اسلام آباد: سپریم کورٹ نے پاناما لیکس کے معاملے پرتحریک انصاف، جماعت اسلامی اورعوامی مسلم لیگ کی آئینی درخواستوں پر وزیراعظم نواز شریف، وزیر خزانہ اسحاق ڈار، وزیراعظم کی صاحبزادی مریم نواز، داماد کیپٹن (ر) صفدر، بیٹوں حسن نواز، حسین نواز، ڈی جی فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے)، چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) اور اٹارنی جنرل سمیت تمام فریقین کو نوٹس جاری کردیئے جبکہ دھرنا روکنے کی درخواست قبل از وقت قراردیکر مسترد کردی۔چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الحسن اور جسٹس خلجی عارف حسین پر مشتمل سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے پاناما لیکس پر وزیراعظم کے خلاف درخواستوں پر سماعت کی۔اس موقع پر تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان، پی ٹی آئی رہنما جہانگیر ترین، عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید، جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق اور دیگر رہنما کمرہ عدالت میں موجود تھے جبکہ حکومتی وزراء خواجہ آصف اور سعد رفیق اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما دانیال عزیز بھی سماعت کے موقع پر عدالت میں موجود تھے۔، ابتدائی سماعت کے موقع پر قومی وطن پارٹی کے سربراہ بیرسٹر ظفر اللہ دلائل دیتے ہوئے کہا کہ معاملے پر جوڈیشل کمیشن نہیں بننا چاہیے بلکہ پارلیمانی کمیٹی بننی چاہیے جب پارلیمنٹ موجود ہے تو معاملے کو عدالت میں نہیں آنا چاہیے جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پارلیمانی کمیٹی یا کمیشن بنانا حکومت کا کام ہے ،جوڈیشل کمیشن کے حوالے سے حکومت نے خط لکھا تھا جس کا جواب بھی دیدیا گیا تاہم حکومت کی جانب سے دوبارہ کوئی جواب موصول نہیں ہوا،بیرسٹر ظفر علی نے مزید دلائل دیتے ہوئے کہا کہ جوڈیشل کمیشن بنانے کا مقصد پارلیمنٹ کا وجود نہیں ہے تاہم عدالت نے جوڈیشل کمیشن نہ بنانے کے حوالے سے قومی وطن پارٹی کی درخواست خارج کر دی جبکہ طارق حسن ایڈوکیٹ کا کہنا تھا کہ پورا شہر رو رہا ہے کہ اسلام آباد بند نہ کیا جائے ،جس پر چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ آپ چاہتے ہیں کہ یہ کام بھی ہم کریں، ہم کسی سیاسی مسئلے میں نہیں پڑیں گے لیکن انتظامیہ شہریوں کو ان کے حقوق دینے میں ناکام رہی تو مداخلت کریں گے ۔ جسٹس عارف خلجی حسین کا کہنا تھا کہ عدالت کو کوئی دھمکی نہیں دے سکتا۔جماعت اسلامی کی جانب سے ایڈووکیٹ اسد منظور بٹ پیش ہوئے ،عدالت نے جماعت اسلامی کی دائر درخواست پر وفاق،وزارت قانون، وزارت خزانہ ،کابینہ ڈویژن اور قومی احتساب بیورو کو نوٹسز جاری کر دیئے ،تحریک انصاف کی طرف سے حامد خان ایڈووکیٹ پیش ہوئے ،انہو ں نے اپنے دلائل میں کہا کہ پانامہ لیکس کا معاملہ یکم جنوری2016 کا ہے ،بیرون ممالک کی رپورٹس کے مطابق نواز شریف و دیگر پاکستانیوں کے نام سامنے آئے ہیں،پانامہ کے معاملے پر کئی غیر ملکی شخصیات نے اپنے عہدوں پر استعفے دے دیئے ہیں ،نواز شریف ماضی میں بھی بدعنوانیوں میں ملوث رہے ہیں ،انہوں نے مزید بتایا کہ اتفاق فاؤنڈری کو1972 میں قومی تحویل میں لیاگیا تھا اس کے بعد انہوں نے جدہ اور دبئی وغیرہ میں غیر قانونی سرمایہ کاری کی ان کی انکوائری کرائی جائے ۔عدالت نے درخواست سماعت کیلئے منظور کرتے ہوئے وزیر اعظم نواز شریف،سیکرٹری داخلہ،قومی احتساب بیورو،وزیر اعظم کی صاحبزادی مریم نواز ،کیپٹن صفدر،حسن نواز، حسین نواز ،اسحاق ڈار ،ایف بی آر اور وزارت قانون کو نوٹسز جاری کر دیئے۔عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد خود عدالت میں پیش ہوئے اور کہا کہ یہ وقت ملک کو تحفظ دینے کا ہے ،جمہوریت کو بچایا جائے اور کرپٹ حکمرانوں سے نجات دلائی جائے ،عدالت نے شیخ رشید کی بھی درخواست کو منظور کرتے ہوئے فریقین کو نوٹسز جاری کرنے کے احکامات جاری کئے جس پر شیخ رشید نے کہا کہ نوٹسز نہیں فریقین کو شوکاز نوٹسز جاری کئے جائیں جس پر عدالت نے کہا کہ فریقین کے جوب آنے دیں دائرہ اختیار کافیصلہ فریقین کو سن کر کریں گے ،شہری اسد کھرل نے عدالت کو بتایا کہ نواز شریف فیملی کے 43 لوگ کرپشن میں ملوث ہیں اس حوالے سے 24 صفحات پر مشتمل رپورٹ نیب میں جمع کروائی تھی،نیب کو 9 بار یادہانی کرانے کے باوجود کوئی شنوائی نہیں ہوئی جس کے بعد سپریم کورٹ سے رجوع کیا ،عدالت نے اسد کھرل کی بھی درخواست کو منظور کرتے ہوئے اٹارنی جنرل اور چیئرمین نیب کو نوٹسز جاری کر دیئے ۔بعدازاں کیس کی سماعت 2 ہفتوں کے لیے ملتوی کردی گئی۔