اسلام آباد:حکومت اور اپوزیشن کے درمیان پارلیمانی قائدین کے ہونے والے دوسرے اجلاس میں بھی فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع پر اتفاق نہ ہوسکا،اپوزیشن نے نیشنل ایکشن پلان پر کارکردگی پر سکیورٹی اداورں کی بریفنگ کیلئے پارلیمنٹ کا ان کیمرہ مشترکہ اجلاس بلانے کا مطالبہ کردیا ہے۔اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے کہا ہے کہ اجلاس میں تمام پارلیمانی جماعتوں کا رویہ انتہائی مثبت ہے ، اپوزیشن جماعتوں نے نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کے حوالے سے حکومت سے مزید سوالات کے جوابات مانگ لیے ہیں جو فرقہ وارانہ و کالعدم تنظیموں کی سرگرمیوں،مدارس کے معاملات،نظام عدل میں مجوزہ اصلاحات اور دیگر اہم معاملات کے بارے میں ہے۔وزیرقانون و انصاف نے تصدیق کی ہے کہ اپوزیشن فوجی عدالتوں و نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد سے متعلق مزید سوالات کے جواب اور اہم معاملات پر تشفی چاہتی ہے۔منگل کو پارلیمانی قائدین کا اجلاس اسپیکر سردار ایاز صادق کی صدارت میں پارلیمنٹ ہاؤس کے آئینی روم میں منعقد ہوا جس میں وزیرقانون و انصاف زاہد حامد اور وزیر مملکت ،معاون خصوصی انسانی حقوق بیرسٹر ظفراللہ نے حکومت کی نمائندگی کی۔اپوزیشن لیڈر سیدخورشید شاہ،سید نویدقمر،پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی،ڈاکٹر شیریں مزاری،جمعیت علماء اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان،وزیر ہاؤسنگ و تعمیرات اکرم خان درانی،پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی،عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما حاجی غلام احمد بلور،اعجاز الحق،قومی وطن پارٹی کے صدر آفتاب احمد شیرپاؤ،مسلم لیگ فنکشنل کے رہنما غوث بخش مہر،مسلم لیگ ق کے رہنما طارق بشیر چیمہ،عوامی مسلم لیگ کے صدرشیخ رشید احمد و دیگر رہنماؤں نے شرکت کی۔ذرائع کے مطابق اجلاس کے دوران حکومتی اتحادی جماعتوں نے بھی فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کی شدید مخالفت کی ہے۔مولانا فضل الرحمان اور محمود خان اچکزئی نے بھی واضح کردیا ہے کہ ان عدالتوں کی حمایت نہیں کی جاسکتی۔مولانا فضل الرحمان نے دینی جماعتوں کا بھی موقف بھی اجلاس میں پیش کردیا ہے کہ حکومت یکطرفہ طور پر اس معاملے میں ترمیم لائی تھی اوراس کے تحت ہونیوالی قانون سازی دہشتگردی و انتہاپسندی کو مذہب اور مسلک سے منسلک کردیا گیا ہے جس کی وجہ سے اس امتیازی ترمیم کی حمایت نہیں کیاجاسکتی۔ذرائع نے مزید بتایا کہ اپوزیشن جماعتوں نے بریفنگ کیلئے جو مزید سوالات اٹھائے ہیں وہ فرقہ وارانہ و کالعدم تنظیموں کی سرگرمیوں،مدارس کے معاملات،نظام عدل میں مجوزہ اصلاحات اور دیگر اہم معاملات کے بارے میں ہے۔اجلاس کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے کہاکہ یہ معاملات انتہائی حساس ہیں،دہشتگردی کا خاتمہ ہماری ترجیح بھی ہے اور قومی ضرورت بھی ہے،وزیرقانون نے بریفنگ دی ہے جس سے مزید سوالات اٹھ گئے ہیں،حکومت سے کہا گیا ہے کہ آئندہ اجلاس میں ان سوالات کے جوابات دیئے جائیں۔پارلیمنٹ کو آگاہ کرنا ضروری ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کے حوالے سے حکومت کی کارکردگی کیا ہے۔آئندہ اجلاس 31جنوری کو ہوگا۔انہوں نے کہاکہ دہشتگردی اور انتہاپسندی ایک بہت بڑا چیلنج ہے جوکہ ہمارے لیے مشترکہ طور پر چیلنج کی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔سوالات ہم نے اٹھا دیئے ہیں اب حکومت بھی تو بتائے کہ اس نے کیا کیا ہے،آج کی بریفنگ سے مطمئن ہونا نہ ہونا معنی نہیں رکھتا بلکہ اصل مسئلہ دہشتگردی کے چیلنج کو دیکھنا ہے۔وزیرقانون وانصاف زاہد حامد نے بھی تصدیق کی کہ اپوزیشن جماعتوں نے مزید سوالات اٹھائے ہیں،مشیر قانون و انصاف بیرسٹر ظفر اللہ کا کہنا تھا کہ تمام جماعتیں جب تک اتفاق نہیں کرتیں فوجی عدالتوں کے معاملے پر کچھ نہیں کرسکتے،تمام جماعتیں اس بات کا ادراک رکھتی ہیں کہ اس پر سیاست نہ کی جائے ہم نے تفصیل سے بریفنگ دے دی ہے،فوجی عدالتوں اور نیشنل ایکشن پلان پر اعتماد میں لیا ہے،آئندہ اجلاس میں سوالات کے جوابات دے دیئے جائیں گے۔شاہ محمود قریشی نے کہاکہ دہشتگردی کا خاتمہ سب کی ترجیح ہے مگر ہم نے کارکردگی کا جائزہ بھی لینا ہے اس لیے ہم نے مطالبہ کیا ہے کہ پارلیمنٹ کا ان کیمرہ مشترکہ اجلاس طلب کرکے سیکیورٹی اداروں کی طرف سے بریفنگ لی جائے کہ دہشتگردی کے خاتمے کیلئے پاکستان کہاں کھڑا ہے،اب تک کیا کچھ کیا ہے اور جو پیشرفت ہوئی ہے اس سے پارلیمنٹ کو آگاہ کیا جائے،یقیناً دہشتگردی میں خاطر خواہ کمی آئی ہے اور پوری قوم نے ضرب عضب کی کامیابیوں کا اعتراف کیا ہے،مزید سوالات کی تشفی ضروری ہے۔اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایازصادق نے کہاکہ دوسرا اجلاس بھی انتہائی خوشگوار ماحول میں ہوا اور تمام پارلیمانی جماعتوں کا اجلاس میں رویہ انتہائی مثبت ہے۔