|

وقتِ اشاعت :   January 4 – 2017

کوئٹہ : عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی دفتر با چا خان مرکزی سے جاری کر دہ بیان میں گزشتہ روز شہید وکیل رہنماء داؤد خان کاسی کے بھائی اور ڈاکٹر عبدالمالک کاسی کے فرزند کی اغواء ، قاتلانہ حملے کی کو شش کی مذمت کر تے ہوئے کہا گیا کہ صوبہ بھر کے پشتون بلوچ اقوام کے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ ان کے تحفظ پر مامور ہی کے ہاتھوں یر غمال زندگی گزارنے پر مجبور ہیں صوبائی حکومت اس طرح کے تمام واقعات کی ذمہ دار ہیں کیونکہ ہر تین مہینے بعد صوبائی حکومت ادا رے کو پولیس کی اختیارات دینے میں توسیع کر تے ہیں صوبے کے معدنیات پرناجائز ٹیکس وصولی کے بعد اغواء جیسے مکروہ عملیات میں اس کا ملوث پا ناصوبائی حکومت کی عوام دشمن اقدام ہے قومی شاہراہوں میں ناکے لگا کر عزت دار شریف النفس شہریوں کی تذلیل وتضحیک ، معدنی وسائل پر تحفظ کے نام پرناجزء ٹیکس سے صوبائی حکومت خود کو بری الزمہ قرار نہیں دے سکتا بیان میں کہا گیا کہ عوامی نیشنل پارٹی شروع دن سے مطالبہ کر رہی تھی کہ صوبے میں امن وامان کی ذمہ دار سول انتظامیہ ہے حکومت نے سوال انتظامیہ کے اختیارات سیکورٹی ادارے کے سپرد کر کے غریب صوبے کے عوام پر خرچ ہونیوالی رقم ان کے اخراجات کیلئے مختص کر دیا جو کہ عوام دشمن اقدام ہے بیان میں کہا گیا کہ عوامی نیشنل پارٹی ایک ذمہ دار قومی جمہوری سیاسی جماعت کی حیثیت سے ریاستی اور غیر ریاستی سطح پر اان جیسے عملیات کی بھر پور مذمت کر تی گزشتہ روز شہید وکیل رہنماء داؤد خان کاسی کے بھائی اور ڈاکٹر عبدالمالک کاسی کے فرزند کی اغواء ، قاتلانہ حملے کی کو شش کی مذمت کر تے ہیں،اے این پی ضلع کوئٹہ کے بیان میں کہا گیا ہیں کہ سابق وفاقی وزیر ڈاکٹر عبدالمالک کاسی کے بیٹے شہید داؤد جان کاسی ایڈووکیٹ کے بھائی، حاجی عبیداللہ کاسی کو ائیر پورٹ سے اغواء کر نا سیکورٹی اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان اور قابل مذمت عمل ہیں انہوں نے کہا کہ بلوچستان بالخصوص کوئٹہ میں اغواء برائے تاوان ایک منافع بخش کاروبار بن گیا ہے سیاسی وقبائلی رہنماء سمیت ، تاجر حضرات، ڈاکٹر، وکلاء سمیت وہ تمام طبقات اور ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کو اغواء کاروں کی وجہ سے عدم تحفظ کا شکار دکھائی دیتے ہیں اغواء کاروں نے کوئٹہ کو اپنی اما جگاہ بنا یا ہوا ہیں آئے روز کی وارداتوں سے عوام میں عدم تحفظ کا احساس بڑھتا جا رہا ہیں اغواء کار واردات کے بعد محفوظ مقام پر منتقل ہو جا تے ہیں کوئٹہ میں تعینات پولیس اور سیکورٹی ادارے جن کو پولیس کے اختیارات بھی مقرر کئے گئے ہیں ان اداروں کی جانب سے نہ ہی اغواء کو پکڑا گیا ہیں اور نہ ہی اغواء کاروں کے نیٹ ورک کو ختم کیا گیا ہیں حکومت کو چا ہئے کہ وہ فوری طور پر اغواء کاروں کے خلاف کریک ڈاؤن کریں اور اداروں میں موجود کالی بھیڑیوں کے خلاف موثر اقدامات کئے جائے حکومتی ارکان اور اپوزیشن کی جانب سے صرف مذمت کی حد تک بات کر نا دراصل ان کو تحفظ فراہم کرنا اور نرم گوشہ رکھنے کے مترادف ہیں جب تک سیکورٹی اداروں پر حکومتی اور انتظامیہ کا کنٹرول نہیں ہوگا اس طرح کے واقعات رونما ہوتے رہیں گے۔