کوئٹہ: وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ خان زہری نے کہا ہے کہ نام و نہاد آزادی کی جنگ اور بلوچستان سے قابل اساتذہ کو نکالے جانے کے عمل نے ہمیں تعلیم کے شعبہ میں 50سال پیچھے دھکیل دیا ہے، ہمارے بچوں کو ورغلا کر پہاڑوں پر بھیجا گیا جنہوں نے بعد میں اپنے ہی پروفیسر وں اور اساتذہ کی ٹارگٹ کلنگ کی، حتیٰ کہ ایک خاتون پروفیسر کی بھی ٹارگٹ کلنگ کی گئی جو بلوچ اور پشتون روایات کے منافی عمل ہے، اگر ہم نے ترقی کی منازل طے کرنی ہیں تو ہمیں تعلیمی پسماندگی کے خاتمہ کے لیے بھرپورکوششیں کرنا ہونگی جس میں اساتذہ کو کلیدی کردار ادا کرنا ہوگا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے بلوچستان کے تمام کالجوں کے پرنسپلز کی ایک روزہ کانفرنس کے اختتامی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے کیا، صوبائی وزیر تعلیم عبدالرحیم زیارتوال، سیکریٹری تعلیم کالجز عبداللہ جان اور سیکریٹری تعلیم سکولز ڈاکٹر عمر بابر بھی اس موقع پر موجود تھے، وزیراعلیٰ نے کہا کہ ہم نے غلط پالیسیوں اور منفی رویوں کے باعث شعبہ تعلیم کو پہنچنے والے نقصانات کا ازالہ کرنا ہے، ہم نے عزم کر رکھا ہے کہ آنے والی نسلوں کو ایک پر امن اور پڑھا لکھا بلوچستان دینا ہے، وزیراعلیٰ نے کے پی کے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہاں کے وزیراعلیٰ خان عبدالقیوم خان نے صوبے میں تعلیمی ایمرجنسی نافذ کی جس کی وجہ سے آج کے پی کے شعبہ تعلیم میں دیگر صوبوں سے آگے ہے اور وہاں کے تعلیمی ادارے لاہور اور کراچی کے تعلیمی اداروں سے بھی زیادہ بہتر ہیں ،کے پی کے لوگ فوج، بیوروکریسی اور دیگر شعبوں میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں، وزیراعلیٰ نے کہا کہ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ آج وفاقی بیوروکریسی میں ہماری کوئی نمائندگی نہیں جس کی وجہ سے ہمیں وفاقی سطح پر مسائل کے حل میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، وزیراعلیٰ نے کہا کہ اگر ہم نے اپنے آنے والے کل پر توجہ نہ دی اور آپس میں دست و گریباں رہے تو باقی صوبے ہم سے بہت آگے نکل جائیں گے اور آنے والی نسلیں بھی ہمیں معاف نہیں کریں گی، انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنے بچوں کا اعتماد بحال کرنا ہے اور ان کی صلاحیتوں کو اجاگر کر کے دیگر صوبوں کے بچوں کے مقابل لانا ہے، وزیراعلیٰ نے کہا کہ دنیا میں وہی قومیں کامیاب ہیں جنہوں نے تعلیم کی ترقی کو اپنا محور بنایا، تاہم یہ امر افسوسناک ہے کہ قیام پاکستان سے اب تک ہماری تعلیمی شرح 30 سے 35فیصد سے آگے نہیں بڑھ سکی ہے جبکہ بنگلادیش جو کہ ہمارا حصہ ہوتا تھا تعلیم کے شعبہ میں ہم سے زیادہ ترقی کر چکا ہے، انہوں نے پرنسپلز کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے اداروں میں ایسی کوئی سرگرمی نہ ہونے دیں جس کے منفی اثرات ہمارے بچوں پر مرتب ہوں اور ان کا مستقبل خراب ہو، انہوں نے یقین دلایا کہ تعلیمی اداروں میں سیاسی دباؤ ، اساتذہ کو دھمکیوں اور دیگر منفی سرگرمیوں کے خلاف بھرپور اقدامات کئے جائیں گے اور اساتذہ کی عزت نفس کو پامال نہیں ہونے دیا جائیگا،وزیراعلیٰ نے اس موقع پر سیکریٹری تعلیم کو ہدایت کی کہ تمام کالجز کودرپیش مسائل اور اساتذہ کی مشکلات کے حوالے سے رپورٹ پیش کریں تاکہ ان کے حل کے لیے فوری و موثر اقدامات عمل میں لائے جا سکیں۔وزیراعلیٰ نے کانفرنس میں تیار کی گئی سفارشات پر عملدرآمد کی یقین دہانی بھی کرائی۔دریں اثناء وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ خان زہری کی زیرصدارت کچھی کینال منصوبے کی پیش رفت کا جائزہ لینے کے لیے منعقدہ اجلاس میں منصوبے کے بلوچستان کے حصے کے کام کی جلد از جلد تکمیل کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے طے کیا گیا ہے کہ واپڈا اس حوالے سے حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے فوری اقدامات کرے گا، کمانڈر سدرن کمانڈ لیفٹیننٹ جنرل عامر ریاض، چیف سیکریٹری بلوچستان سیف اللہ چٹھہ، چیئرمین واپڈا لیفٹیننٹ جنرل (ر) مزمل حسین اور دیگر متعلقہ حکام اجلاس میں شریک تھے، اجلاس میں اس بات سے اتفاق کیا گیا ہے کہ کچھی کینال کا منصوبہ بلوچستان کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے جس کی تکمیل سے صوبے کی لاکھوں ایکڑ اراضی زیر کاشت لائی جا سکے گی، جس سے نہ صرف روزگار کے بے پناہ مواقع حاصل ہونگے بلکہ ملک کو زرعی طور پر خودکفیل بنانے میں بھی مدد ملے گی لہٰذا منصوبے کی تکمیل میں حائل رکاوٹوں ،فنڈز کے اجراء میں تاخیر اور منصوبے کے حوالے سے بین الصوبائی امور کو جلد از جلد طے کرنے کے لیے ٹھوس بنیادوں پر اقدامات کو یقینی بنایا جائیگا۔ چیئرمین واپڈا نے یقین دلایا کہ منصوبے کی تکمیل کے لیے ان کا ادارہ فعال اور متحرک کردار ادا کریگا، اجلاس میں بلوچستان میں واپڈا کے دیگر ترقیاتی منصوبوں کی پیش رفت کا بھی جائزہ لیتے ہوئے ان کی تیز رفتار تکمیل کی ضرورت پر زور دیا گیا،واضح رہے کہ کچھی کینال کا منصوبہ صوبوں کے درمیان نہری پانی کی تقسیم کے بعد بتایا گیا تھا ، یہ معاہدہ چاروں صوبوں کے درمیان 1991میں طے پایا تھا، جس میں پنجاب سے میاں شہباز شریف نے اہم ترین کردار ادا کیاتھا اور بلوچستان کی نمائندگی نواب ذوالفقار علی مگسی جو اس وقت وزیر منصوبہ بندی اور ترقیات تھے نے کی تھی ، اس معاہدے کی رو سے بلوچستان کو دس ہزار کیوسک اضافی پانی دینے کااعلان کیاگیا تھا، یہ پانی دریائے سندھ اور نہری نظام سے دیا جانا تھا ، چونکہ بلوچستان میں نہری نظام موثر اور ضرویات کے مطابق نہ تھا، اسی لئے کچھی کینال کا منصوبہ بنایاگیا تھا جو 25سال گزرنے کے بعدبھی مکمل نہیں ہوا، گزشتہ سال معلوم ہوا کہ کچھی کینال کا پہلا مرحلہ مکمل ہونے کے قریب ہے اور اس سے ایک لاکھ ایکڑ زمین بگٹی قبائلی علاقے میں آباد ہوگی، آخری وقت میں یہ معلوم ہواکہ کچھی کینال کی تعمیر عالمی معیار کے مطابق نہیں ہے، ٹھیکیدار اور واپڈا کے افسران اور انجینئرز نے اربوں روپے کاغبن کیاہے اور اس بات کا بھی اعتبار نہیں کہ یہ ایک لاکھ ایکڑ زمین آباد بھی کرسکے گا یا نہیں، اسی دوران یہ انکشاف ہوا کہ 25سالوں کی تاخیر کی وجہ سے کچھی کینال پر 70ارب روپے کے اضافی اخراجات آئے یا وفاقی حکومت کو زیادہ اخراجات کرنے پڑیں گے، پہلے تو مبصرین کو یہ شک ہے کہ تعمیرات معیاری ہوگی یا نہیں اور وفاقی حکومت کی تاخیر پر 70ارب روپے زیادہ رقم خرچ کرنی پڑے گی، کچھی کینال کا منصوبہ 7لاکھ ایکڑ زمین بگٹی قبائلی علاقے اور کچھی کے میدان میں آباد کرے گا، اس سے بلوچستان غذائی طور پر خود کفیل ہوگا اور لاکھوں لوگوں کو روزگار کے مواقع ملیں گے، پہلا مرحلہ اندازاً دسمبر تک مکمل ہو جائے گا ۔