|

وقتِ اشاعت :   November 24 – 2016

کوئٹہ : لاکھوں افغان خاندانوں کی موجودگی میں مردم شماری کسی بھی صورت قبول نہیں حکمرانوں نے حلیف جماعتوں کی خوشنودی کی خاطر گنتی کے جماعتوں کو بیٹھا کر افغان مہاجرین کو دسمبر2017ء تک توسیع دینے کی سفارش کرائی جو کہ قابل قبول نہیں مردم شماری اس وقت تک بلوچ قوم قبول نہیں کرے گی جب تک 40لاکھ افغان مہاجرین کے انخلاء ، 60فیصد شناختی کارڈز سے محروم بلوچوں کو اجراء اور مشرف میں اپنے علاقے چھوڑ کر جانے والے لاکھوں بلوچوں کی دوبارہ آبادکاری نہیں کرائی جاتی پارٹی مردم شماری اور ترقی کی مخالف نہیں لیکن اصولی اور بلوچوں کے وسیع تر مفادات کی خاطر ہر قربانی دینے کو تیار ہیں اس سے قبل بھی جتنے دفعہ مردم شماری کرائی گئی اس میں بلوچوں کی 75فیصد آبادی کو شمار نہیں کیا گیا اب بھی بلوچستان کے اکثریتی اضلاع و ڈویژنز میں بلوچ آباد ہیں 2011ء کے خانہ شماری کے بعد سیکرٹری شماریات کے انکشافات جس میں واضح طور پر کہا گیا کہ بلوچستان کے پشتون علاقوں میں افغان مہاجرین کی آباد کاری کی وجہ سے300سے400فیصد اضافہ ہوا ہے اس کے باوجود حکمران بضد ہیں کہ وہ مردم شماری کرائیں گے یہ مردم شماری بلوچوں کو اپنی ہی سرزمین پر بلوچوں کو محکومیت کی جانب دھکیلنے کے مترادف ہوگا کل تک جو افغان مہاجرین کو مختلف القابات سے یاد کرتے ہیں آج نہیں کڈوال کہتے ہیں افغان ثور انقلاب کے وقت ڈاکٹر نجیب کی خوشنودی کی خاطر انہی افغان مہاجرین کو وہاں کی قوم پرست حکومت کے دشمن اور ثور انقلاب کی کامیابی کیخلاف رکاوٹ سمجھا جاتا ہے لیکن آج اپنے گروہی مفادات کی خاطر اب ان کی حمایت کی جا رہی ہے ان خیالات کا اظہار بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات آغا حسن بلوچ ایڈووکیٹ ، ہیومن رائٹس سیکرٹری موسی بلوچ ، مرکزی کمیٹی کے ممبر غلام نبی مری ، بی ایس او کے سیکرٹری جنرل منیر جالب ، سید آغا ناصر علی شاہ ہزارہ ،فرزانہ بلوچ نے خطاب کرتے ہوئے کیا،مقررین نے گزشتہ دنوں اسلام آباد میں ہونے والے وزارت سیفران کی جانب سے چند اتحادی جماعتوں کو بیٹھا کر افغان مہاجرین کو توسیع دینے کی سفارش کرانے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اسے بلوچستان کے عوام کے ساتھ ناروا سلوک اور بلوچ دشمنی قرار دیا مقررین نے کہا کہ پنجاب ، خیبرپختونخواء سے بڑی تعداد میں افغان مہاجرین کو نکالا گیا جب بلوچستان میں یہ سلسلہ شروع ہونے والا تھا تو حکمران جماعتوں نے اس میں توسیع کی اور اب دسمبر2017ء تک توسیع کی سفارش کر دی ہو بلوچ دشمنی ہے افغان مہاجرین بلوچوں کیلئے نہیں بلکہ یہاں کے مقامی پشتونوں ، ہزارہ ، پنجابی سمیت تمام اقوام کیلئے مسائل کا سبب بن رہے ہیں جو جماعتوں لسانی بنیادوں پر ان کی حمایت کر رہے ہیں یہ اپنے گروہی مفادات کی تکمیل اور بلوچستان کے عوام کے ساتھ ناروا سوچ کو پروان چڑھانا چاہتے ہیں مقررین نے کہا کہ انہی کی وجہ سے بلوچستان میں مذہبی جنونیت ، فرقہ واریت ، کلاشنکوف کلچر ، منشیات عام ہو چکا ہے حالیہ 3ہونے والے بڑے سانحات کیا ان کے تانے بانے انہی سے نہیں ملتے اگر ملتے ہیں تو ان کیلئے نرم گوشہ کیوں ہم چاہتے ہیں کہ افغان بھائیوں کو باعزت طریقے سے ان کے وطن واپس بھیجا جائے انہی کی وجہ سے بلوچستان میں خوف کی ہولی کھیلی جا رہی ہے لیکن بہت سے لوگ اب بھی ان کی حمایت کر رہے ہیں یہ کہاں کا انصاف ہے کہ چالیس لاکھ افغان مہاجرین کو ملکی شہریت دے کر مردم شماری میں شامل کیا جائے ملکی اور بین الاقوامی قوانین اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ یہاں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا جائے جب ہم کہتے ہیں کہ یہ ہماری معیشت پر بوجھ ہیں تو بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ باتیں لفاظی ہیں اب حکمرانوں نے گزشتہ دنوں قومی اسمبلی کے فلور پر یہ خود کہا کہ پاکستان کے اکانومی پر ان کی وجہ سے اب تک 104ارب ڈالر کا نقصان برداشت کر چکے ہیں اگر انہیں روپوں میں حساب کیا جائے تو کھربوں روپے بنتے ہیں بڑی مہمان نوازی کر چکے اب انہیں فوری طور پر واپس بھیجا جائے انصاف فراہم کرنے والے اداروں کے سامنے یہ بات عیاں ہو چکی ہے کہ بلوچستان سے ساڑھے پانچ لاکھ خاندانوں نے جعلی طریقے سے دستاویزات حاصل کیں ان کو جاری تمام دستاویزات منسوخ کئے جائیں بلوچستان ہمیں کسی نے تحفے میں نہیں دی یہ ہمارا وطن ہے اور ہمارے آباؤاجداد نے ہزاروں سالوں سے ہماری تاریخ ، تہذیب ، قومی تشخص کی بقاء و سرزمین کی حفاظت کیلئے ثابت قدم ہو کر جدوجہد کی ہے اب یہ کیسے ممکن ہے کہ مردم شماری میں چالیس لاکھ افغان مہاجرین کو شامل ہونے دیں بی این پی ترقی پسند روشن خیال جماعت ہے جس نے ہمیشہ لسانیت سیاست کی مخالفت کی ہے کبھی یہ ممکن نہیں کہ ترقی پسند ہونے ناطے ہمیں سزا دی جائے کہ ہم مہاجرین کو قبول کریں مقررین نے کہا کہ موجودہ حکمران جب حزب اختلاف میں تھے تو انہوں نے دعوے کئے کہ اقتدار میں آ کر بلوچوں کے زخموں پر مرہم رکھیں گے اور ان کے جملہ مسائل کو حل کریں گے اب جب اقتدار میں آئے تو چند لوگوں کے ایماء پر مرکزی حکومت کے ارباب و اختیار نے بلوچ دشمن پالیسیاں ترک نہ کریں اور اتحادی جماعتوں کی خوشنودی کی خاطر مردم شماری اور مہاجرین کی مدت میں توسیع بھی کر دی جس سے واضح ہوتا ہے کہ حکمرانوں نے آج تک بلوچوں کے مسائل حل کرنے میں دلچسپی نہیں لی ایک جانب تمام حالات واقعات ان کے سامنے ہیں بلوچستان کی صورتحال مخدوش ہے کوئی بھی طبقہ فکر محفوظ نہیں دوسری جانب مہاجرین کی غیر قانونی آبادکاری کیلئے اقدامات کئے جا رہے ہیں مقررین نے کہا کہ بی این پی حکمرانوں پر واضح کرنا چاہتی ہے کہ مہاجرین کی موجودگی میں مردم شماری قابل قبول نہیں اگر مردم شماری کرائی گئی تو یہ بھی 2013ء کے الیکشن کی طرح جعلی ہوں گے اب بھی اتحادی بلواسطہ یا بلاواسطہ مہاجرین کو شناختی کارڈز کے اجراء کیلئے حکومت مشینری کا استعمال کر رہے ہیں بلوچستان سے ابھی تک ایک فیصد مہاجرین کے انخلاء کو یقینی نہیں بنایا جا سکا مہاجرین عالمی اداروں کے پیسے لے کر افغانستان کی بجائے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہو جاتے ہیں مقررین نے کہا کہ نادرا اور پاسپور ٹ حکام پر اب بھی سیاسی دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ مہاجرین کو شناختی کارڈز کا اجراء یقینی بنایا جائے پارٹی مطالبہ کرتی ہے کہ باریک بینی کے ساتھ 1979ء کے بعد سے اب تک جتنے بھی شناختی کارڈز جاری کئے گئے ان کا جائزہ لیا جائے اسکے برعکس پارٹی جمہوری طریقے سے ہر فورم ہر بلوچوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کے خلاف اپنا سیاسی کردار ادا کرتی رہے گی دیگر جماعتوں کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ بلوچستان کے تمام اقوام کے وسیع تر مفادات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے حقیقت پر مبنی پالیسیاں اپنائیں بلاجواز اور غیر قانونی طریقے سے مہاجرین کی آبادکاری کا علم بلند نہ کریں ۔