اسلام آباد: سپریم کورٹ میں پاناما لیکس کے معاملے پر وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت ہوئی جس میں وزیراعظم کے بچوں حسن نواز، حسین نواز اور مریم صفدر نے جواب داخل کرائے۔
وزیر اعظم کے بچوں کی جانب سے نواز شریف کے وکیل سلمان اسلم بٹ نے عدالت کے سامنے جواب پڑھ کر سنائے۔
چیف جسٹس نے تمام فریقین کو ہدایت کی کہ وہ 15 نومبر تک دستاویزی شواہد پیش کریں جبکہ کیس کی سماعت بھی 15 نومبر تک کے لیے ملتوی کردی گئی۔
حکومت کی جانب سے درخواست کی گئی کہ انہیں دستاویزی شواہد جمع کرانے کے لیے 15 روز کا وقت دیا جائے تاہم عدالت عظمیٰ نے درخواست مسترد کردی۔
چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے ریمارکس دیئے کہ ‘حکومت کے پاس تو پہلے ہی دستاویزی شواہد موجود ہیں، ہم کم سے کم وقت میں معاملے کو نمٹانا چاہتے ہیں۔’
چیف جسٹس نے کہا کہ پیشگی دستاویزی ثبوت طلب کرنے سے مجوزہ کمیشن کو کم سے کم وقت میں فیصلہ کرنے میں مدد ملے گی، اس معاملے کو عام کیس کی طرح سنا تو مقدمہ سالوں چلے گا۔
چیف جسٹس نے پی ٹی آئی کے وکیل حامد خان سے استفسار کیا کہ وہ اپنی رائے بتائیں کہ کیا معاملے پر کمیشن تشکیل دیا جائے یا نہیں؟
چیف جسٹس نے کہا کہ کیا کمیشن کی بجائے دستاویزات منگوا کر جائزہ لیا جائے؟ان کا کہنا تھا ‘ہم نہیں چاہتے کہ تاخیر ہمارے کھاتے میں آئے، مناسب وقت نہ دیا تو کل کہا جائے گا کہ کمیشن نے وقت نہیں دیا۔’
اپنے ریمارکس میں چیف جسٹس نے کہا کہ ملکی صورتحال میں اداروں پر بداعتمادی بڑھ گئی ہے اور نیب، ایف آئی اے اور ایف بی آر کو برائی نظر ہی نہیں آتی۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ یوسف رضا گیلانی کے خلاف فیصلہ دیا وہ پھر بھی عہدے پر برقرار رہے، عدالت نے بعد میں حکم دیا کہ آپ وزیراعظم نہیں رہے،ہم کلین چٹ بھی دے سکتے ہیں اور مخالف فیصلہ بھی آ سکتا ہے۔
جسٹس کھوسہ نے کہا کہ حکومت کے خلاف فیصلہ آیا تو وزیراعظم کہہ چکے ہیں کہ وہ عہدے پر نہیں رہیں گے۔
قبل ازیں سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے کہا کہ وزیراعظم خود کو احتساب کے لیے پیش کرچکے ہیں۔
اس موقع پر ن لیگ کے رہنما طارق فضل چوہدری نے کہا کہ تحریک انصاف سڑکوں پر عدالت لگانے کی بہت شوقین ہے،پی ٹی آئی سے گزارش ہے کہ ایک وقت میں ایک ہی عدالت لگائے۔
ن لیگ کے رہنما طلال چوہدری کا کہنا تھا کہ پہلے نواز شریف کو ایٹمی دھماکوں پر نشانہ بنایا گیا اب اب سی پیک پر نشانہ بنایا جارہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جس کے پاس ثبوت ہے وہ بات کرے، نواز شریف کو مائنس کرنے کی باتیں کرنے والے مسترد ہوچکے ہیں۔
وزیر اعظم کے بچوں کے جواب
وزیر اعظم کے وکیل سلمان اسلم بٹ نے حسن، حسین اور مریم کے جوابات عدالت کے سامنے پیش کیے۔
سلمان اسلم بٹ نے عدالت کو بتایا کہ مریم نواز اپنا ٹیکس ریٹرن ادا کرتی ہیں، انہوں نے کسی بھی متذکرہ پراپرٹی کی قیمت ادا نہیں کی۔
انہوں نے بتایا کہ مریم نواز نیلسن اور نیسکول کمپنی کی ٹرسٹی ہیں اور انہوں نے یہ الزام مسترد کیا ہے کہ وہ کسی آف شور کمپنی کی مالک ہیں۔
حسین نواز نے اپنے جواب میں موقف اپنایا کہ وہ 16 سال سے بیرون ملک قانون کے مطابق کام کررہے ہیں، جنوری 2005 سے قبل متذکرہ جائیدادیں ان کی نہیں تھیں۔
سلمان اسلم بٹ نے بتایا کہ حسن اور حسین نے عمران خان کی درخواست میں لگائے گئے تمام الزامات مسترد کردیئے۔
اس موقع پر جسٹس عظمت سعید شیخ نے سلمان اسلم بٹ سے استفسار کیا کہ آپ نے جواب کے ساتھ تفصیلات کیوں فراہم نہیں کیں جس پر انہوں نے کہا کہ وقت مختصر تھا البتہ مجوزہ کمیشن میں تمام دستاویزات فراہم کریں گے۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے سلمان اسلم بٹ سے پوچھا کہ ٹرسٹی کا کام کیا ہوتا ہے؟ جس پر انہیں بتایا گیا کہ ٹرسٹی کا کام اپنی خدمات فراہم کرنا ہوتا ہے۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آپ عدالت کو مطمئن کریں کہ خریداری قانون کے مطابق تھی، عدالت کو مطمئن کریں قانون کے مطابق رقم بیرون ملک منتقل کی گئی، آپ عدالت کو مطمئن کریں اور سکون سے گھر چلے جائیں۔
عمران خان اور جہانگیر ترین کو نوٹسز جاری
پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما حنیف عباسی کی جانب سے دائر درخواست پر سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ جس کی سربراہی چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کررہے تھے، پی ٹی آئی کے رہنما عمران خان اور جہانگیر ترین کو نوٹسز جاری کردیے۔
بینچ نے عمران خان اور جہانگیر ترین کو ہدایت کی کہ وہ درخواست گزار کی جانب سے آف شور کمپنیوں کے حوالے سے لگائے جانے والے الزامات پر اپنے جوابات 15 نومبر تک عدالت میں جمع کرائیں۔
حاکم وقت کا معاملہ
سماعت کے دوران مسلم لیگ (ن) کے رہنما حنیف عباسی کے وکیل اکرم شیخ نے کہا کہ ’ہم نے بھی اسی معاملے پر درخواست سپریم کورٹ میں دائر کررکھی ہے، آپ سے استدعا کی تھی کہ یہ درخواست اسی بینچ میں منسلک کی جائے۔’
تاہم یہ درخواست مسترد کرتے ہوئے چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اگر مناسب ہوا تو درخواست کو اسی بینچ میں لگائیں گے لیکن اس حوالے سے فیصلہ فریقین کی جانب سے جواب داخل کرائے جانے کے بعد کیا جائے گا۔
واضح رہے کہ حنیف عباسی نے عمران خان اور جہانگیر ترین کی نااہلی کے لیے درخواست دائر کر رکھی ہے اور اکرم شیخ حنیف عباسی کے وکیل ہیں۔
اس موقع پر درخواست گزار طارق اسد نے عدالت میں موقف اختیار کیا کہ یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ یہ کیس عمران خان اور نواز شریف کے خلاف ہے۔
چیف جسٹس نے ان سے پوچھا کہ کتنے لوگ آف شور کمپنیوں کے مالک ہیں جن کے نام اسکینڈل میں آئے ہیں؟ جس پر طارق اسد نے کہا کہ 400 کے قریب کمپنیاں اور لوگوں کے نام پاناما لیکس میں شامل ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ 800 لوگوں کے خلاف تحقیقات ہوں تو یہ کام کئی سال چلے گا، حاکم وقت کا معاملہ دوسروں سے الگ ہوتا ہے۔
سپریم کورٹ میں ہونے والی سماعت میں شرکت کے لیے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان، عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید اور دیگر فریقین عدالت عظمیٰ پہنچے تھے۔
چیف جسٹس آف پاکستان انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے کیس کی سماعت کی۔
پی ٹی آئی نے ڈاکٹر بابر اعوان کو بھی اپنے وکلاء کی ٹیم میں شامل کر لیا ہے اور وہ پاناما کیس میں پی ٹی آئی کی جانب سے وزیراعظم اور ان کے بچوں کے خلاف دلائل دیں گے۔
وزیر اعظم کا جواب
گزشتہ ہفتے وزیر اعظم کا جواب سپریم کورٹ میں نواز شریف کے وکیل سلمان اسلم بٹ نے پڑھ کر سنایا تھا جس میں عدالت کو آگاہ کیا گیا تھا کہ نواز شریف بیرون ملک فلیٹس اور دیگر بتائی گئی جائیدادوں کے مالک نہیں۔
یہ بھی بتایا گیا تھا کہ وزیر اعظم نواز شریف آف شور کمپنیوں کے مالک نہیں ہیں اور باقاعدگی سے ٹیکس قانون کے مطابق ادا کرتے ہیں۔
وزیر اعظم کے جواب میں یہ بھی کہا گیا کہ 2013 کے گوشواروں میں ان کے تمام اثاثے ڈکلیئر ہیں اور ان کا کوئی بچہ ان کے زیر کفالت نہیں۔
وزیر اعظم نے اپنے جواب میں موقف اپنایا کہ آرٹیکل 62 اور 63 کے تحت انہیں نااہل نہیں قرار دیا جاسکتا۔
جواب میں نواز شریف نے موقف اپنایا کہ وہ 16اور 16اے، 17اور17اے لندن جائیداد کے مالک یاطفیلی نہیں ہیں ، وہ کسی آف شور کمپنی کے مالک نہیں رہے۔
جواب میں یہ بھی کہا گیا کہ نواز شریف کانام پانامہ پیپرز میں نہیں اور نہ کی ان پر کوئی الزام لگایاگیا، کسی عدالت نے نواز شریف کے خلاف آج تک کوئی کاروائی کی نہ کوئی فیصلہ دیا۔
وزیر اعظم کے جواب میں کہا گیا کہ نواز شریف کے خلاف درخواست جھوٹے، بے بنیاد اور غیر مصدقہ دستاویزات پر مبنی ہے، نواز شریف کے خلاف درخواست سیاسی مفادات کے لیے دائر کی گئی۔
حکومت کے ٹی او آرز
گزتشہ جمعرات کو وزیر اعظم نواز شریف کے داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر نے پاناما لیکس کی تحقیقات کے حوالے سے مجوزہ کمیشن کے لیے حکومتی ٹی او آرز سپریم کورٹ میں جمع کرائے تھے۔
محمد صفدر کے ٹی او آرز میں تجویز دی گئی تھی کہ مجوزہ کمیشن کو پاکستان سے کرپشن ، کمیشن اور ناجائز مالی فوائد حاصل کرکے کمائے گئے پیسوں کی بیرون ملک منتقلی کی تفصیلات کی چھان بین کرنے اور ان جرائم میں ملوث افراد کی نشاندہی کی اجازت ہونی چاہیے۔
ٹی او آرز میں یہ تجویز بھی پیش کی گئی کہ مجوزہ کمیشن کو کسی بھی شخص یا دستاویز منگوانے،ضابطہ فوجداری اور دیوانی کے اختیارات، کسی ادارے یا جگہ کی تلاشی،پولیس کو بھی تفتیش کا حکم دینے اور اپنی کارروائی میں مداخلت کرنے والے کو سزا دینے کا بھی اختیار حاصل ہونا چاہیے۔
ٹی او آرز کے مطابق کمیشن کو اس بات کا بھی تعین کرنا چاہیے کہ آیا آفشور کمپنیوں کے ذریعے خریدی جانے والی جائیدادوں میں انکم ٹیکس، دولت ٹیکس، فارن ایکسچینج، کمپنیز اور انتخابات کے حوالے سے قانون کی خلاف ورزی ہوئی یا نہیں جبکہ جائیدادیں خریدنے کے لیے استعمال ہونے والی رقم کا ذریعہ آمدنی، آمدنی پر ٹیکس کی ادائیگی اور جائیدادیں فروخت کرنے والوں کا بھی تعین ہونا چاہیے۔
ٹی او آرز میں یہ بھی کہا گیا کہ کمیشن کو بینکوں سے معاف کرائے گئے قرضوں کی بھی چھان بین کرنی چاہیے، جس میں ماضی میں سپریم کورٹ کی جانب سے بنائے گئے کمیشن کی رپورٹ کو بھی شامل کیا جانا چاہیے جبکہ موجودہ اور سابق سرکاری عہدے داروں کی جانب سے قرض معاف کرانے کی بھی تحقیقات ہونی چاہئیں۔
کمیشن کو اس بات کا بھی تعین کرنا چاہیے کہ آیا قرضے سیاسی اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے تو معاف نہیں کرائے گئے۔
پی ٹی آئی کے ٹی او آرز
تحریک انصاف نے مجوزہ کمیشن کے حوالے سے سماعت کے بعد سپریم کورٹ میں اپنے ٹی او آرز جمع کروائے تھے۔
پی ٹی آئی کی جانب سے ٹی او آرز میں سوال کیا گیا کہ نیسکول اور نیلسن کمپنیاں کب بنائی گئیں، ان کا اصل مالک کون ہے، مریم نواز نے کب خریدیں؟
پی ٹی آئی کے ٹی او آر میں پوچھا گیا کہ لندن فلیٹس 1993 میں کس قیمت پر خریدے گئے؟ لندن میں رقم کب اور کن ذرائع سے منتقل کی گئی؟ اور نواز شریف نے 1982 سے 1996 تک کتنا انکم ٹیکس ادا کیا؟
تحریک انصاف کا کہنا تھا کہ کیا وزیراعظم نے فلیٹس خریداری کے حوالے سے اسمبلی میں جھوٹ بولا؟ کیا اسمبلی میں جھوٹ بولنے کے بعد وزیراعظم صادق وامین رہے؟ کیا ان حقائق کی روشنی میں رکن اسمبلی نااہل ہو سکتا ہے؟
پی ٹی آئی کی جانب سے تمام حقائق کو دیکھتے ہوئے 2 سوال اٹھائے گئے کہ کس اکاؤنٹ سے التوفیق کمپنی کو تین کروڑ 20 لاکھ ڈالر دیئے گئے اور وزیراعظم کا بتائی گئی جائیداد حاصل کرنے میں کیا کردار تھا؟ مریم نواز مے فیر فلیٹس کی اکلوتی مالک کیسے بنیں؟
پچھلی سماعتیں
قبل ازیں 3 نومبر کو ہونے والی سماعت میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے پانچ رکنی بینچ نے فیصلہ کیا تھا کہ پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے ایک رکنی کمیشن قائم کیا جائے گا جو پاناما پیپرز میں سامنے آنے والے انکشافات کی تحقیقات کرے گا۔
اس مجوزہ پاناما گیٹ کمیشن کی سربراہی سپریم کورٹ کا جج کرے گا اور اسے سپریم کورٹ کے اختیار حاصل ہوں گے۔
یاد رہے کہ پاکستان تحریک انصاف،جماعت اسلامی، عوامی مسلم لیگ، جمہوری وطن پارٹی اور طارق اسد ایڈووکیٹ نے پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ میں آئینی درخواستیں دائر کی تھیں۔
گذشتہ ماہ 20 اکتوبر کو ان درخواستوں پر سماعت کے بعد سپریم کورٹ نے وزیراعظم نواز شریف، وزیر خزانہ اسحاق ڈار، وزیراعظم کی صاحبزادی مریم نواز، داماد کیپٹن (ر) صفدر، بیٹوں حسن نواز، حسین نواز، ڈی جی فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے)، چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریوینیو (ایف بی آر) اور اٹارنی جنرل سمیت تمام فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کیس کی سماعت 2 ہفتوں کے لیے ملتوی کی تھی۔
بعدازاں عدالت عظمیٰ نے درخواستوں کی سماعت کے لیے یکم نومبر کی تاریخ مقرر کی تھی، جبکہ درخواستوں کی سماعت کے لیے 5 رکنی لارجر بینچ بھی تشکیل دے دیا گیا تھا۔
یکم نومبر کو ہونے والی سماعت میں سپریم کورٹ نے پاناما پیپرز کی تحقیقات کے لیے حکومت اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سے تحقیقاتی کمیشن کے ٹرمز آف ریفرنسز (ٹی او آرز) پر تحریری جواب طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت 3 نومبر تک ملتوی کردی تھی۔
3 نومبر کی سماعت میں وزیر اعظم کی جانب سے ان کے وکیل نے جواب داخل کرایا جبکہ عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے بھی اپنے ٹی او آرز جمع کرادیے تھے۔
عدالت نے وزیر اعظم کے بچوں کی جانب سے جواب داخل نہ کرائے جانے پر برہمی کا اظہار کیا تھا اور وزیر اعظم کے وکیل سلمان اسلم بٹ کی سرزنش کی تھی جبکہ جواب داخل کرنے کے لیے 7 نومبر تک کی مہلت دی تھی۔
بعد ازاں تحریک انصاف نے کمیشن کے حوالے سے سماعت کے بعد سپریم کورٹ میں اپنے ٹی او آرز جمع کروائے جبکہ وزیراعظم کے داماد کیپٹن (ر) صفدر نے بھی اپنا جواب اور ٹی او آرز عدالت عظمیٰ میں جمع کرادیا تھا۔
حکومت کا جوڈیشل کمیشن کے قیام پر آمادگی کا اظہار
سپریم کورٹ میں سماعت شروع ہونے کے بعد پاناما لیکس کے معاملے پر حکومت نے جوڈیشل کمیشن کے قیام پر آمادگی ظاہر کردی تھی۔
وزیراعظم نواز شریف کے وکیل سلمان اسلم بٹ نے عدالت عظمیٰ کو بتایا تھا کہ وزیراعظم لندن کی جائیدادوں کی تحقیقات کے لیے راضی ہیں اور الزامات درست ثابت ہوئے تو وزیراعظم نتائج تسلیم کریں گے۔
سماعت کے بعد سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو میں وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا تھا کہ ہم عدالتی کارروائی پر بھرپور اعتماد کا اظہار کرتے ہیں اور عدالت کے فیصلے پر سر تسلیم خم کرتے ہیں۔
یاد رہے کہ رواں سال اپریل میں آف شور کمپنیوں کے حوالے سے کام کرنے والی پاناما کی مشہور لاء فرم موزیک فانسیکا کی افشا ہونے والی انتہائی خفیہ دستاویزات سے پاکستان سمیت دنیا کی کئی طاقتور اور سیاسی شخصیات کے مالی معاملات عیاں ہوئے تھے۔