اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان میں پاناما لیکس کے معاملے پر وزیراعظم نواز شریف کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کے دوران عدالت عظمیٰ نے وزیراعظم کے وکلاء سے کہا کہ بارثبوت آپ پر ہے اور آپ کا کام ہے کہ عدالت کو مطمئن کیا جائے۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ نے جب سماعت کا آغاز کیا تو وزیراعظم کے وکیل مخدوم علی خان نے اپنے دلائل جاری رکھے۔
وزیراعظم کے وکیل مخدوم علی خان نے عدالت کو بتایا کہ نواز شریف کا کسی آف شور کمپنی سے تعلق تھا اور نہ ہے۔
مخدوم علی خان کے مطابق نواز شریف کی برٹش ورجن آئی لینڈ میں کوئی کمپنی نہیں اور نہ ہی وہ کسی آف شور کمپنی کے ڈائریکٹر، شیئر ہولڈر یا بینیفیشل مالک ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ درخواست گزاروں نے وزیراعظم کی تقاریر میں تضاد کی بات کرکے نااہلی کی بات کی اور ان پر ٹیکس چوری کا الزام عائد کیا گیا، وزیراعظم پر لگائے گئے الزام میں کہا گیا کہ بیٹے حسین نواز نے باپ کو رقم تحفے میں دی اور عدالت میں موقف اختیار کیا گیا کہ تحائف دینے والے کا ٹیکس نمبر موجود نہیں۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ حسین نواز کا ٹیکس نمبر موجود ہے اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے وکیل نعیم بخاری نے عدالت کے سامنے تسلیم کیا کہ حسین نواز کا ٹیکس نمبر موجود ہے۔
مخدوم علی خان کے مطابق وزیراعظم پر یہ الزام بھی عائد کیا گیا کہ مریم نواز والد کی زیر کفالت ہیں جبکہ یہ بھی کہا گیا کہ وزیراعظم اثاثے ظاہر نہ کرنے پر رکن پارلیمنٹ ہونے کے اہل نہیں رہے۔
وزیراعظم کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ درخواست گزاروں نے اپنی پٹیشن میں نواز شریف پر جھوٹ بولنے کا الزام عائد ہی نہیں کیا اور نہ ہی الزامات کی درست وضاحت کی گئی۔
وزیراعظم کے وکیل نے ان کا قوم سے خطاب بھی عدالت میں پڑھ کر سنایا اور دلائل دیتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم نے اپنے خطاب میں بچوں سے متعلق کاروبار شروع کرنے کا لفظ استعمال نہیں کیا بلکہ وزیراعظم نے کہا تھا کہ جدہ فیکٹری کا سرمایہ بچوں نے کاروبار کے لیے استعمال کیا۔
انھوں نے کہا کہ درخواست گزاروں نے دبئی کی فیکٹری کا معاہدہ بھی عدالت میں پیش کیا اور الزام عائد کیا کہ فیکٹری خسارے میں فروخت کی گئی جبکہ قطر میں سرمایہ کاری نہ ہونے کا الزام بھی لگایا گیا۔
وزیراعظم کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی کی درخواست اور دلائل میں تضاد ہے، پی ٹی آئی کی جانب سے تسلیم کیا گیا ہے کہ دبئی فیکٹری 9 ملین ڈالر میں فروخت ہوئی جبکہ 7 ملین ڈالرز پر ویلتھ ٹیکس نہ دینے کا الزام بھی عائد کیا گیا۔
انھوں نے کہا کہ نواز شریف کبھی دبئی فیکٹری کے ڈائریکٹر نہیں رہے۔
جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا کہ ہم یہ بات کیسے مان لیں کہ وزیراعظم دبئی فیکٹری کے ڈائریکٹر نہیں تھے، ہمارے سامنے نواز شریف کے ڈائریکٹر نہ ہونے کی کوئی دستاویز نہیں۔
جس پر وزیراعظم کے وکیل نے جواب دیا کہ دستاویزات فراہم کرنا اور الزام کو ثابت کرنا درخواست گزار کا کام ہے۔
انھوں نے بتایا کہ میاں شریف کی وفات کے بعد ہدایات کے مطابق حسین نواز کو کاروبار منتقل ھوا، نواز شریف کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔
جسٹس کھوسہ نے سوال کیا کہ کیا نواز شریف کا کاروبار اور رقم سے کوئی تعلق نہیں؟ ساتھ ہی انھوں نے پوچھا کہ اگر تعلق نہیں تو پھر لندن فلیٹس کی منی ٹریل کیسے دی۔
اس موقع پر جسٹس کھوسہ کا کہنا تھا کہ ہمارے سامنے دو اقسام کی منی ٹریل ہیں، پہلی یہ کہ پیسہ دبئی سے جدہ اور پھر لندن گیا اور دوسری یہ ہے کہ پیسہ دبئی سے لندن اور پھر قطر گیا۔
جس پر مخدوم علی خان نے کہا کہ نواز شریف کا لندن جائیداد سے کوئی تعلق نہیں۔
اس موقع پر جسٹس اعجاز الاحسن نے سوال کیا کہ یہ بتائیں کہ لندن جائیدادیں وزیراعظم کے بچوں کی ہیں یا کسی اور کی ہیں۔
جسٹس گلزار نے استفسار کیا کہ کیا دبئی مل کا وجود تھا بھی یا نہیں جبکہ جسٹس اعجاز افضل نے سوال کیا کہ دبئی فیکٹری کے لیے رقم دبئی کیسے گئی؟
جس پر وزیراعظم کے وکیل نے بتایا کہ دبئی فیکٹری قرض لے کر بنائی گئی تھی۔
جسٹس کھوسہ کا اس موقع پر کہنا تھا کہ ریکارڈ کے مطابق دبئی فیکٹری کے 25 فیصد شیئرز نواز شریف کے والد میاں شریف کے نہیں بلکہ طارق شفیع کے تھے جبکہ آپ کی دستاویزات سے بھی بظاہر واضح نہیں ہوتا۔
جسٹس کھوسہ نے وزیراعظم کے وکیل کو عدالت کو مطمئن کرنے کی ہدایت کردی۔
جس پر وزیراعظم کے وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ دبئی مل کا وجود ثابت کرنا درخواست گزار کا کام ہے اور اس معاملے پرعدالت کمیشن بنائے جو دبئی جاکر الزامات کا جائزہ لے۔
جس پر جسٹس اعجاز الاحسبن نے کہا کہ وزیراعظم نے خود دبئی فیکٹری کا اعتراف کیا تھا اور کہا تھا کہ تمام ریکارڈ موجود ہے، لہذا اعتراف کے بعد بار ثبوت آپ پر ھے۔
جس پر وزیراعظم کے وکیل نے جواب دیا کہ وہ عدالت کے تمام سوالات کے جواب دیں گے۔
تاہم ان کا موقف تھا کہ الزامات ثابت کرنے کے لیے ٹھوس شواہد پیش نہیں کیے گئے اور قانون کے مطابق بار ثبوت درخواست گزاروں پر ہے۔
مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ درخواست گزاروں نے متضاد موقف پیش کیا اور قانون شہادت کے تحت شواہد نہ ہوں تو کیس بن ہی نہیں سکتا۔
جسٹس عظمت سعید شیخ کا اس موقع پر کہنا تھا کہ کیس یہ ہے کہ نواز شریف نے تقریر میں غلط بیانی کی، اگر غلط بیانی نہیں ہوئی تو آپ کو ثابت کرنا ہے۔
جسٹس کھوسہ نے کہا کہ ہم تقریر کو غلط نہیں مانتے لیکن اگر کوئی چیز چھپائی گئی ہے تو پھر اسے آدھا سچ مانیں گے۔
جس پر وزیراعظم کے وکیل نے کہا کہ تفصیلات کا نہ بتانا جھوٹ کے زمرے میں نہیں آتا، وزیراعظم پارلیمنٹ میں اپنے خاندان کے کاروبار کا عمومی جائزہ دے رہے تھے، وہ کسی دعویٰ کا بیان حلفی نہیں تھا کہ وہ کسی مخصوص سوال کا جواب دے رہے ہوں۔
مخدوم علی خان نے بتایا کہ وزیراعظم کی پہلی تقریر عمومی تھی اور دوسری تقریر میں انھوں نے بعض تفصیلات سے آگاہ کیا۔
جس پر جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ وزیراعظم نے جس ریکارڈ کی بات کی وہ ابھی تک سامنے نہیں آیا، ریکارڈ کا جائزہ لیے بغیر سچ اور جھوٹ کا فیصلہ نہیں کر سکتے۔
وزیراعظم کے وکیل مخدوم علی خان نے پاناما لیکس سماعت کے دوران درخواست گزاروں کی جانب سے وزیراعظم نواز شریف کی نااہلی کے معاملے کو ‘ناقابل سماعت’ قرار دے دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ان معاملات پر آرٹیکل 184/3 لاگو نہیں ہوتا۔
مخدوم علی خان کے مطابق اگر اسپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے ریفرنس خارج ہو تو پھر 184/3 کی درخواست دائر ہوتی ہے جبکہ یہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیرسماعت ہونے کی وجہ سے الیکشن کمیشن نے بھی اس کی سماعت ملتوی کر رکھی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ نااہلی کا معاملہ لاہور ہائی کورٹ میں زیر التوا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کو ہٹانے کے لیے ایک طریقہ تحریک عدم اعتماد ہے اور دوسرا طریقہ ہے کہ بطور رکن قومی اسمبلی ثابت ہو جائے کہ وہ صادق اور امین نہیں۔
نواز شریف کے وکیل نے دلائل دیئے کہ عدالت دوسروں کے دیئے گئے بیانات پر وزیراعظم کو نااہل قرار نہیں دے سکتی۔
ساتھ ہی انھوں نے موقف اختیار کیا کہ صادق اور امین کی تشریح پر ٹیسٹ صرف وزیراعظم نہیں تمام ارکان پارلیمنٹ کا ہو گا۔
بعدازاں کیس کی سماعت کل بروز جمعہ (12 جنوری) تک کے لیے ملتوی کردی گئی، جہاں وزیراعظم کے وکیل مخدوم علی خان اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔
گذشتہ روز پاکستان تحریک انصاف کے وکیل نعیم بخاری نے اپنے دلائل مکمل کرلیے تھے جبکہ عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد نے عدالت میں پیش کیے گئے قطری خط کو رضیہ بٹ کے ناول سے تشبیہ دیا تھا،ان کا کہنا تھا کہ شریف خاندان قطری خط کے پیچھے چھپ رہا ہے، شیخ رشید نے امید کا اظہار کیا تھا کہ عدالت عظمیٰ ‘سچا انصاف’ فراہم کرے گی۔
جس پر سپریم کورٹ نے واضح کیا کہ عدالت آئین اور قانون کے مطابق انصاف فراہم کرے گی، کسی ایک پارٹی کے تصورات یا توقعات کے مطابق نہیں۔
یاد رہے کہ 4 جنوری سے پاناما کیس پر درخواستوں کی سماعت سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس آصف کھوسہ کی سربراہی میں قائم نیا 5 رکنی لارجر بینچ کررہا ہے جبکہ نئے چیف جسٹس ثاقب نثار 5 رکنی لارجر بینچ کا حصہ نہیں۔
لارجر بینچ میں جسٹس آصف کھوسہ، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس اعجاز افضل، جسٹس عظمت سعید شیخ اور جسٹس گلزار احمد شامل ہیں۔
واضح رہے کہ پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ میں آئینی درخواستیں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)،جماعت اسلامی پاکستان (جے آئی پی)، عوامی مسلم لیگ (اے ایم ایل)، جمہوری وطن پارٹی (جے ڈبلیو پی) اور طارق اسد ایڈووکیٹ کی جانب سے دائر کی گئی تھیں۔