بیجنگ: چین پاکستان اقتصادی راہداری کی مشترکہ تعاون کمیٹی نے گوادر بندرگاہ کو اپ گریڈ اور گوادر ماسٹر پلان پر ایک سال میں عملدرآمد کرنے،پشاور تا کراچی ریلوے ٹریک کی اپ گریڈیشن کو تیز کرنے،چاروں صوبائی دارالحکومتوں میں ریل ماس ٹرانزٹ منصوبے لگانے اور جنوب تا شمال ٹرانسمیشن لائن منصوبے لگانے کی منظوری دیدی، شاہراہ قراقرم کے قابل مرمت حصے کی تعمیر شروع کرنے اورڈیرہ اسماعیل خان سے ژوب تک سڑک کی تعمیر کے منصوبے کی بھی منظوری دی گئی ہے جبکہ وفاقی وزیر منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال نے کہا ہے کہ دونوں ملکوں کے تعاون سے راہداری منصوبہ تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے،دس ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کے منصوبے جاری ہیں،چین کا انرجی گروپ فروری میں پاکستان کا دورہ کرے گا، کشمیر،گلگت بلتستان اور فاٹا میں بھی اقتصادی زونز تعمیر ہوں گے،کوئٹہ واٹر سپلائی منصوبے اور چنیوٹ میں سٹیل ملز کی بھی منظوری دی گئی۔جمعرات کو جوائنٹ آرڈی نیشن کمیٹی کا چین کے دارالحکومت بیجنگ میں چھٹا اجلاس ہوا جس میں پاکستان کی نمائندگی وفاقی وزیر منصوبہ بندی وترقی احسن اقبال اور چین کی نمائندگی وائس چیئرمین برائے قومی ترقی واصلاحات نے کی۔ اجلاس میں متعدد اہم منصوبوں سمیت گوادر بندرگاہ کو اپ گریڈ اور گوادر ماسٹر پلان پر ایک سال میں عملدرآمد کرنے،پشاور تا کراچی ریلوے ٹریک کی اپ گریڈیشن کو تیز کرنے،چاروں صوبائی دارلحکومتوں میں ریل ماس ٹرانزٹ منصوبے لگانے اور جنوب تا شمال ٹرانسمیشن لائن منصوبے لگانے کی منظوری دی گئی۔اجلاس کے بعد بریفنگ دیتے ہوئے احسن اقبال نے کہا کہ دونوں ملکوں کے تعاون سے راہداری منصوبہ تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے،دس ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کے منصوبے پر عملدرآمد جاری ہے۔وزیرمنصوبہ بندی و ترقی نے کہاکہ چین کا انرجی گروپ فروری میں پاکستان کا دورہ کرے گا،ملتان تا سکھر موٹروے اور قراقرم ہائی وے کی اپ گریڈیشن پر تیزی سے کام جاری ہے۔انہوں نے کہاکہ شاہراہ قراقرم کے قابل مرمت حصے کی تعمیر بھی شروع کرنے کی منظوری دی گئی ہے،ڈیرہ اسماعیل خان سے ژوب تک سڑک کی تعمیر کی بھی منظورء دی گئی،گوادر سے سوراب تک شاہراہ مکمل ہوچکی ہے۔احسن اقبال نے کہاکہ پاکستان اور چین پانچ شعبوں میں ایک دوسرے کے تجربات سے استفادہ کرینگے،چینی قیادت نے پاکستان سے قابل اعتماد دوستی کو ثابت کیا،پاکستان میں خطیر سرمایہ کاری پر چین کی حکومت اور عوام کے مشکور ہیں۔انہوں نے کہاکہ حکومت نے گوادر میں 300میگاواٹ بجلی منصوبے کی منظوری دی ہے،گوادر میں اسپتال اور ووکیشنل ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ سنٹر کی تعمیر کا کام تیز کیا جائے گا،چاروں صوبوں،اسلام آباد اور شمالی علاقوں میں بھی اقتصادی زونز بنائے جائیں گے۔احسن اقبال نے کہاکہ کشمیر،گلگت بلتستان اور فاٹا میں بھی اقتصادی زونز تعمیر ہوں گے،کوئٹہ واٹر سپلائی منصوبے اور چنیوٹ میں سٹیل ملز کی بھی منظوری دی گئی،پاکستان میں کام کرنیوالے چینی ورکرز پاکستان کے معمار ہیں۔وفاقی وزیر نیصوبوں کی جانب سے تجویز کئے جانے والے انفراسٹرکچر اور توانائی کے منصوبوں کو سی پیک میں شامل کئے جانے پر چین کو سراہا جس کی مدد سے پاکستان کے تمام صوبوں اور خطوں کے لوگ مساوی طور پر مستفید ہوں گے ۔انہوں نے مزید کہا کہ کاروبار کے اصولوں اور مارکیٹ کے رجحانات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہر صوبے میں ایک صنعتی زون کے قیام کی نشاندہی کر دی گئی ہے ۔ تین سال قبل چین اور پاکستان نے سی پیک کے سفر کا جب آغاز کیا تو مختصر وقت میں منصوبوں پر کام کرنے کے حوالے سے بہت سے شکوک وشبہات موجود تھے تاہم سیاسی قیادت کی حمایت اور دونوں ممالک کے سرکاری عہدیداروں کی محنت سے سی پیک پوری دنیا میں علاقائی رابطہ سازی کا سب سے بڑا منصوبہ بن چکا ہے ۔ سی پیک ون بیلٹ ون روڈ منصوبہ کا بنیادی حصہ ہے جسکی مدد سے علاقائی تعاون کو حقیقت میں بدلتے ہوئے کروڑوں لوگوں کو فائدہ پہنچے گا۔ انہوں نے کہا کہ سی پیک کی کامیابی کا ایک ثبوت یہ ہے کہ امریکہ ، کینیڈااور یورپ کے تھنک ٹینکس خطے میں سی پیک کے اثرات کا جائزہ لینے کے لئے تحقیق کر رہے ہیں ۔ سی پیک نے چین اور پاکستان کی دوستی میں مزید نکھار پیدا کیا ہے ۔ یہ منصوبہ دونوں ممالک کی دوستی کوآسمانوں کی بلندیوں سے بھی آگے لے گیا ہے ۔دریں اثناء چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے کی مشترکہ رابطہ کمیٹی کے چھٹے اجلاس میں بلوچستان کے 12اہم منصوبوں کو سی پیک میں شامل کرنے کی منظوری دیدی گئی جو وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ خان زہری کی قیادت میں موجودہ مخلوط صوبائی حکومت کی ایک تاریخی کامیابی ہے۔ جے سی سی اقتصادی راہداری کا سب سے بڑا اور اہم فورم ہے جس میں سی پیک کے منصوبوں کی پیشرفت کا جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ نئے منصوبوں کی منظوری بھی دی جاتی ہے جے سی سی کے 27سے 29دسمبر تک چین کے دارالحکومت بیجنگ میں جاری رہنے والے اجلاس میں وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کی قیادت میں بلوچستان ، سندھ،کے پی کے ، گلگت بلستان کے وزراء اعلیٰ پنجاب کے صوبائی وزیر سمیت وفاقی و صوبائی حکام نے شرکت کی ۔اجلاس میں مجموعی طور پر 30منصوبوں کی منظوری دی گئی جن میں بلوچستان کے 12اہم منصوبے شامل ہیں ۔ وزیراعلیٰ بلوچستان نے اجلاس میں چار اہم منصوبوں کی سی پیک میں شمولیت پر بھرپور زور دیا جس سے ان منصوبوں کی سی پیک میں شمولیت اور منظوری ممکن ہوسکی ان میں کوئٹہ ماس ٹرانزٹ ٹرین سسٹم ، جس کی لاگت کا تخمینہ25ارب روپے ہے ، نوکنڈی ،ماشکیل، پنجگور316کلو میٹر شاہراہ جسے این 85سے منسلک کیا جائے گا جس کی لاگت کا تخمینہ25ارب روپے ہے۔ پٹ فیڈر سے کوئٹہ کو فراہمی آب کا منصوبہ جس کی لاگت کا تخمینہ 40ارب روپے ہے اور بوستان اور خضدار میں انڈسٹریل اسٹیٹ کے قیام کے منصوبے شامل ہیں کو سی پیک منصوبے کا حصہ بنانے کی منظوری دی گئی ان منصوبوں کے علاوہ این 50 ، 110 کلو میٹر طویل خضدار بسیمہ روڈ،210کلو میٹر طویل ژوب ڈی آئی خان شاہراہ کی اپ گریڈیشن کا فیزI گوادر بندرگارہ میں پانچ اضافی برتھوں بمعہ بریک واٹر کی تعمیر اور ڈریجنگ، گوادر بندرگاہ کو گوادر کے نئے ائرپورٹ سے منسلک کرنے کیلئے ایسٹ بے ایکسپریس وے فیزII،گوادر میں باؤ سٹیل پارک کی تعمیر ، گوادر فری زون میں سٹین لیس اسٹیل فیکٹری کا قیام ، گوادر فری زون میں فوٹون آٹو موبائل پلانٹ کی تنصیب جیسے اہم منصوبوں کو اقتصادی راہداری کا حصہ بنانے کی منظوری دیدی گی جو کہ اقتصادی راہداری کے منصوبہ میں بلوچستان بالخصوص گوادر بندرگاہ کی مسلمہ اہمیت کا مظہر ہے اس تمام تر کامیابی کا سہرا وزیراعلیٰ بلوچستان اور ان کی ٹیم کے سر ہے جنہوں نے بھرپور تیاری اور جامع حکمت عملی کے ساتھ جے سی سی کے اجلاس میں شرکت کرتے ہوئے بلوچستان کا مؤقف انتہائی موثر انداز میں پیش کیا اور صوبے کے اہم منصوبوں کو سی پیک کا حصہ بنانے میں کامیابی حاصل کی ۔ اجلاس کے دوران کوئٹہ ماس ٹرانزٹ ٹرین کے منصوبے کے معاہدے پر دستخط کئے گئے وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ خان زہری اور متعلقہ چینی حکام کی موجودگی میں چیف سیکرٹری بلوچستان سیف اللہ چٹھہ اور چینی کمپنی کے حکام نے معاہدے پر دستخط کئے۔