|

وقتِ اشاعت :   January 20 – 2017

اسلام آباد:سپریم کورٹ نے سانحہ کوئٹہ ازخود نوٹس کیس میں وفاقی حکومت ، وزارت داخلہ اور بلوچستان حکومت سے تحفظات اورسفارشات طلب کرتے ہوئے اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کرکے آئندہ سماعت پر ذاتی حیثیت میں طلب کرنے کا حکم دیدیا ہے اور کہا ہے کہ وفاق بتائے کہ کوئٹہ کمیشن رپورٹ پر عملدرآمد کرنا ہے کہ نہیں ،جبکہ جسٹس امیر ہانی مسلم نے دوران سماعت ریمارکس دیئے ہیں کہ بلوچستان میں حکومت کی نلائقی کی انتہا ہے ، اگر نااہلی کی صورت حال یہی رہی تو سکیورٹی کا کیا بنے گا ، میں بلوچستان کی سکیورٹی لیول دیکھ آیا ہوں اس پر تو بات ہی ختم ہو جاتی ہے ۔ جمعرات کو کیس کی سماعت جسٹس امیر ہانی کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی ، مقدمہ کی سماعت شروع ہوئی تو بلوچستان حکومت کے وکیل خواجہ ہارث نے دلائل دیتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ کوئٹہ کمیشن رپورٹ پر اعتراض ہے اس کو تسلیم نہیں کرتے ،کمیشن کی رپورٹ بہت اعلیٰ ہے لیکن اس کے نتائج کیسے مانیں ، اس پر جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ آپ ایک طرف کہتے ہیں رپورٹ بہترین ہے اور پھر اس کوتسلیم بھی نہیں کرتے ،اس پر صوبائی حکومت کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ہم کمیشن کو کیسے بتاتے کہ تفتیش کس طرح کر رہے ہیں اور سکیورٹی کے لیے کیا اقدمات اٹھائے ،کمیشن کی خاطر بلوچستان کی سکیورٹی کی خفیہ معلومات کیسے دے سکتے ہیں ،اس پر جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ دکھ ہے کہ بلوچستان میں حکومت کی نالائقی کی انتہا ہے ، نااہلی کا یہی حال رہا تو صوبے کی سکیورٹی کا کیا بنے گا ،میں خود بلوچستان کی سکیورٹی کا لیول دیکھ کر آیا ہوں اس پر تو بات ہی ختم ہو جاتی ہے ،کوئٹہ سول ہسپتال میں ایک وزیر نے فیتہ کٹوایا اور نکل گیا ، جب ہسپتال ٹھیک سے بنانا ہی نہیں تھا تو پھر یہ تکلف کیوں کیا ،صوبائی حکومت کے وکیل کے بعد آئی جی بلوچستان بنچ کے سامنے پیش ہوئے اور کمیشن کی رپورٹ سے متعلق عدالت کو اپنے موقف سے آگاہ کرتے ہوئے جذباتی ہو گئے آئی جی بلوچستان احسن محبوب کا کہنا تھا کہ ہمیں کمیشن میں سنا نہیں گیا ہے ، آٹھ گھنٹے کٹہرے میں کھڑا کر کے کہا گیا تم پر خدا کی لعنت ہو اگر جھوٹ بولو تو ، مجھ سے ایسے سوالات بھی کیے گئے جن سے میرا کوئی تعلق نہیں اور نہ کیس سے تعلق ہے ، مجھ سے حلف لے کر پوچھا گیا کہ بتاؤ اے ایس آئی نے جائے وقوعہ سے گولیوں کے خول دستانے پہن کر اٹھا ئی یا نہیں اب میں اے ایس آئی کی گواہی کیسے دے سکتا ہوں ،مجھے کہا گیا تم شرم سے ڈوب کر مر جاؤ کیا یہ درست ہے ، کیا ہم صرف ذلیل ہونے کے لیے ہیں ، ہمیں انصاف کون دے گا ، خدا کی قسم اٹھا کر کہتا ہوں کہ کمیشن میں مجھے گالیاں دی گئی ہیں ، کیا انصاف صرف اوروں کے لیے ہے اور پولیس والے صرف ذلیل ہونے کے لیے ہیں ،اس پر جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ آپ جذباتی نہ ہوں ہم نے آپ کے ساتھ کھبی ایسا نہیں کیا ، جس پر آئی جی کا کہنا تھا کہ آپ نے ایسا سلوک نہیں کیا لیکن کمیشن نے ہمیں ذلیل کیا ہے ،اس پر کمرہ عدالت میں موجود وکلاء نے کہا کہ آئی جی الزام لگا رہے ہیں جس سے کمرہ عدالت میں معمولی سا شور ہوا ،جسٹس امیر ہانی نے آئی جی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہم آپ جیسے افسران سے زیادہ توقعات رکھتے ہیں ،جب بھی ایسا کوئی واقعہ ہوتا ہے تو سوالات بھی سخت ہوتے ہیں ،جبکہ آئی جی کا کہنا تھا کہ ہم نے بلوچستان کو بہت بہتر کیا ہے ،اس پر جسٹس امیر ہانی مسلم کا کہنا تھا کہ کمیشن کی سفارشات پر سکیورٹی کی صورتحال میں بہتری لائی جا سکتی ہے ، سوال یہ ہے کہ ہم ایسے واقعات سے بچ کیوں نہیں سکتے ، جب ایسی صورتحال ہو تو سکیورٹی کے سخت انتظامات کی ضرورت ہوئی ہے ، کوئٹہ پولیس سینٹر پر حملے کا زمہ دار کون آئی جی صاحب بتائیں ،جو ان کیڈٹس کا سربراہ تھا اسکے کیخلاف کارروائی کیوں نہیں ہوئی ، دو پولیس والوں کے پاس اسلحہ تھا باقی بغیر اسلحے کے پہرہ داری کر رہے تھے ،دیوار بنانا حکومت کی ذمہ داری تھی لیکن نہیں بنائی اس وقت کون چیف سیکرٹری تھا ،اس پر آئی جی بلوچستان نے کہا کہ ہم نے حکومت کو دیوار بارے آگاہ کردیا تھا اور عملدرآمد کی بھی درخواست کی تھی ، اس پر جسٹس امیر ہانی مسلم کا کہنا تھا کہ آپ نے ایک دیوار کھڑی کرنے میں دوسال لگا لیے ،روزانہ ایک اینٹ ہی لگا لیتے تو دیوار مکمل ہو جاتی ، کوئٹہ میں ایک سریاب روڈ ہے وہ بھی محفوظ نہیں ،سریاب روڈ پر ہر دوسرے دن کوئی نہ واقعہ ہوتا ہے ،سریاب روڈ کوئٹہ کا حصہ ہے اگر وہ بھی محفوظ نہیں تو ڈی آئی جی وردی میں کیوں ہے ، اس پر آئی جی بلوچستان کا کہناتھا کہ بلوچستان کے چند مسائل ایسے ہیں جن کو سیاسی طور پر حل کرنے کی ضرورت ہے ،اگر ان مسائل کو ختم نہیں کیا جاتا تو کرفیو لگانے کے باوجود بھی سریاب روڈ کو محفوظ نہیں بنایا جا سکتا ،دہشت گردوں کو بلوچستان میں حملے کے زیادہ پیسے ملتے ہیں ،وفاقی حکومت کی جانب سے سرکاری وکیل راناوقار عدالت میں پیش ہوئے اور بتایا کہ مجھے تاحال وزارت داخلہ کی جانب سے ہدایت جاری نہیں کی گئی ہیں اگر عدالت اجازت دے توہدایت لینے کے بعد اپنا موقف پیش کروں ، دس منٹ کا ٹائم دیا جائے ، دس منٹ کے بعد رانا وقار دوبارہ پیش ہوئے اور عدالت کو بتایا کہ وزارت داخلہ نے مخدوم علی خان ایڈووکیٹ کو اپنا وکیل مقررکیا ہے وہ اس معاملے پر بحث کریں گے ، اس پر عدالت کا کہنا تھا کہ ہمیں حیرانی ہے کہ وفاق اور وزارت داخلہ کے الگ الگ وکیل ہیں، کیا وزارت داخلہ وفاق سے الگ ہے ، عدالت نے وفاق ، بلوچستان اور وزارت داخلہ سے کوئٹہ کمیشن رپورٹ پر تحفظات اور سفارشات طلب کرتے ہوئے اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کر دیا ہے اور ہدایت کی ہے کہ وہ ذاتی حیثیت میں پیش ہو کر بتائیں کہ وفاق نے کمیشن رپورٹ پر عملدرآمد کرنا ہے کہ نہیں ۔ عدالت عظمیٰ نے کیس کی مزید سماعت چھ فروری تک ملتوی کردی اور کہا کہ آئندہ کیس میں التواء نہیں ہو گا۔ دریں اثناء سپریم کورٹ میں سانحہ کوئٹہ ازخودنوٹس کی سماعت میں آئی جی بلوچستان کمرہ عدالت میں جذباتی ہوگئے،آئی جی بلوچستان نے کہا کہ ہمیں کمیشن میں سنا نہیں گیا،آٹھ گھنٹے تک کٹہرے میں کھڑا کیا گیا،ہمیں کہا گیا کہ تم پرخداکی لعنت ہو۔جمعرات کو سپریم کورٹ میں سانحہ کوئٹہ ازخود نوٹس کی سماعت جسٹس امیر مسلم ہانی کی سربراہی میں دورکنی بینچ نے کی۔آئی جی بلوچستان احسن محبوب نے عدالت میں کہا کہ بلوچستان کو ہم نے بہت بہتر کیا ہے،ہمیں کمیشن میں سنا نہیں گیا اور 8گھنٹے کٹہرے میں کھڑا کیا گیا،ہمیں کہا گیا کہ تم پرخدا کی لعنت ہو،جج نے مجھے کہا کہ شرم سے ڈوب مرو،کیا یہ ٹھیک ہے؟۔آئی جی بلوچستان نے کہا کہ کیا صرف ججز کی عزت ہے؟،ہم ذلیل ہونے کیلئے رہ گئے ہیں،خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ کمیشن میں مجھے گالیاں دی گئیں،کیا انصاف اداروں کیلئے اور پولیس والے صرف ذلیل ہونے کیلئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ مجھ سے غیر متعلقہ سوالات پوچھے گئے۔جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہاکہٓپ جذباتی نہ ہوں۔ ہم نے آپ کے ساتھ ایسا سلوک نہیں کیا،جس پر آئی جی نے کہا کہ آپ نے ایسا سلوک نہیں کیا لیکن کمیشن نے ہمیں ذلیل کیا۔جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ ہم آپ جیسے افسروں سے زیادہ توقعات رکھتے ہیں،جب بھی ایسا واقعہ ہوتا ہے۔ سوالات بھی سخت ہوتے ہیں،کمیشن سفارشات پر سیکیورٹی صورتحال میں بہتری لائی جاسکتی ہے۔سوال یہ ہے کہ ایسے واقعات سے کیوں بچ نہیں سکتے،کوئٹہ میں ایک سریاب روڈ ہے وہ بھی غیرمحفوظ ہے،آئی جی صاحب بتائیں،کوئٹہ پولیس سینٹر پرحملہ کا ذمہ دار کون ہے؟،دیوار بنانا حکومت کی ذمہ داری تھی لیکن نہیں بنائی گئی،آئی جی نے جواب دیا کہ حکومت کو دیوار کے بارے میں بتایا اور اس پر عمل کا بھی کہہ دیاتھا۔جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ آپ نے ایک دیوار کھڑی کرنے میں دوسال لگادیئے،روز دس اینٹیں لگاتے تودیوار مکمل ہوجاتی،سریاب روڈ پر ہردوسرے دن کوئی نہ کوئی واقعہ ہوجاتاہے،اگر سریاب روڈ محفوظ نہیں تو ڈی آئی جی وردی میں کیوں؟،سپریم کورٹ نے 6فروری تک سماعت ملتوی کرتے ہوئے اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کرکے وزارت داخلہ اور صوبائی وزارت داخلہ سے کمیشن کی رپورٹ پر سفارشات اور موقف طلب کرلیا۔