|

وقتِ اشاعت :   December 23 – 2016

کوئٹہ : سیاسی جماعتوں ، سول سو سائٹی تنظیموں ، الیکشن کمیشن آف پاکستان اور نادرا کے حکام نے عزم ظاہر کیا ہے کہ اہل ووٹرز کی فہرست میں شامل نہ ہوسکنے والی بلوچستان کی کم از کم پانچ لاکھ خواتین کے کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ بنانے کیلئے مشترکہ کوششیں کرینگے ۔ فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک ( فافن) کے زیراہتمام پارٹنر تنظیم سنٹرفار پیس اینڈ ڈویلپمنٹ (سی پی ڈی آئی) کے اشتراک سے کوئٹہ میں منعقدہ مشاورتی اجلاس میں اراکین صوبائی اسمبلی ، صوبائی الیکشن کمشنر ،نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا ) کے حکام ، اہم سیاسی جماعتوں ،سول سائٹی تنظیموں اور ذرائع ابلاغ کے نمائندوں نے شرکت کی ۔ شرکا نے خواتین کی بطور ووٹر کم رجسٹریشن کے مسئلے کا تفصیلی جائزہ لیتے ہوئے اس امر پر اتفاق کیا کہ بلوچستان میں خواتین کے پاس کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ کا نہ ہونا بڑا مسلہ ہے ،یہی وجہ ہے کہ صوبے کی ہرچوتھی اہل ووٹر خاتون فہرست رائے دہندگان میں شامل نہیں ۔ فہرست رائے دہندگان میں درج ہونے سے رہ جانیوالی اکثر خواتین کا تعلق پسماندہ طبقات سے ہے حالانکہ قومی سیاسی دھارے میں انکی زیادہ سے زیادہ شرکت انتہائی اہمیت کی حامل ہے ۔ تمام متعلقین نے ووٹر رجسٹریشن کے عمل میں صنفی فرق کو تسلیم کیا اور خواتین کی کم رجسٹریشن کے مسلے کو حل کرنے کیلئے مشترکہ اور مربوط کوششیں کرنے پر زور دیا ۔ فافن کی طرف سے جاری بیان کے مطابق سرکاری اعدادوشمار میں تسلیم کیا گیا ہے کہ اس وقت صوبے کی کم از کم 5 لاکھ خواتین کا نام فہرست رائے دہندگان میں شامل نہیں ۔صوبے میں خواتین کی آبادی مردوں کے مقابلے میں صرف آٹھ فیصد کم ہے جبکہ ووٹر لسٹ میں مردوں کے مقابلے میں عورتوں کی رجسٹریشن کی شرح 15 فیصد کم ہے ۔ فافن نے فہرست رائے دہندگان میں مردوں اور خواتین ووٹرز کے مابین اندراج کے اس بڑے فرق کو ختم کرنے کیلئے خواتین کے شناختی کارڈ بنانے کے کام کو مزید تیز کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ بیان میں مزید بتایا گیا کہ پختون خواہ ملی عوامی پارٹی سے تعلق رکھنے والے رکن صوبائی اسمبلی نصراللہ خان زائرے نے خواتین کے لئے قومی شناختی کارڈ کے حصول اور ووٹر لسٹ میں اندراج کیلئے فافن کی کاوشوں کو قابل تعریف قراردیا ۔انہوں نے بڑی سیاسی جماعتوں پر زور دیا کہ ووٹ کے اندراج کے حوالے سے لوگوں میں شعور پیدا کریں ۔ رکن صوبائی اسمبلی نے شناختی کارڈ بنوانے کی راہ میں حائل مشکلات کو اجاگر کیا اور کہا کہ بڑی وجہ حکومتی محکموں کی طرف سے مناسب سہولیات مہیا نہ کرنا ہے ۔صوبائی الیکشن کمشنر سید سلطان با یزید نے ووٹر کے اندراج اور انکی آگاہی کیلئے سول سوسائٹی کی طرف سے کی جانیوالی تمام کوششوں کی مکمل حمائت کا یقین دلایا ۔انہوں نے ووٹر فہرست میں شامل نہ ہو سکنے والی پانچ لاکھ سے زائد خواتین کو فہرست میں شامل کرنیکی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ آئندہ عام انتخابات سے قبل سول سوسائٹی تنظیموں ، سیاسی جماعتوں ، حکومت اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کو شانہ بشانہ کام کرنا چاہئے تاکہ اہل ووٹرز کا زیادہ سے زیادہ اندراج ممکن بنایا جائے ۔ نادرا کے نمائندے مسٹر ہارون نے محدود وسائل اور بعض علاقوں کے مخصوص حالات کو بلوچستان میں کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ بنوانے کی راہ میں حائل بڑی رکاوٹیں قرار دیا ۔ تانہوں نے یقین دلایا کہ نادرا سول سوسائٹی تنظیموں کے ساتھ تعاون کریگا اور جہاں بھی ممکن ہوگا موبائل رجسٹریشن وینز مہیا کی جائینگی ۔بلوچستان بھر کے پانچ ضلعوں میں سرگرم فافن کی شریک کار تنظیموں کے نمائندوں نے بھی خواتین کے شناختی کارڈوں اور بطور ووٹر رجسٹریشن کے حوالے سے اپنے تجربات سے شرکا کو آگاہ کیا ۔ انہوں نے صوبے کی جغرافیائی وسعت کو صوبے میں خواتین اور معاشرے کے پسماندہ طبقات کی بطور ووٹر رجسٹریشن کی راہ میں حائل ایک بڑی رکاوٹ قرار دیا ۔ اس موقع پر سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی تنظیموں کے نمائندوں نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا ۔