کوئٹہ: گورنر بلوچستان محمد خان اچکزئی نے کہا ہے کہ معاشرے کی ترقی کیلئے تعلیمی شعبے کی ترقی اولین اہمیت رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ حکومت تعلیم کے فروغ اور ترقی پر خصوصی توجہ دے رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنے تعلیمی اداروں کو نئے چیلنجوں سے نمٹنے کا اہل بنانے کیلئے قواعد و ضوابط پر عملدرآمد اور معیار کی برقراری کو یقینی بنانا ہوگا اس مقصد کیلئے ہائیر ایجوکیشن کمیشن قابل قدر کام کررہا ہے اور یونیورسٹیوں اور تمام اعلیٰ اداروں کو کمیشن کے اصولوں اور ضابطوں کی پیروی کرنی چائیے ۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے پیر کے روز بلوچستان کی تما م یونیورسٹیوں کے وائس چانسلروں سے ملاقات کے دوران کیا۔ یونیورسٹیوں کی کارکردگی سے متعلق جائزہ اجلاس میں اعلیٰ تعلیمی اداروں کے انتظا می و تدریسی امور، ایم فل اور پی ایچ ڈی ڈگریوں کے اصولوں کی شرائط و معیار اور تعلیمی نظام کامعیار بلند کرنے کے علاوہ یونیورسٹیوں کی سطح پر داخلوں میں این ٹی ایس (NTS) کو لازم قرار دینے پر بھی غور کیا گیا۔ یونیورسٹیوں کی کارکردگی سے متعلق جائزہ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے گورنر بلوچستان نے کہا کہ ہمیں اپنے تعلیمی اداروں کو بین الاقوامی معیار کے مطابق بنانے کی اشد ضرورت ہے تاکہ ہماری ڈگریوں کو دنیا بھر میں قبولیت حاصل ہوسکے۔ انہوں نے کہا کہ کالج کی سطح پر ڈگری کورس کو چار سال پر محیط ہونا چائیے تاکہ ہمارے تعلیم یافتہ افراد دنیا کی دوسری یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے والوں کے برابر آسکیں۔ انہوں نے یونیورسٹیوں کو ہدایت کی کہ وہ منسلک کالجوں کو اس سلسلے میں رواں سال کے دسمبر تک عملدرآمد کی ہدایت کریں۔ انہو ں نے کہا کہ ہائیر ایجوکیشن کی طرف سے پی ایچ ڈی اور ایم فل کیلئے سکالرشپ جو یونیورسٹیوں کو دی جاتی ہے اس میں یونیورسٹی کے اساتذہ کے علاوہ کالجوں کے لیکچراروں اور پروفیسروں کو بھی شامل کیا جانا چائیے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں تدریسی عمل میں روائتی طریقوں سے الگ رہ کر جدید تحقیق سے حاصل ہونے والی معلومات اور طریقوں سے خود کو ہم آہنگ کرنا چائیے تاکہ جدید اور معیاری طریقہ تدریسی و تحقیق کو فروغ مل سکے۔ انہوں نے کہا کہ کسی بھی یونیورسٹی کو ایم فل اور پی ایچ ڈی کے کورس شروع کرنے سے پہلے اس بات کو یقینی بنایا جانا ضروری ہے کہ متعلقہ یونیورسٹی میں ضرورت کے مطابق پی ایچ ڈی اور سپروائیزرز اور دیگر تمام شرائط پوری ہوتی ہوں۔ گورنر نے لسبیلہ میں پولی ٹیکنک کالج کو یونیورسٹی کی نگرانی میں دینے سے متعلق متعلقہ ایم پی اے کے اعتراض کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کے حوالے سے کہا کہ اس معاملے پر حکومت کے فیصلے کا انتظار کیا جائے جو یقیناًعلاقے اور فروغ تعلیم کے مفاد میں ہوگا۔ انہو ں نے کہا کہ یونیورسٹیوں میں سالانہ امتحان کی بجائے سمسٹر نظام کو عام کیا جائے۔ گورنر نے مختلف اضلاع میں یونیورسٹی کمیٹی قائم کرنے سے متعلق کہا کہ بلوچستان کا علاقہ وسیع اور آبادی کم اور منتشر ہے لہذا ہر ضلع میں یونیورسٹی کیمپس کا قیام قابل عمل نہیں ۔اس لئے بہتر ہوگا کہ اضلاع میں موجود ڈگری کالج سے استفادہ کیا جائے ۔ ملاقات کے دوارن تعلیمی نظام کو معیاری بنانے اور یونیورسٹیوں کو درپیش مشکلات پر قابو پانے کیلئے متعددتجاویز اور سفارشات سامنے آئیں جس کی روشنی میں بعض اہم فیصلے بھی کیے گئے۔ اس موقع پر یونیورسٹی آف بلوچستان کے وائس چانسلر پروفیسر جاوید اقبال ، بیوٹمز کے وائس چانسلر انجینئر احمد فاروق بازئی ، تربت یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر عبدالرزاق صابر، وومن یونیورسٹی کی وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر رخسانہ جبین ، خضدار انجینئرنگ یونیورسٹی کے وائس چانسلربرگیڈئیر ریٹائرڈ محمد امین ، لسبیلہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر دوست محمد بلوچ ، لورالائی یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر عبداللہ خان ، پرنسپل سیکرٹری ٹو گورنر عبدالجبار اور ایڈیشنل سیکرٹری گورنرز سیکرٹریٹ سکندر شاہ بھی موجود تھے۔