|

وقتِ اشاعت :   December 20 – 2016

کوئٹہ: بلوچ نیشنل موؤمنٹ کے مرکزی ترجمان نے کہا کہ انسانی حقوق کے عالمی اداروں کی خاموشی کی وجہ سے بلوچستان میں ریاستی بربریت میں روز بروز تیزی آ رہی ہے۔ترجمان نے میڈیا میں جاری کردہ بیان میں کہا کہ کیچ بالخصوص دشت،مند اور آواران،ڈیرہ بگٹی، بولان و گرد نواح میں ریاستی ظلم و جبر زمینی و فضائی کارروائیوں میں گزشتہ کئی مہینوں سے تیزی لائی گئی ہے تاکہ ریاست بلوچستان میں بلوچ نسل کشی کے ذریعے خوف پیدا کر سکے اور اپنی قبضہ کو مستحکم کرے۔ فورسز نے گزشتہ روز آواران کے کئی علاقوں کو پر دھاوا بول کر آبادیوں میں لوٹ مار کے بعد کئی گھروں کو نذر آتش کیا۔ جن میں بی ایس او آزاد کے اسیر رہنما شبیر بلوچ کے گھربھی شامل ہیں۔ شبیر بلوچ کو تربت گورکوپ سے ایک تنظیمی دورے کے دوران چار اکتوبر کو اغوا کرکے لاپتہ کیا ہے۔شہدا کے مقبروں کی بے حرمتی کے بعد اب لاپتہ بلوچوں کے گھروں کو جلانے کا سلسلہ کیا گیا ہے۔ گزشتہ روز بی این ایم کے قائد و بانی شہید غلام محمد بلوچ و انکے رشتہ داروں کے گھروں پر حملہ کرکے لوٹ مار بعد گھروں کو جلا دیا اور فائرنگ کر کے ایک نوجوان ظہور بلوچ کو شہید اور تین کو حراست بعد لاپتہ کیاگیا۔ڈیرہ بگٹی آپریشن میں کئی گھروں کو جلانے، مال مویشیاں چرانے کے ساتھ کئی نہتے شہریوں کو اغوا کرکے لاپتہ کیا گیا ہے۔ بولان کے مختلف علاقوں میں فوجی آپریشن کے دوران کئی مرد، خواتین و بچوں کو اغوا کرکے لاپتہ کیا گیاہے۔ گزشتہ دنوں تین افراد صوفی مری، ثناء اللہ، اور سفیر بلوچ کی مسخ شدہ لاشیں برامد ہوئی ہیں۔جو اسی سال اپریل کے مہینے میں بمباری سے شہید ہوئے ہیں۔ اسی آپریشن میں چار خواتین اور چار بچے بھی شہید ہوئے۔ شہدا میں غلام نبی مری اور اس کے خاندان کے چودہ افراد، پکار اور اس کے خاندان کے گیارہ افراد بھی شامل ہیں۔ کل اٹھارہ دسمبر کو تمپ سے چار بلوچ اغوا ہوئے، جن میں صدام ولد الہٰی، زبیر ولد داد محمدشامل ہیں، ان کے اہل خانہ تمپ ملمانٹ آرمی کیمپ کے سامنے احتجاج بھی کیا ہے، مگر عالمی قوانین سے مستثنیٰ، فورسزنے انہیں نہیں چھوڑا۔ دشت آرمی کیمپ میں ایک مکینک غنی ولد موسیٰ کو فوج نے تالے بنوانے کے لئے بْلایا، جو تاحال لاپتہ ہے۔مند سے سلمان ولد یارجان، مجید ولد واحد بخش، سمیت کئی افراد کو اْٹھا کر لاپتہ کیا گیا، جہاں دو ہفتے سے فوجی آپریشن جاری ہے۔ آج آواران بازار سے دکان میں مزدوری کرنے والے نصیر ولد غلام قادر کواْٹھا کر غائب کیا ہے۔تیس نومبر کو جھاؤ آپریشن میں ملان سے لیاقت ولد نذیرطاہر ولد محمد عمر، فضل ولد پنڈوک، بشیراحمد ولد دل مراد اور مولابخش ولد شمبو جبکہ جھاؤ کوٹو سے امان اللہ ولد کسو کا دوران آپریشن اغوا کیا گیا جو تاحال لاپت ہیں۔ جبکہ ان میں عظیم ولد قادر بخش کو بے دردی سے غیرا نسانی تشدد کے بعد شہید کیا گیا۔ عظیم ولد قادر بخش کو 13 دسمبر کو فوجی قافلے کے ساتھ اْس کے گھر لایا گیا، جہاں عظیم نے موقع پاکر کنویں میں چھلانگ لگادی، فورسز کے علاقہ مکینوں پر تشدد کرکے عظیم کو کنویں سے نکالنے کیلئے دو افراد کو کنویں میں اْتارا۔ جہاں عظیم کی ایک ٹانگ ٹوٹی ہوئی تھی مگر وہ زندہ تھے۔ عظیم نے بتایا ہے کہ وہ سخت تشدد کے بعد مان گئے کہ اْس کے پاس اسلحہ ہے تاکہ اْسے گھر لے جائیں۔ عظیم نے کہا ہے کہ وہ کنویں میں چھلانگ لگا کر خودکشی کرنا چاہتا تھا تاکہ ان کے ظلم سے بچ سکے۔ عظیم ولد قادر بخش ایک مزدور اور کسان پیشہ ہیں۔ فوج نے اسے پاگل قرار دیکر علاج کے نام پر واپس اپنے ساتھ لے گیا اور دو دن بعد یعنی 15 دسمبر کو اْس کی مسخ شدہ لاش پھینکی گئی۔