انڈیا کے شہر امرتسر میں ہاٹ آرف ایشیا کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے افغانستان کے صدر اشرف غنی نے پاکستان پر اب بھی شدت پسند تنظیموں کی پشت پناہی کرنے کا الزام لگایا ہے۔
انڈیا کے سرحدی شہر امرتسر میں ہاٹ آف ایشیا کانفرنس کا افتتاح کرتے ہوئے افغان صدر نے کہا کہ ‘پاکستان نے افغانستان کے لیے پانچ سو ملین ڈالر دینے کا اعلان کیا ہے، بہتر ہوگا کہ وہ اس رقم کا استعمال پاکستان کے اندر انتہا پسندی پر قابو پانے پر صرف کرے۔’
انھوں نے اتوار کو اپنے خطاب میں کہا کہ ‘افغانستان کا سب سے بڑا چیلنج دہشت گردی ہے جہاں تقریباً 30 دہشت گرد تنظیمیں سرگرم ہیں۔’
صدر اشرف غنی نے کہا کہ ’ان تنظیموں کے کارکن اکثر پاکستان میں پناہ لیتے ہیں۔‘
کانفرنس سے ’ہارٹ آف ایشیا‘ کے رکن ممالک کے وزرائے خارجہ بھی خطاب کر رہے ہیں۔
پاکستان کے وزیراعظم کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز اس کانفرنس میں پاکستانی وفد کی قیادت کر رہے ہیں۔
سرتاج عزیز نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان افغانستان میں دیر پا امن کے لیے ہر ممکن کوشش کرنے کے لیے تیار ہے تاہم افغان حکومت کو پاکستان کے خلاف بے بنیاد الزامات لگانے سے گریز کرناچاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ علاقائی استحکام اور تعاون کے لیے تمام مسائل کا پرامن حل ہی مستقبل کی راہ ہموار کرے گا۔ انھوں نے افغانستان کے حوالے سے ایک مشترکہ اور بامقصد حکومتِ عملی کی ضرورت پر زور دیا۔
ادھر اشرف غنی نے ایک شدت پسند رہنما کا قول نقل کیا کہ ’اگر پاکستان ہمیں پناہ نہ دے تو ہماری تنظیم ایک مہینے میں ختم ہو جائے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’پاکستای فوج نے دہشت گردی کے خلاف جو کارروائی شروع کر رکھی ہے اس کی وجہ سے بھی بہت سے دہشت گرد سرحدی علاقوں میں آ جاتے ہیں اور وہاں سرگرم رہتے ہیں۔
’ہارٹ آف ایشیا‘ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی نے اس بات کا اعادہ کیا کہ ‘خطے کو سب سے بڑا خطرہ دہشت گردی سے لاحق ہے۔’
انھوں نے کہا کہ دہشت گرد تنظیمیں نہ صرف افغانستان کے امن و استحکام کو نقصان پہنچا رہی ہیں بلکہ ان سے پورے جنوبی ایشیا کو خطرہ لاحق ہے۔
انھوں نے کہا ’اب وقت آ گیا ہے کہ ایک ایسا طریقہ کار وضع کیا جائے جس سے نہ صرف دہشت گردوں اور دہشت گرد تنظیموں کے خلاف کارروائی ہو سکے بلکہ انھیں پنا دینے اور ان کی پشت پناہی کرنے والوں کو بھی گرفت میں لیا جا سکے۔‘
’ہارٹ آف ایشیا‘ کانفرنس میں افغانستان کو درپیش سلامتی کے چیلنجز اور سیاسی اور اقتصادی استحکام کے سوال پر غور و خوض کیا جا رہا ہے۔
اپنی تقریر میں صدر اشرف غنی نے کہا کہ افغانستان وسط ایشیا اور جنوبی ایشیا کے درمیان ایک اہم کڑی ہے اور اس کی ‘کنیکٹیویٹی’ سے خطے کی حالت تبدیل ہو سکتی ہے۔ انھوں نے مثال دیتے ہوئے کہا: چین پاکستان افغانستان اور انڈیا کے درمیان ریلوے سروس پورے خطے کے لیے فائدہ مندہ ہو سکتی ہے۔
نریندر مودی نے بھی اقتصادی امکانات کو اجاگر کرتے ہوئے افغانستان اور انڈیا کے درمیان جلد ہی ایئر کارگو سروس شروع کرنے کا اعلان کیا۔
افغان صدر غنی نے اپنی افتتاحی تقریر میں جس طرح سے پاکستان کو نشانہ بنايا ہے اس سے پاکستان پر دباؤ بڑھ گيا ہے۔
یہ توقع بھی کی جا رہی ہے کہ کانفرنس میں ایک مشترکہ اعلامیہ بھی جاری کیا جائے گا جس میں دہشت گردی پر خاص توجہ مرکوز کی گئی ہے۔