|

وقتِ اشاعت :   December 11 – 2016

لاہور: لاہور ہائی کورٹ کی ایک سو پچاس سالہ تقریبات کے سلسلہ میں ایوان اقبال لاہور میں منعقدہ جوڈیشل کانفرنس میں چیف جسٹس آف پاکستان مسٹر جسٹس انور ظہیر جمالی، نامزد چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان مسٹر جسٹس میاں ثاقب نثار، سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج صاحبان مسٹر جسٹس آصف سعید کھوسہ، مسٹر جسٹس میر ہانی مسلم، مسٹر جسٹس عمر عطا بندیال، مسٹر جسٹس اعجاز الاحسن، مسٹر جسٹس منظور احمد ملک،چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ مسٹر جسٹس سید منصور علی شاہ،لاہور ہائی کورٹ کے سینئر ترین جج مسٹر جسٹس شاہد حمید ڈار اور دیگر فاضل جج صاحبان، چیف جسٹس آزاد جموں و کشمیر، چیف جسٹس گلگت بلتستان ایپیلیٹ کورٹ، چیف جسٹس وفاقی شرعی عدالت جسٹس شیخ نجم الحسن، بلوچستان ہائی کورٹ کے جسٹس یحییٰ خان آفریدی، سابق صدر پاکستان جسٹس (ر) رفیق تارڑ، سپریم کورٹ آف پاکستان کے سابق چیف جسٹس صاحبان جسٹس ارشاد حسن خان، جسٹس افتخار محمد چودھری اور جسٹس تصدق حسین جیلانی، لاہور ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس صاحبان جسٹس خلیل الرحمان خان اور جسٹس سید زاہد حسین، جسٹس(ر)سید جمشید علی شاہ، گورنر پنجاب محمد رفیق رجوانہ،سابق گورنر پنجاب سردار لطیف کھوسہ، اٹارنی جنرل پاکستان ، ایڈووکیٹ جنرل پنجاب، پاکستان بار کونسل و پنجاب بار کونسل کے ممبران و عہدیدار، لاہور ہائی کورٹ بار ایسو سی ایشن، لاہور بار ایسو سی ایشن و ضلعی اور تحصیل بار ایسو سی ایشنوں کے نمائندے، سینئر وکلاء، ضلعی عدلیہ کے ججز،چیف سیکرٹری پنجاب سمیت صوبائی انتظامیہ و پولیس اور آرمڈ فورسز کے نمائندے، سول سوسائٹی، غیر ملکی سکالرز، بین الاقوامی لاء تنظیموں کے نمائندے اور پنجاب کے مختلف لاء کالجز کے وفود نے شرکت کی۔تقریب کی نظامت کے فرائض لاہور ہائی کورٹ کے سینئر جج مسٹر جسٹس مامون رشیدشیخ نے سر انجام دیئے۔چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ مسٹر جسٹس سیدمنصور علی شاہ نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ تمام شرکاء کی کانفرنس میں موجود گی پر تہہ دل سے مشکور ہیں ، انہوں نے کہا کہ آج ہم نے اپنے مستقبل کا لائحہ عمل طے کرنا ہے، اس ادارے کو مزید مضبوط بنانے کیلئے کیا اقدامات کئے جاسکتے ہیں، انہوں نے کہا کہ عدلیہ صرف ہائی کورٹ نہیں، وکلاء ، ضلعی عدلیہ اور سٹاف سب مل کر عدلیہ کا ادارہ مکمل کرتے ہیں، ہماری سوچ اجتماعی ہونی چاہیے، ادارے کو مقدم رکھنا چاہیے، فرد کی اہمیت ضروری ہے لیکن اتنی نہیں کہ اداروں کو پس پشت ڈال دیا جائے، آج ہم نے نظام کی بہتری کیلئے اصول وضع کرنا ہے اور ضابطہ کار بنانا ہے،فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ ادارے کو آگے لے کر جانے کیلئے خود احتسابی بہت ضروری ہے اور اس پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا، ہم کل یہاں نہیں ہوں لیکن ادارہ یہیں ہوگا اور کل ہماری شفافیت اور میرٹ کاتقابلی جائزہ لیا جائے گا۔ان کا کہنا تھا کہ آج یہاں تمام ادارے موجود ہیں اور میں ان کی موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کہنا چاہوں گا کہ اداروں کی آپس میں کور آرڈینیشن ہونی چاہیے، اداروں کے درمیان تمام معاملات بات چیت سے حل ہونے چاہیں اور ادارے اپنی حدود کار میں رہتے ہوئے کام کریں،تمام ادارے باہمی رابطوں کو استوار کریں اور ہمارے سامنے صرف اس ملک کی ترقی مقدم ہونی چاہیے۔ فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارے پاس عدالتوں کے پانچ یا سات گھنٹے عوام کی امانت ہیں ، آج عہد کرنا ہوگا کہ اس امانت میں کبھی خیانت نہیں کریں اور اس میں کبھی رکاوٹ پیدا نہیں کرنے دیں گے، ان گھنٹوں کے بعد ہم تمام معاملات حل کر سکتے ہیں، لوگ ہم سے امیدیں وابسطہ کئے بیٹھے ہیں ، آج اس بات کو اعادہ کریں گے کہ لوگوں کی امیدوں پر پورا اتریں گے۔ آج کانفرنس میں شرکت کرنے والے اپنے بزرگ جج صاحبان، سپریم کورٹ کے جج صاحبان اور خصوصاََ وکلاء کے مشکور ہیں۔کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے نامزد چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثارنے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ کو شاندار تقریبات کے انعقاد پر مبارک باد پیش کرتاہوں، ان کا کہنا تھا کہ جج کا کام محض مقدمات کونمٹانا نہیں بلکہ اسے کیس سے مکمل انصاف کرناچاہیے،جسٹس میاں ثاقب نثارنے کہا کہ ہمارے پاس لامحدود اختیار نہیں ہیں، ہمیں قانون و آئین کے دائرہ میں رہتے ہوئے انصاف فراہم کرناہوتا ہے، ان کا کہنا تھا کہ وہ آ ج امید کرتے ہیں کہ لاہور ہائی کورٹ کے آئندہ کے فیصلے ماضی سے زیادہ سے بہتر اور پہلے کی طرح تمام ہائیکورٹس سے بہترین ہوں گے۔ چیف جسٹس آ ف پاکستان مسٹر جسٹس انور ظہیر جمالی نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آ ج کی جوڈیشل کانفرنس سے خطاب کرنا میرے لئے باعث افتخار ہے،انہوں نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ ایک تاریخی عدالت ہے جس نے اپنی تاریخ میں قانون و انصاف کی بالادستی کیلئے نمایاں کام کیا ہے،لاہور ہائی کورٹ کے ججز کو نظام انصاف کے ارتقاء میں اہم مقام حاصل ہے جس کو فراموش نہیں کیاجاسکتا، فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ ایسی تقاریب اداروں کی ترقی میں بہت اہمیت کی حامل ہوتی ہے، اس سے اداروں کی کارکردگی کو جانچنے اور ستائش کا موقع ملتا ہے۔ اس سے کوئی بھی ادارہ ماضی کی غلطیوں،کوتاہیوں اور خامیوں پر قابو پا کرمستقبل میں بہترین کام کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ رشوت ستانی، بلیک مارکیٹنگ اور اقربہ پروری سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنا ہوگا، قائد اعظم کی سوچ اور انکے اصولوں کو اپنا شعار بنانا ہوگا،کوئی بھی ادارہ اپنی مقررہ حدود سے تجاوز نہ کرے ۔ انہوں نے کہا کہ عدلیہ کے پاس اختیارات موجود ہیں کہ وہ نظر ثانی کرتے ہوئے مقننہ کے بنائے ہوئے قوانین کو پرکھے، معاشرے میں خوشحالی، عوامی حقوق کے تحفظ اور امن و امان کو قائم رکھنے کیلئے ضروری ہے کہ قانون کی بالادستی ہونی چاہیے۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اگر دیگر ادارے اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے میں ناکام ہوجائیں تو عدالتوں کوہی لوگوں کی امیدوں پر پورا اترنا ہوتا ہے اور تمام تر ذمہ داریاں عدلیہ کے کندھوں پر عائد ہو جاتی ہیں۔