ایک امریکی اخبار کے مطابق اس نے ایسی دستاویزات حاصل کر لی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ رپبلکن پارٹی کی جانب سے صدارتی امیدوار اور کاروباری شخصیت ڈونلڈ ٹرمپ نے 1995 کے ٹیکس ریٹرن 90 کروڑ ڈالر کا خسارہ دکھایا تھا۔
نیویارک ٹائمز کے مطابق یہ خسارہ اس قدر بڑا تھا کہ اس سے ٹرمپ کو ممکنہ طور پر اگلے 18 سال تک قانونی طور پر ٹیکس ادا نہ کرنے کی چھوٹ مل گئی۔
ٹرمپ کی انتخابی مہم نے خسارہ کی تصدیق یا تردید کرنے سے انکار کیا ہے۔
ان کی حریف ہلیری کلنٹن ٹرمپ کے ٹیکس ریکارڈ کو شدید تنقید کا نشانہ بناتی رہی ہیں۔ گذشتہ ہفتے دونوں امیدواروں کے درمیان ہونے والے صدارتی مباحثے کے دوران کلنٹن نے کہا تھا کہ ایسا لگتا ہے کہ ٹرمپ کوئی ‘ہولناک’ چیز چھپا رہے ہیں۔
جب کلنٹن نے ٹرمپ پر الزام لگایا کہ وہ وفاقی ٹیکس ادا نہیں کرتے تو انھوں نے جواب دیا: ‘اس کا مطلب ہے کہ میں عقل مند ہوں۔’
اس کے مقابلے پر کلنٹن نے اپنا 40 سالہ ٹیکس ریکارڈ پیش کیا ہے۔
اپنی رپورٹ میں نیویارک ٹائمز نے لکھا ہے کہ گذشتہ ماہ اس کے ایک رپورٹر کو تین صفحات پر مشتمل دستاویزات موصول ہوئی تھیں۔
اخبار کے مطابق ٹرمپ کے ایک سابق اکاؤنٹنٹ نے تصدیق کی ہے کہ یہ 1995 کے ٹیکس ریٹرن ہی کی درست نقول ہیں۔
اتوار کو ٹرمپ کی مہم نے نیویارک ٹائمز پر الزام لگایا کہ وہ ‘کلنٹن کی مہم کی توسیع ہے۔’
مہم نے مزید کہا کہ ٹرمپ ‘ماہر کاروباری شخصیت ہیں اور ان پر اپنے کاروبار، اپنے خاندان اور اپنے ملازمین کی جانب سے امانت دارانہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ان کے ذمے قانونی طور سے جتنا ٹیکس بنتا ہے اس سے زیادہ نہ دیں۔
‘اس کے باوجود ٹرمپ نے پراپرٹی، سیلز، سٹی ٹیکس، ایمپلائی ٹیکس، فیڈرل ٹیکس اور ایکسائز ٹیکس کی مد میں کروڑوں ڈالر ادا کیے ہیں۔ اس کے علاوہ انھوں نے خاصی مقدار میں فلاحی مقاصد کے لیے چندہ بھی دیا ہے۔’
1976 کے بعد سے اب تک ہر بڑی امریکی پارٹی کے امیدوار اپنے ٹیکس ریکارڈ پیش کرتے چلے آئے ہیں۔ تاہم ٹرمپ یہ کہہ کر اب تک اپنا ٹیکس ریکارڈ منظرِ عام پر لانے سے گریز کرتے رہے ہیں کہ اس وقت اس کا آڈٹ ہو رہا ہے۔