وقت بھی یہی رویے تھے اس وقت بھی خان عبدالولی خان اورغوث بخش بزنجو نے حالات کو دیکھتے ہوئے شیخ مجیب کے پاس گئے تھے پنجاب سے تو کوئی نہیں گیا تھا ،آج بھی ہم کہتے ہیں کہ ہمارے ساتھ ظلم وجبر کا سلسلہ بند کیاجائے۔