|

وقتِ اشاعت :   September 21 – 2016

نیویارک : اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا سالانہ سربراہی اجلاس نیویارک میں شروع ہو گیا ہے۔ اس اجلاس میں عالمی رہنما شدت پسندی، شامی تنازعے، ماحولیاتی تبدیلیوں اور مہاجرین کے بحران جیسے موضوعات پر بات چیت کریں گے۔جنرل اسمبلی کے 26 ستمبر تک جاری رہنے والے اجلاس میں اقوام متحدہ کی رکن ریاستوں کے 135 سربراہانِ مملکت و حکومت شرکت کر رہے ہیں، جب کہ 50 ممالک کے وزراء4 اپنے اپنے ممالک کی نمائندگی کر رہے ہیں،جنرل اسمبلی کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے امریکی صدر بارک اوبامہ نے کہا ہے کہ دنیا کی مشکلات بڑھتی جارہی ہیں، سب کو مل کر چیلنج کا مقابلہ کرنا ہوگا ہر فرد کے لیے معاشی نظام کو بہتر، امیر اور غریب کے درمیان فرق ختم اور تعلیم کو عام کرنا ہوگا، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے اوبامہ نے کہا کہ دنیا کو بہت سے مختلف مسائل کا سامنا ہے اور یہ مسائل بڑھتے ہی جارہے ہیں، دنیا کا تمام راہنماؤں کو مل کر بڑھتے ہوئے چیلنجز کا مقابلہ کرنا ہوگا، انہوں نے کہا کہ داعش پوری دنیا کے لیے بڑا خطرہ ہے، مذہبی انتہا پسندی دنیا کے لیے ایک چیلنج ہے، دہشتگردی کا مقابلہ کرنا ہوگا، انہوں نے کہا کہ امیر اور غریب کے درمیان فرق ختم کرکے معشیت کو بہتر کیا جا سکتا ہے، ہمیں ہر فرد کے لیے معاشی نظام کو بہتر کرنا ہوگا، ہمیں غریب اور امیر کا فرق ختم کرنا ہوگا اور نوجوانوں کو جدید تعلیم سے آراستہ کرنا ہوگا، ہمیں غریب ملکوں کو جدید ٹیکنالوجی تک رسائی دینا ہوگی اور آزاد میڈیا کے طاقت کے استعمال پر بھی نظر رکھنا ہوگی، ہمیں دنیا کو محفوظ بنانے کے لیے اقدامات کرنے ہوں گے، انہوں نے کہا کہ چین نے قابل ستائش معاشی ترقی کی ہے، امریکہ اپنا معاشی نظام کسی دوسرے ملک پر مسلط نہیں کر سکتا، انہوں نے کہا کہ امیر اور غیرب کے درمیان فرق کوئی نیا نہیں تاہم اب یہ فرق بڑھتا جارہا ہے جو خطرناک ہے، ہمیں اس فرق کو مٹانا ہوگا، دینا کے غریب ممالک کی مدد کرکے غربت کو ختم کرنا ہوگا، ہمیں انتہاپسندی کی ہر مشکل کو مسترد کرنا ہوگا اور دنیا کی معیشت کو برابری کی سطح پر لانے کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے، انہوں نے کہا کہ پھچلے 25سالوں میں جمہوری نظام میں اضافہ ہوا ہے اقوام کی ترقی کا واحد راستہ جمہوریت ہی ہے، اب دنیا پہلے سے زیادہ محفوظ اور خوشحال ہے، ہمیں انسانیت کو زندہ رکھنے کے لیے مزید بہتر اقدامات کرنے ہوں گے، مضبوط معشیت والے ممالک کو غریب ممالک کی مدد کرنا ہوگی، انہوں نے کہا کہ عوام کی حکومتوں سے توقعات بڑھتی جارہی ہیں امیر اور غریب میں فرق ختم کرنے والے معشیتیں کامیاب ہیں تاہم نظام اچھا نہ ہو تو کبھی کبھی انتخابات لا حاصل ہو سکتے ہیں، انہوں نے کہا کہ امریکہ جوہری ہتھیاروں سے پاک گامزن ہے، جوہری ہتھیاروں والے ممالک کو ان ہتھیاروں کی تلفی پر کام کرنا ہوگا، دنیا سمجھتی ہے کہ زیادہ تر مسائل امریکہ کی وجہ سے ہیں اور ان مسائل کا حل بھی امریکہ کے پاس ہے، امریکہ نے عراق جنگ میں جو خرچ کیا اسے ابھرتی ہوئی معشیت پر خرچ کیا جا سکتا تھا، انہوں نے کہا کہ دنیا کے مسائل سے منہ نہیں موڑ سکتے، شام میں خانہ جنگی کا کوئی فوجی حل نہیں، شام میں سفارتکاری پر محنت کی ضرورت ہے، اسرائیلی فلسطین کے علاقوں پر زیادہ دیر قبضہ برقرار نہیں رکھ سکتا، اسرائیل کو قبضہ چھوڑ دینا چاہئے اور فلسطین کو بھی اسرائیل کے وجود کو تسلیم کرنا ہوگا، مشرق و سطئی کے حکمران مخالفین کو دبا کر حکومت کرنا چاہتے ہیں، انہوں نے کہا کہ دنیا تعاون اور تقسیم کے مسائل سے دوچار ہے، ہمیں بنیاد پرستی اور نسل پرستی کے خاتمے کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے، انہوں نے کہا کہ ہمسایہ ممالک میں مداخلت سے بھی مسائل پیدا ہوتے ہیں روس کی ہمسایہ ممالک میں مداخلت کے باعث ان کی اپنی سرحدیں غیر محفوظ ہو گئیں۔