|

وقتِ اشاعت :   November 19 – 2016

انڈیا میں انسدادِ دہشت گردی پولیس نے شہر ممبئی میں ملک کے معروف مسلم مذہبی مبلغ ذاکر نائیک سے منسلک دس مختلف مقامات پر چھاپے مارے ہیں۔ چھاپوں سے چند گھنٹے قبل ہی حکومت کی جانب سے ذاکر نائیک کے خلاف مذہبی منافرت کو فروغ دینے کے الزام میں کیس رجسٹر کیا گیا تھا۔ یاد رہے کہ چند روز قبل ہی ذاکر نائیک کے ادارے ‘اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن’ پر حکومت کی جانب سے پانچ برس کے لیے پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ ذاکر نائیک اس وقت انڈیا میں موجود نہیں ہیں۔ پولیس کا جانب سے کی جانے والی کارروائی کے بعد ان کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ادارہ کسی بھی تفتیش میں مکمل تعاون کرنے کو تیار ہے۔ یاد رہے کہ حکومت کی جانب سے ذاکر نائیک کے ادارے پر غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزامات لگتے رہے تھے۔ چند روز پہلے ہی حکومت نے اس ادارے پر بیرون ملک سے چندہ لینے کی پابندی عائد کی تھی۔ اطلاعات کے مطابق پابندی لگانے کا یہ فیصلہ وزیر اعظم نریندر مودی کی صدارت میں ہونے والے مرکزی کابینہ کے اجلاس میں کیا گیا۔ ذاکر نائیک کا ادارہ ممبئی میں واقع ہے اور وہ اپنی تبلیغی سرگرمیاں وہیں سے انجام دیتے تھے۔ اس سے قبل مہاراشٹر کی حکومت اور مرکزی وزارت داخلہ نے ذاکر نائیک کے خلاف تفتیش کا آغاز کیا تھا۔ وزارت داخلہ کی تحقیق کے مطابق اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن نامی ادارے کے بین الاقوامی اسلامی چینل ‘پیس ٹی وی’ سے مبینہ طور پر تعلقات ہیں۔ انڈیا میں پیس ٹی وی پر بھی کئی طرح کے الزامات لگتے رہے ہیں۔ انڈین وزارت داخلہ کے مطابق ذاکر نائیک نے مبینہ طور پر کئی اشتعال انگیز تقریریں کی ہیں۔ پہلی بار جب ذاکر نائیک پر ایسے الزامات لگے تو وہ ملک سے باہر تھے اور اس وقت سے وہ انڈیا واپس نہیں آئے۔ ذاکر نائیک سے متعلق تنازع اس وقت شروع ہوا تھا جب اس طرح کی خبریں میڈیا میں نشر کی جانے لگیں کہ بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ کے حملہ آور ذاکر نائیک سے متاثر تھے۔ اطلاعات کے مطابق کچھ حملہ آور ذاکر نائیک کو سنا کرتے تھے۔ ڈھاکہ حملے میں حملہ آوروں سمیت 28 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ لیکن ڈاکٹر ذاکر نائیک نے اس طرح کے تمام الزامات سے انکار کیا ہے کہ وہ اپنی تبلیغ سے کسی بھی طرح کی شدت پسندی پھیلاتے ہیں۔ انھوں نے ایک بیان میں کہا تھا کہ ان کا کوئی بھی ایسا ایک بھی خطاب نہیں ہے جس میں انھوں نے کسی معصوم کی جان لینے کی بات کہی ہو، چاہے وہ مسلم ہو یا غیر مسلم۔