کوئٹہ : پشتونخواملی عوامی پارٹی کے چےئرمین رکن قومی اسمبلی محمودخان اچکزئی نے شہدا 8اگست کے عظیم قومی شہدا کے چہلم کے مناسبت سے کوئٹہ کے صادق شہید فٹبال گراؤنڈ میں عظیم الشان اور فقید المثال جلسہ عام کے ہزاروں شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا خطہ اور پشتونخوا وطن گزشتہ کئی سالوں سے آگ وخون کے شعلوں میں جل رہا ہے او رسول ہسپتال کا وحشت وبربریت پر مبنی واقعہ جس میں درجنوں وکلاء، صحافی اور عام شہری شہید ہوئے اس کا تسلسل ہے میں نے پارلیمنٹ میں وکلاء کے شہادت کے واقعہ کے بعد صرف اتنا کہا تھا کہ کوئٹہ کے واقعہ کی تحقیقات اور اس میں ملوث دہشتگردوں تک پہنچناہمارے اداروں کیلئے ایک چیلنج ہے اور اس پر شور اٹھا ۔ جلسہ عام سے پارٹی کے صوبائی صدر سینیٹر عثمان خان کاکڑ ، صوبائی سیکرٹری صوبائی وزیر تعلیم عبدالرحیم زیارتوال ، مرکزی رہنماء صوبائی وزیر نواب ایاز خان جوگیزئی،سپریم کورٹ بارایسوسی ایشن کے نائب صدر عبداللہ خان کاکڑ ایڈووکیٹ، ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری نصیب اللہ ترین ایڈووکیٹ ، شہید باز محمد کاکڑ کے بھائی نیاز محمد کاکڑ ، شہید بیرسٹر پرنسپل لا ء کالج امان خان اچکزئی ایڈووکیٹ کے بھائی ڈاکٹر حضرت علی اچکزئی نے بھی خطاب کیا ۔ جبکہ سٹیج سیکرٹری کے فرائض پارٹی کے صوبائی ڈپٹی سیکرٹری رکن صوبائی اسمبلی نصراللہ خان زیرے نے سرانجام دےئے ۔ اورتلاوت قرآن پاک کی سعادت قاری نقیب اللہ جواد نے حاصل کی ۔جناب محمود خان اچکزئی نے کہا کہ 8اگست کے واقعہ میں شہید ہونیوالے وکلاء اور دیگر لوگوں کا کیا قصور تھا اور پشتونخوا وطن گزشتہ چالیس سال سے آگ وخون کے شعلوں میں جل رہا ہے اور ہمارے عوام کے سرومال کی کوئی قیمت نہیں ۔میں نے اس سنگین مسئلے پر پشتون سیاسی رہنماؤں مولانا فضل الرحمن ، اسفند یار ولی خان ، سراج الحق ، آفتاب شیر پاؤ سے بارہا بات کی ہیں کہ پشتون سیاسی ومذہبی زعما ء ، قبائلی رہنماؤں اور عوام پر بار بار دہشتگردی کے حملے کیوں ہورہے ہیں اور ہمیں مل بیٹھ کر اس مسئلے پر سنجیدہ غور کرنا ہوگا ۔ انہوں نے کہا کہ 8اگست کا واقعہ اگر ہم جان چھڑانے کی حد تک کہے تو یہ ایک حادثہ ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ وکلاء پر حملہ اور درجنوں کی شہادت کا واقعہ دہشتگردی کے ان واقعات کا تسلسل ہے جو پچھلے 15سالوں سے جاری ہے ۔ انہوں نے کہاکہ سوات سے لیکر وزیرستان تک اور خیبر پشتونخوا کے دیگر علاقوں میں جوصورتحال ہے آج وہی حالات یہاں پر مسلط کرنے کی سازش کی جارہی ہے اور اس کے بڑے بھیانک اور خطرناک نتائج برآمد ہونگے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم قانون اور آئین کے ماننے والے ملنسار شریف النفس شہری ہے۔ ہم سمجھتے ہیں پاکستان کی ترقی وترویج اور تعمیر نو صرف اس بات میں ہے کہ یہاں پر کسی انسان کا انسان پر ، کسی فرقے کا کسی فرقے پر ، کسی قوم کا کسی قوم پرکسی قسم کی بالادستی نہیں ہوگی یہاں پر حقیقی وفاقی فیڈریشن ہوگی قومیں برابر ہونگی اور ان کے وسائل پر ان کا اختیار ہوگا ۔ پنجاب کے وسائل پر پنجابیوں ، سندھ کے وسائل پر سندھیوں ، بلوچ کے وسائل پر بلوچوں اور پشتونخوا وطن کے تمام نعمتوں پر پشتونوں کا واک واختیار ہوگا اور پاکستان میں طاقت کا سرچشمہ عوام کی منتخب پارلیمنٹ ہوگی۔ داخلہ وخارجہ تمام پالیسیاں پارلیمنٹ میں بنے گی ،تمام ادارے بشمول عدلیہ پارلیمنٹ کے تابع ہونگے ، جمہور کی حکمرانی ہوگی، تمام قوموں کی زبانیں سرکاری عدالتی زبانیں ہوگی اور پشتوزبان پشتونخوا وطن کی سرکاری تجارتی وعدالتی زبان ہوگی،ہمیں کسی دوسرے ملک کا اپنے ملک میں مداخلت برداشت نہیں کرنی ہوگی اور نہ ہی ہمیں کسی دوسر ے ملک میں مداخلت کرنی ہوگی۔ اس قسم کا فیڈریشن ترقی کریگا اور ایسے پاکستان کو پشتونخواملی عوامی پارٹی قیامت تک مانے گی ۔ انہوں نے کہا کہ پشتونخوا وطن پر دہشتگردی مسلط ہے وزیر ستان ،سوات ، خیبر پشتونخوا اور پشتونخوا وطن کے دیگر علاقوں میں ایک لاکھ سے زائد بے گناہ لوگ دہشتگردی کا شکار ہوئے ہیں جس میں 1200سے زائد سیاسی ، مذہبی ، قبائلی شخصیات شامل ہیں۔ ہم کسی کو یہ اجازت نہیں دے سکتے کہ بے گناہ لوگوں کا قتل جائز قرار دے یا کسی کا قتل کرے ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نعمتوں سے مالا مال ملک ہے نفرتیں نا انصافیوں سے جنم لیتی ہے دو بھائیوں ، میاں بیوی ، باپ بیٹے میں انصاف نہیں ہوگا تو ان کے درمیان رشتہ قائم نہیں رہ سکتا ۔ انہوں نے کہا کہ دنیا اور خطے میں بدترین جنگ جاری ہے عراق، ترکی، شام ،لیبیا اور دیگر ممالک جنگ کی لپیٹ میں ہے ہمیں اس صورتحال کا ادراک کرتے ہوئے اپنے خطے اور وطن کو اس جنگ وجدل سے بچھانا ہوگا اور میں نے اس سلسلے میں مولانا فضل الرحمن سے بات کی کہ پشتون لیڈر شپ سمیت دیگر سیاسی جمہوری پارٹیوں کے ساتھ مل کر اپنے خطے کو محفوظ کرنا ہوگا۔ اور اگر بدامنی ودہشتگردی کی قوتوں نے دہشتگردی اور انتہا پسندی سے دستبردار نہیں ہوئے تو پھر پشتوکے مشہور شعر کے مطابق ترجمہ ’’ کہ یہ ہماری تقدیر ہے کہ ہم دشمن سے نجات حاصل کرنے کیلئے قربانیاں اور خون کا نذرانہ دیتے رہینگے‘‘۔ انہوں نے کہا کہ اگر ملک اور اس کے حکمران پاکستان اور افغانستان کے ساتھ صلح اور امن کے خواہاں ہے تو مولانا فضل الرحمن ، اسفند یار ولی خان ، سراج الحق ، آفتاب شیر پاؤ اور میں محمود 3ماہ میں یہ کرسکتے ہیں۔ اور کابل میں ایک نشست کے دوران جس میں اس وقت کے افغان صدر حامد کرزئی ، میاں نواز شریف اور میں موجود تھا کرزئی صاحب نے میاں نواز شریف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ لوگ افغانستان کو ایک آزاد اور خود مختیار ملک کے طور پر تسلیم کرتے ہو اس پر میاں صاحب نے کہا کہ یقیناًہم افغانستان کو ایک آزاد ریاست کے طور پر مانتے ہیں جس پر کرزئی صاحب نے کہا کہ ہمیں بین الاقوامی ضمانت دی جائے اور اس طرح افغانستان اور پاکستان ایک اچھے برادرانہ ہمسائے کی طرح رہ سکتے ہیں اور ریلوے ، بجلی ، ودیگر ترقیاتی منصوبوں میں مدد گار ثابت ہوسکتے ہیں۔ اور آج بھی افغانستان کی لیڈر شپ اور میاں نواز شریف اسی فلسفے کے حامی ہیں مگر افسوس کا مقام ہے کہ اس فلسفے اور فکر کو نہ ماننے والے وہ کونسی قوتیں ہیں ۔ اور اگر کوئی جنگ وجدل کے طرف دار ہے تو پھر اس کی کوئی ضمانت نہیں کہ اس بدترین جنگ سے دونوں ملک کا وجود باقی رہیگا ۔ انہوں نے کہا کہ اس ملک میں سچ بولنے پر پابندی ہے میں نے قومی اسمبلی میں کوئٹہ کے قومی سانحہ پر جو کچھ بولا وہ سچ تھا امریکہ میں ہونیوالے واقعات بالخصوص نائن الیون کے مجرمان کا سراغ لگایا گیا میں نے بھی قومی اسمبلی میں یہ کہا کہ ہمارے اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ کوئٹہ کے سول ہسپتال کے دہشتگردانہ واقعہ میں ملوث عناصر کا سراغ لگائیں ہم سب جانتے ہیں کہ ہمارے تمام اداروں کو ان دہشتگردوں ، اغواء برائے تاوان میں ملوث عناصر کا بخوبی علم ہے مگر وہ اس پر خاموش ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اس سنگین صورتحال پر قابو پانا کسی ایک پارٹی اور فرد کا کام نہیں بلکہ دہشتگردی سے نجات کیلئے تمام پارٹیوں اور عوام کو ملکر اس سے نجات حاصل کرنی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ افغان کھڈوال عوام اقوام متحدہ کے فیصلے کے مطابق یہاں مقیم ہے ان کی عزت نفس کو مجروع کرنے کی ہم ہرگز اجازت نہیں دے سکتے ۔ دنیا بھر میں مہاجرین کے قوانین موجود ہے اور اسی طرح عرب امارات اور باہر سے آنیوالے لوگوں کیلئے ورک پرمٹ جاری کیا جاتا ہے ۔ اوریہاں پر بھی افغان کھڈوال عوام کو تنگ کرنے کی بجائے انہیں بین الاقوامی اصولوں کے مطابق ورک پرمٹ اور دیگر مراعات دی جائے جب تک افغانستان میں انکی واپسی آبادکاری ممکن نہیں ہوتی۔ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے صوبائی صدر و سینیٹر محمد عثمان خان کاکڑ ، صوبائی وزیر واسا و پی ایچ ای نواب ایاز خان جوگیزئی ، صوبائی وزیر تعلیم عبدالرحیم زیارتوال ، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے نائب صدر عبداللہ خان ایڈووکیٹ ، بلوچستان ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری نصیب اللہ ترین ودیگر نے کہا ہے کہ سانحہ 8 اگست جیسے افسوسناک واقعات کے تدارک کے لئے ضروری ہے کہ اس کے پیچھے کارفرما عناصر کی نشاندہی کرکے انہیں کیفر کردار تک پہنچایا جائیں ، جب تک قومی نابرابری ، سیاست میں فوج کے کردار اور دہشت گردی کے خاتمے کے لئے مل کر کوششیں نہیں کی جاتی اس وقت تک حالات جوں کے توں رہیں گے ۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے کوئٹہ کے صادق شہید گراؤنڈ میں پشتونخوا میپ کی جانب سے سانحہ سول ہسپتال کے شہداء کے چہلم کی مناسبت سے منعقدہ جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے صوبائی صدر محمد عثمان خان کاکڑ نے کہا ہے کہ 15 سالوں سے پشتون ملت پر کشت و خون کا بازار گرم ہے دہشت گردی کے نتیجے میں شہید کئے جانے والے تمام افراد ہمارے قومی اور وطنی شہداء ہیں اس ملک میں دہشت گردی کی بڑی وجہ قومی نابرابری ، سیاست میں فوج اور انٹیلی جنس اداروں کی مداخلت ، ضیاء الحق کی جانب سے افغانستان میں مداخلت اور مشرف کا اسے دوام دینا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں نہ صرف سوات اور وزیرستان سے 40 لاکھ افراد بے گھر ہوئے بلکہ 60 ہزار سے زائد افراد جان کی بازی بھی ہار چکے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ جب تک ملک کی داخلہ اور خارجہ پالیسیوں میں تمام اقوام کی رائے کو شامل کرکے تمام اداروں کو پارلیمنٹ کے سامنے جوابدہ نہیں کیا جاتا اس وقت تک معاملات ٹھیک نہیں ہوں گے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم پر غداری کے فتوے جاری کرنے والے سن لیں کہ پشتون قوم حقیقت سے واقف ہے انگریزوں کے خلاف جدوجہد کرنے والے خان صمد خان شہید کو غدار جبکہ ان کے وفاداروں کو محب الوطن کہا گیا ۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے بیج بونے والے ضیاء الحق کو بھی ملک کا وفادار اور مرد حق کہا گیا جبکہ محمود خان اچکزئی کو غدار اور موت کا حق دار قرار دیا گیا ، اگر محمود خان اچکزئی کی جانب سے پشتون قوم کے حقوق مانگنا غداری ہے تو اس پر ہمیں کوئی پچھتاوا نہیں ۔ پشتونخوا میپ کی جدوجہد آئین اور پارلیمنٹ کی بالادستی سمیت سینٹ کے اختیارات اور افغانستان میں مداخلت روکنے کے لئے جاری رہے گا اس سلسلے میں کروڑوں پشتون عوام کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے ۔ عثمان خان کاکڑ نے شناختی کارڈز اور افغان مہاجرین کے حوالے سے بنائی گئی پالیسیوں کو نہ ماننے کا اعلان کیا اور کہا کہ ہمیں وفاقی وزارت داخلہ کے شناختی کارڈ کے سلسلے میں نت نئے شرائط قبول ہیں اور نہ ہی ہم افغان مہاجرین کے خلاف نمک حرام اور دیگر الفاظ قبول کرسکتے ہیں ۔ انہیں جب پہلے پہل یہاں لایا گیا تو انہیں غازی اور مجاہدین کے القابات دیئے گئے جبکہ اب انہیں نمک حرام کہا جارہا ہے ہم ان عناصر کو نمک حرام سمجھتے ہیں جنہوں نے ا نہی مہاجرین کے نام پر اربوں ڈالر لئے ۔ پشتونخوا میپ کے صوبائی وزیر نواب ایاز جوگیزئی کا کہنا تھا کہ ہماری جماعت اور لیڈر شپ نے 50 سال پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ پشتون غیور عوام اور اولس اس نام نہاد جنگ سے دست کشی کرلیں مگر ہماری بات نہ مانی گئی اس لئے اب پشتون وطن کا کوئی ایسا علاقہ نہیں جہاں کشت و خون کا بازار گرم نہ کیا گیا ہو اور لوگ خون میں نہ نہلائے گئے ہو ں ۔ انہوں نے کہاکہ ہم تمام پشتون سیاسی قائدین پر واضح کرنا چاہتے ہیں کہ وہ آپس میں ایک ہو بصورت دیگر ان کے لئے سیاست کرنا ممکن نہ ہوگا ۔ انہوں نے کہاکہ پشتون کو دنیا کے سامنے دہشت گرد کے روپ میں پیش کیا جارہا ہے جو قابل مذمت امر ہے ۔ افغانوں کے نام پر نہ صرف اربوں ڈالر لئے گئے بلکہ انہیں بے یار و مددگار چھوڑ دیا گیا اب انہیں نکل جانے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں ہم پوچھتے ہیں کہ بتایا جائے کہ آخر یہ وطن کس کا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ آمروں کی غلط پالیسیوں کے باعث پاکستان اس نہج پر آپہنچا ہے حقیقت یہ ہے کہ آج بھی ووٹ کے ذریعے منتخب ہونے والوں کی حکومت نہیں بلکہ فیصلے کہیں اور ہورہے ہیں اس سلسلے میں اور کسی وزیر اور مشیر کو خوش فہمی ہے وہ اسے دور کریں ۔ ہم نے سانحہ سول ہسپتال سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ پشتون قوم سے تعلق رکھنے والے تعلیم یافتہ افراد کو ٹارگٹ کئے جانے کا خدشہ ہے جو درست ثابت ہوا ۔ پشتون جیسے غیرت مند قوم کو عیوضی بنادیا گیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں محب الوطنی کے سرٹیفکیٹ جاری کرنے کی کسی کو حق ہے اور نہ ہی کسی کو پشتون قوم پر رائے تھونپنے کی اجازت دی جاسکتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ دوسروں کے مفادات کے لئے پشتون قوم بہت قربانیاں دے چکی اب ہمیں قومی بقاء کے لئے مل بیٹھنا ہوگا ۔ صوبائی وزیر تعلیم عبدالرحیم زیارتوال نے شہدائے سانحہ سول ہسپتال کو خراج عقیدت پیش کیا اور کہا کہ ہمارا مطالبہ ہے کہ اس بربریت کے پیچھے کارفرماء عناصر کو بے نقاب کرکے قرار واقعی سزا دی جائے ۔ انہوں نے کہاکہ 40 سال سے کوئٹہ ، پشاور اور پشتون وطن میں آگ و خون کا کھیل جاری ہے جسے ختم ہونا چاہیے ۔ رحیم زیارتوال نے کہاکہ تمام سیاسی ، مذہبی اور قومی پرست جماعتوں نے اس شرط پر فوجی عدالتوں کی حمایت کی تھی کہ اس سے دہشت گردی کا خاتمہ کیا جائے گا مگر ایسا کچھ بھی دکھائی نہیں دے رہا ۔ انہوں نے کہا کہ ایک مرتبہ پھر کوئٹہ شہر اور دیگر میں کارڈ ہولڈرز اور کالے شیشوں میں بیٹھنے والے عناصر سرگرم ہوگئے ہیں جو سنگین نوعیت کے جرائم میں ملوث ہیں انہیں فوراً روکا جانا چاہیے ۔ انہوں نے فورسز کی جانب سے چیکنگ اور شناختی کارڈ کے نام پر عوام کو تنگ کئے جانے کی مذمت کی اور کہا کہ فورسز کو چاہیے کہ وہ سرحدات کی حفاظت کریں ۔