|

وقتِ اشاعت :   October 7 – 2016

اسلام آباد: سینیٹر تاج حیدر کا کہنا ہے کہ نہ ہی اقوام متحدہ اور نہ ہی ہمارے ان دوستوں نے مسئلہ کشمیر کو سنجیدگی سے لیا، جن کے ساتھ ہم نے فوجی معاہدے کر رکھے ہیں۔ اسپیکر اسمبلی سردار ایاز صادق کی زیر صدارت پاک-ہندوستان کشیدگی اور مسئلہ کشمیر کے حوالے سے بلائے گئے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے تیسرے روز ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے سینیٹر تاج حیدر کا کہنا تھا کہ آگے بڑھنے کے لیے یہ انتہائی ضروری ہے کہ ہم اپنی کوتاہیوں کا جائزہ لیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی معاملے میں جنگ کا کوئی عقلی و اخلاقی جواز نہیں اور دو جوہری ریاستوں کے درمیان جنگ دونوں کے خاتمے کا باعث ہوگی، لیکن ہمیں اپنے راستے کا بھی تعین کرنا چاہیے۔ تاج حیدر نے کہا کہ ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ اقوام متحدہ کشمیر میں ظلم وستم رکوانے کے سلسلے میں کیا کردار ادا کرسکتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کشمیریوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا پورا حق حاصل ہے۔ تاج حیدر نے کہا کہ کشمیریوں کے استصواب رائے کے مطالبے سے ایک ملی میٹر بھی پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکا اور بھارت کے درمیان معاہدے کے نتیجے میں ہندوستان کو ہرسال 50 نیوکلیئر ہتھیار بنانے کا حق حاصل ہوگیا یے، لہذا ‘ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ جو ہمارے دوست بنتے تھے، وہ آج ہمارے دشمن کے دوست بن گئے ہیں۔’ سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ میں پہلے بھی یہ کہہ چکا ہوں کہ سپر پاور سے دوستی ہمارے لیے بڑے نقصان کا باعث ہوگی۔ بھارت کو دہشتگرد ریاست قرار دینے کی مہم شروع کرنی چاہے، جی جی جمالی وفاق کے زیرانتظام قبائلی علاقے (فاٹا) کی نمائندگی کرنے والے رکن اسمبلی ڈاکٹر جی جی جمال نے ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ کمشیر میں اس وقت 2 مسئلے اہم ہیں، ایک ہندوستان کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اور دوسرا ان کا جذبہ حریت۔ جی جی جمالی نے کہا کہ جس طرح ہندوستان نے ہمیں پوری دنیا میں ایک دہشت گرد ریاست قرار دینے کی مہم شروع کر رکھی ہے، اسی طرح یہ وقت ہے کہ ہم بھی ہندوستان کو ایک دہشت گرد ریاست قرار دینے کے لیے مہم چلائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک نئی قسم کی نفسیاتی جنگ ہے، جس پر ہمیں کام کرنا چاہیے۔ انھوں نے مزید کہا کہ جب کوئی ملک جنگ کرتا ہے تو اس کے اندرونی حالات درست ہونے چاہئیں، لیکن یہ پہلی مرتبہ ہے کہ ہمارے مغربی بارڈر پر فوج کے دستے تعینات ہیں اور ہندوستان نہیں چاہتا کہ ضرب عضب کامیاب ہو، وہ دہشت گردی کو ختم نہیں کرنا چاہتا۔ ساتھ ہی انھوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ ہمارے مغربی بارڈر پر چاہے جیسے بھی حالات ہوں، لیکن ہندوستان یہ جان لے کے فاٹا کے لوگ چاہے کسی بھی حالت میں ہوں، وہ پاکستان کے لیے اپنا خون بہانے کے لیے تیار ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم نے 35 سال تک افغان مہاجرین کی میزبانی کی، لیکن اب جس طرح سے انھیں پاکستان بدر کرنا شروع کیا ہے، اس نے 35 سالوں کی کوششوں پر پانی پھیر دیا ہے۔ جی جی جمالی نے او آئی سی کو جگانے پر وزارت خارجہ کی کوششوں کو سراہتے ہوئے کہ اس نے حال ہی میں کشمیر کے حوالے سے بہت مضبوط پیغام دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہندوستان تو چاہے گا کہ لوگ جنگ کی باتیں کریں اور کشمیر کے بنیادی مسئلے سے لوگوں کی توجہ ہٹ جائیں، لہذا ہمیں ان کے جھانسے میں نہیں آنا چاہیے۔