|

وقتِ اشاعت :   January 19 – 2017

اسلام آباد:سینیٹ میں قومی احتساب بیورو ایکٹ کی پلی بارگین کو ختم کرنے کے بارے میں حالیہ صدارتی آرڈیننس کو مسترد کرنے کی قرارداد بھاری اکثریت سے منظور کر لی گئی ۔ قرارداد کی محرک جماعتوں میں متحدہ اپوزیشن کے ساتھ حکومتی اتحادی جماعتیں بھی شامل ہیں۔ اس موقع پر چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے حکومت کو ہدایت کی ہے کہ احتساب پارلیمانی کمیٹی میں فوج عدلیہ اور سول بیوروکریسی سمیت سب کے کے لئے بلاتفریق احتساب کا جامع قانون وضع کیا جائے ۔ بدھ کو ایوان بالا میں سینٹر تاج حیدر نے پیپلز پارتی ، تحریک انصاف، اے این پی، فاٹا ، آزاد اور حکومتی اتحادی جماعت پختون خوا ملی عوامی پارٹی کے سینٹرز کی طرف سے قرارداد پیش کی کہ یہ ایوان قومی احتساب ترمیمی آرڈیننس 2017 ء کو مسترد کرتا ہے۔ قرارداد39 اراکین سینٹ کی حمایت سے لائی گئی تھی جو پیپلز پارٹی کے متذکرہ سینٹرز نے پیش کی ۔ اس موقع پر وفاقی وزیر قانون و انصاف زاہد حامدن نے قرارداد کی سخت مخالفت کرتے ہوئے آرڈیننس لانے کی وجوہات سے ایوان کو آگاہ کیا اور بتایا کہ سپریم کورٹ نے پلی بارگین کے بارے میں شق کو معطل کر دیا تھا اور اس معاملے پر فوری طور پر حکومت سے اس کا موقف طلب کیا گیا تھا ۔ حکومتی موقف کے لئے یہ آرڈیننس لایا گیا جسے پوری قوم کی حمایت حاصل ہے۔ اس آردیننس کے تحت کرپشن ثابت ہونے پر متعلقہ فرد چاہے جس بھی عہدے پر ہوں تاحیات نااہل ہو جائے گا۔ انہوں نے اس بارے میں سینرز اعترازاحسن اور دیگر اپوزیشن رہنماؤں کے بیانات سے بھی ایوان کو آگاہ کیا کہ وہ بھی یہ چاہتے تھے کہ چیئرمین نیب کے اختیارت کو محدود کیا جائے۔ تاج حیدر نے کہا کہ ہم سب بھی پلی بارگین ختم کرنا چاہتے ہیں تاہم سینٹ اجلاس طلب کیے جانے کے باجود آرڈیننس لایا گیا جبکہ اس معاملے پر گزشتہ سال پارلیمانی کمیٹی بھی قائم کر دی گئی تھی جو نیب قوانین پر نظر ثانی کرے گی اس سب کے باووجود آردیننس کیوں لایا گیا کمیٹی کو اہمیت کیوں نہ گئی۔ وزیر قانون نے کہا کہ آرڈیننس آئین کے تحت ہے اراکین سینٹ سختی سے اس قرارداد کو مسترد کر دیں۔چیئرمین سنٹ نے قرارداد پر رائے شماری کرائی تو متذکرہ اپوزیشن و حکومتی اتحادی جماعتوں کے 33 سینٹرز نے قرارداد کی حمایت کی جبکہ 21 سینٹرز نے قرارداد کی مخالفت کی اس طرح قرارداد کو بھاری اکثریت سے منظور کر لیا گیا۔ اس موقع پر چئیرمین نے وزیر قانون کو ہدایت کی کہ احتساب کا ایسا جامع قانون وضع کیا جائے جس کے تحت عدلیہ، فوج ، سول بیورکریسی سیمت سب کا ایک چھت کے نیچے ایک قانون کے تحت احتساب ہو سکے۔ یہاں میں متعلقہ اداروں کے انضباطی کاروائی کے طریقہ کار پر بات نہیں کر رہا ہوں۔ اس بارے میں پارلیمانی کمیٹی کو تحریری طور پر بھی لکھوں گا۔