|

وقتِ اشاعت :   January 20 – 2017

اسلام آباد:سپریم کورٹ میں پانامہ کیس کی سماعت کے دوران جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ 20کروڑ عوام کے بنیادی حقوق کو بھی دیکھنا ہوگا، کیس میں پوری قوم متعلقہ ہے کیونکہ فریق وزیراعظم ہے،آرٹیکل225کے تحت الیکشن میں کامیابی کو چیلنج کرنے کی معیاد مختصر ہے،معیاد ختم ہونے کے بعد آرٹیکل184/3اور199کے تحت عدالتوں سے رجوع کیاجاسکتا ہے،اسی وجہ سے درخواستوں کے قابل سماعت ہونے پر اعتراض نہیں کیا، ہمارے سامنے معاملہ کوارنٹو سے بالاتر ہے،پانامہ کیس عوامی اہمیت کا حامل ہے جبکہ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہاکہ ہمارے سامنے نوازشریف کی بطور وزیراعظم اہلیت کا معاملہ ہے، نوازشریف کے وزیراعظم ہاؤس ہولڈکرنے کو چیلنج کیا گیا ۔جمعرات کو سپریم کورٹ کے جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس گلزار احمد، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل پانچ رکنی بینچ نے امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق، چیئرمین تحریک انصاف عمران خان، سربراہ عوامی مسلم لیگ شیخ رشید احمد اور طارق اسد ایڈووکیٹ کی جانب سے وزیراعظم نوازشریف اور ان کے خاندان کے افراد کی آف شور کمپنیوں کی تحقیقات کے لئے دائر درخواستوں پر سماعت کی۔سماعت شروع ہوئی تو مریم نواز کے وکیل شاہد حامد نے اپنی موکلہ کے نام پر خریدی گئی جائیداد کی تفصیلات عدالت کے روبرو پیش کیں، دستاویزات میں جائیداد کی خریداری کی تاریخیں اور دیگر قانونی دستاویزات شامل ہیں۔ وزیر اعظم کے وکیل مخدوم علی خان کے دلائل پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا کہ کیا زمین والد نے بیٹی کے نام خریدی تھی۔ جس پر مخدوم علی خان نے کہا کہ والد نے بیٹی کے نام اراضی خریدی، مریم نواز نے بعد میں اراضی کی قیمت ادا کی تو زمین کی ملکیت کا انتقال ہوا۔ جسٹس اعجاز افضل خان نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ کیس کو مدنظر رکھ کر ہی کفالت کی تعریف کوسمجھنا ہوگا۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ نیب آرڈیننس میں بے نامی جائیدادوں کی تعریف تو ہے لیکن زیرکفالت کی نہیں۔مخدوم علی خان نے کہا کہ بے نامی جائیداد سے متعلق عدالت کے متعدد فیصلے موجود ہیں۔جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ عمومی طور پر والدزیرکفالت بچوں کو جائیداد خرید کر دیتے ہیں۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ الزام بے نامی جائیداد کی خریداری کا بھی ہے۔جسٹس اعجاز افضل خان نے کہاکہ ان عدالتی فیصلوں میں دوفریقین کے درمیان تنازع تھا،یہاں فریقین کے درمیان جائیداد کی ملکیت کا کوئی تنازع نہیں۔جسٹس گلزاراحمد نے کہا کہ زیرکفالت ہونے کا فیصلہ حقائق کی بنیاد پر کر سکتے ہیں،ہماری تشویش زیرکفالت ہونے سے متعلق حقائق پر ہے،زیرکفالت ہونے سے متعلق حقائق پیش کیے جائیں،مخدوم علی خان نے کہاکہ مریم نواز قطعی طور پر کسی کے زیرکفالت نہیں،مریم نواز مالی طور پر خودمختار ہیں،وزیراعظم کے وکیل نے جسٹس آصف سعید کھوسہ کے بے نامی جائیداد سے متعلق فیصلے کاحوالہ دیا،مخدوم علی خان نے کہاکہ بے نامی ٹرانزیکشن کی قانون میں باقاعدہ تعریف موجود ہے،ہر ٹرانزیکشن کو بے نامی نہیں کہا جاسکتا۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آپ نے خود کہا کہ مریم نواز کو تحفے میں رقم دی گئی،جو والد کو بعد میں واپس کی گئی،تحفے میں دی گئی رقم کی واپسی کے بعد جائیداد مریم کو مل گئی۔ اس سے لگتا ہے مریم نواز والد کے زیرکفالت ہیں،مخدوم علی خان نے کہا کہ لندن فلیٹس ٹرسٹ ڈیڈ پر شاہد حامد دلائل دیں گے۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ قانون میں یہ ہے ایسی جو بھی جائیداد ہے۔ اس کو ظاہر کیاجاناچاہیے۔جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ وزیراعظم قانون کے مطابق رکن اسمبلی منتخب ہوئے ہیں۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ 20کروڑ عوام کے بنیادی حقوق کو بھی دیکھنا ہوگا،اس کیس میں پوری قوم متعلقہ ہے کیونکہ فریق وزیراعظم ہے،آرٹیکل225کے تحت الیکشن میں کامیابی کو چیلنج کرنے کی معیاد مختصر ہے،معیاد ختم ہونے کے بعد آرٹیکل184/3اور199کے تحت عدالتوں سے رجوع کیاجاسکتا ہے،اسی وجہ سے درخواستوں کے قابل سماعت ہونے پر اعتراض نہیں کیا۔جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ کیا آئینی مقدمے میں کووارنٹورٹ کو لایاجاسکتا ہے کیا 184/3کے مقدمے کو وارنٹو میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ کیس کووارنٹو کا نہیں بلکہ ریاست کا ہے،جسٹس گلزار احمد نے کہاکہ معاونت کی جائے کہ کیا کووارنٹوکے تحت سماعت کی جاسکتی ہے یا نہیں؟۔جسٹس اعجاز افضل خان نے کہاکہ موجودہ کیس میں دونوں فریقین کا موقف ایک ہے بے نامی کے معاملے پر نیب کی تعریف متعلقہ ہوسکتی ہے۔جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہاکہ ہمارے سامنے نوازشریف کی بطور وزیراعظم اہلیت کا معاملہ ہے، نوازشریف کے وزیراعظم ہاؤس ہولڈکرنے کو چیلنج کیا گیا،مخدوم علی خان نے کہا کہ محمود اختر کیس میں ارکان اسمبلی کو نااہل کیا گیا تھا،وزیراعظم کو نہیں،نوازشریف کی نااہلی بطور رکن اسمبلی ہوسکتی ہے۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ہمارے سامنے معاملہ کوارنٹو سے بالاتر ہے،پانامہ کیس عوامی اہمیت کا حامل ہے،وکیل نے کہاکہ محمودنقوی کیس میں ارکان دہری شہریت کے اعتراف پر نااہل ہوئے۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہاکہ اعتراف نہ کرتے تو شواہد ریکارڈ کرنا ہوتے،آپ کے مطابق شواہد ریکارڈ کرنا ہمارا کام نہیں،فوریک فرم کے کلائنٹ کی تعداد لاکھوں میں ہے،اس سے اندازہ ہوتا ہے آف شور کمپنیاں کتنی بڑی تعداد میں ہیں،آف شور کمپنی بذات خود کوئی مسئلہ نہیں،اثاثے چھپانے،ٹیکس چوری کیلئے آف شور کمپنی کا استعمال غلط ہے۔جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہاکہ حقائق متنازع ہوں تو بھی عدالت بے بس نہیں ہوتی،متنازع حقائق پر انکوائری یا حقائق تسلیم ہوں تو فیصلہ ہوجاتاہے،دونوں فریقین کم متنازع حقائق دینے میں ناکام ہیں۔وکیل نے کہاکہ ریاست پاکستان آف شور کمپنیوں کے ذریعے نیویارک میں ہوٹل چلارہی ہے،ٹیکس بچانے کیلئے یہ کمپنیاں بنائی گئیں۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہاکہ کیا آپ کہنا چاہتے ہیں کہ ٹیکس بچانا درست ہے،؟آف شور کمپنیاں بنانا غیرقانونی نہیں،ٹیکس اور اثاثے چھپاناغیرقانونی ہے۔وکیل نے کہاکہ 184/3کا اختیار عدالت قانون کے مطابق استعمال کرے گی۔مخدوم علی خان نے کہا کہ درخواست گزار نے عدالت میں متعدد کتابوں کے حوالے دیئے،جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ کتاب میں مصنف کی رائے پر یقین نہیں کرسکتے۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہاکہ معاملہ ہائیکورٹ میں ہوتو کیا سپریم کورٹ کیس سن سکتی ہے؟،مخدوم علی خان نے کہاکہ بنیادی حقوق کے مقدمات طویل عرصے زیر التوارہیں تو سن سکتی ہے،عدالت فیصلوں میں کہہ چکی ہے اخباری خبریں شواہد نہیں ہوسکتیں۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہاکہ جس کیس کا ذکر کررہے ہیں وہ فوجداری مقدمے میں ضمانت کا ہے،مخدوم علی خان نے کہاکہ اخباری تراشوں کو قانون شہادت کے تحت دیکھا جاسکتاہے۔جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہاکہ 184تین کے بعدبعض مقدمات میں عدالت نے اپنے اختیار کو توسیع دی،شواہد کا جائزہ لے کر عدالت حقائق تک پہنچتی ہے،آپ اختیار محدود جبکہ ہم وسیع ہونے کی بات کر رہے ہیں۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہاکہ آپ 40سال پرانے مقدمات کا حوالہ دے رہے ہیں،عدالت بہت سی نئی مثالیں قائم کرچکی ہے،مخدوم علی خان نے کہاکہ نصرت بھٹو اور لوکوموٹو کیس کے حوالے بھی موجود ہیں۔جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا لگتا ہے آپ ہمیں شرمندہ کر رہے ہیں۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ اسمبلی تحلیل کرنے کے مقدمات میں الزام کرپشن کا بھی تھا،عدالت نے تمام مقدمات میں اپنی رائے بھی دی تھی،مخدوم علی خان نے کہاکہ اسمبلی تحلیل کیس میں عدالت نے صدر کے احکامات کا جائزہ لیا تھا۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہاکہ اسمبلی تحلیل کیسز میں عدالت نے شہادت نہیں لی،حقائق دیکھے ۔کیا حالیہ مقدمے میں ایسے مواد کا جائزہ نہیں لے سکتے۔جسٹس اعجاز افضل خان نے کہاکہ مفروضوں پر فیصلے کیسے دے سکتے ہیں جن کے دورس اثرات ہوں۔مخدوم علی خان نے کہاکہ عدالت نے صرف یہ دیکھا صدر کا اقدام کسی مواد پر تھا یا نہیں۔جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ فیصلوں میں کہہ چکے ہیں ناہلی ٹھوس شواہد پر ہوگی۔مخدوم علی خان نے کہاکہ وزیراعظم کے خلاف درخواستیں الیکشن کمیشن،ہائیکورٹ میں زیرسماعت ہیں۔جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہاکہ کیا کوئی ریفرنس عمران خان نے بھی دائر کر رکھا ہے؟،مخدوم علی خان نے کہا کہ عمران خان نے نہیں پی ٹی آئی کے ارکان نے دائر کیے ہیں،ڈیکلریشن دینے والی کورٹ کو آرٹیکل 10اے بھی مدنظر رکھنا ہو گا،تحمل سے سننے پر عدالت کا مشکور ہوں۔جسٹس آصف سعیدکھوسہ نے کہاکہ آپ نے عدالت کی بہترین معاونت کی، (آج ) جمعہ کو جماعت اسلامی کے وکلاء اور طارق اسد کو سنیں گے،مخدوم علی خان نے کہا کہ مجھے جماعت اسلامی کے مقدمے میں نمائندگی کا نہیں کہا گیا۔پانامہ کیس کی سماعت (آج ) جمعہ تک ملتوی کردی گئی ۔