|

وقتِ اشاعت :   January 24 – 2017

اسلام آباد:قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق نے کمیٹی میں قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کے چیئرمین جسٹس(ر)علی نواز چوہان نے بیان دیتے ہوئے سانحہ کوئٹہ کو’’انٹیلی جنس‘‘کی ناکامی قراردے دیا ہے،انہوں نے واضح کیا ہے کہ آزاد و خودمختار رپورٹ کی تیاری کیلئے کام شروع کردیا ہے،بلوچستان بار کے صدر پر قاتلانہ حملے کے بعد ہسپتال میں بار بار دکھائے دینے والے مشکوک شخص کا انٹیلی جنس اداروں نے نوٹس کیوں نہیں لیا،قائمہ کمیٹی نے قومی کمیشن کی جانب سے تاحال اس معاملے پر حکومت کو جامع سفارشات پیش نہ کرنے پر تحفظات کااظہار کردیا ہے اور چیئرمین کمیشن کو آئندہ اجلاس میں سانحہ کوئٹہ پر حتمی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کردی گئی ہے،قائمہ کمیٹی نے اس سانحہ پر بریفنگ کیلئے تین بار طلب کرنے کے باوجود عدم شرکت پر بلوچستان کے چیف سیکرٹری،ہوم سیکرٹری اور صحت سیکرٹری کے سمن جاری کرنے کی ہدایت کردی ہے۔اجلاس کے دوران سیکرٹری وزارت انسانی حقوق اور چیئرمین قومی کمیشن انسانی حقوق اختیارات کے معاملے پر لڑتے جھگڑتے رہے جس پر قائمہ کمیٹی کمیشن کے اختیارات کو محدود کرنے کیلئے ایکشن میں آگئی ہے اور آئندہ اجلاس میں کمیشن کے سارے اراکین کو مدعوکرتے ہوئے متعلقہ قانون پر نظرثانی کا اعلان کردیا ہے۔پیر کو انسانی حقوق قائمہ کمیٹی کا اجلاس چیئرمین بابر نواز خان کی صدارت میں اولڈپیپس کے کانفرنس روم میں ہوا۔قائمہ کمیٹی نے وزارت خارجہ اور وزارت انسانی حقوق کی جانب سے قومی کمیشن برائے انسانی حقوق سے مشاورت سے 20فروری کو اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیٹی میں پاکستان میں شہری و سیاسی حقوق و دیگر معاملات پر پیش کی جانے والی رپورٹ کو تاحال حتمی شکل نہ دینے پر سخت برہمی کا اظہار کیا۔اجلاس کے دوران سیکرٹری انسانی حقوق وزارت داخلہ کے خلاف پھٹ پھڑے اور کہا کہ رپورٹ کو مختلف طبقات کے خلاف تشدد و حراساں کرنے کے معاملات پر بھی نکات شامل کرنے ہیں،وزارت داخلہ کو کئی خط لکھ چکے ہیں،ذاتی اثرورسوخ کو بروئے کار لاتے ہوئے وزارئے کے ذریعے بھی سیکرٹری داخلہ کو کہلاوایا گیا مگر تاحال ان کی جانب سے کسی قسم کا جواب نہیں دیا گیا ہے۔سیکرٹری انسانی حقوق نے بلواسطہ طور پر وزارت داخلہ پر انسانی حقوق کی صورتحال پر رپورٹ کو حتمی شکل نہ دیے جانے کا ذمہ دار وزارت داخلہ کو ٹھہرا دیا،قائمہ کمیٹی انسانی حقوق کے اراکین کے مزید استفسار پر سیکرٹری انسانی حقوق نے کہا انہیں اس رپورٹ کی تیاری کیلئے خیبرپختونخواہ سے بھی تاحال کوئی جواب نہیں ملا ہے،اسی طرح بلوچستان نے بھی مطلوبہ معلومات نہیں آئی ہیں،صرف پنجاب سے مکمل رپورٹ آئی ہے،سندھ نے بھی جزوی طور پر آگاہ کیا ہے،خیبرپختونخوا کی حکومت نے تو ہمارے ساتھ مذاق کیا اور جب اس رپورٹ کی تیاری کیلئے صوبائی دارالحکومت گئے تو ہمارے ساتھ ملاقات کیلئے جس ایڈیشنل سیکرٹری کی ذمہ داری لگائی گئی وہ موجود ہی نہیں تھے۔انہوں نے بتایا کہ 17وفاقی اداروں کو رپورٹ کی تیاری کیلئے معلومات کیلئے کہا گیا ہے بیشتر کے جوابات نہیں آئے،کلیدی معلومات وزارت داخلہ سے آنی ہے۔اس موقع پر ان کی انسانی حقوق کمیشن کے چیئرمین کے ساتھ اختیارات کے معاملے پر جھڑپ بھی ہوئی،دونوں ایک دوسرے کے اختیارات کو چیلنج کرتے رہے۔اجلاس میں چیئرمین انسانی حقوق کمیشن علی نواز چوہان نے واضح کیا کہ کمیشن اپنے مینڈینٹ کے مطابق انسانی حقوق کی صورتحال پر ’’شیڈو رپورٹ‘‘تیارکرسکتا ہے مگر حکومتی اداروں کا تعاون نہیں مل رہا ہے،پہلے بھی ایک اعلیٰ شخصیت نے اس معاملے پر ہماری شیڈو رپورٹ کو یہ کہہ کر روک لیا تھا کہ مخالفت میں لکھی گئی اس رپورٹ کو آگے نہیں بھجوا سکتے جبکہ ہم اختیار کے مطابق آزاد وخودمختار رپورٹ تیارکرسکتے ہیں۔اس موقع پر کمیٹی کے اراکین نے وزارت خارجہ،وزارت انسانی حقوق کی جانب سے مختلف بین الاقوامی کنونشزن کی توثیق کے باوجود اراکین پارلیمنٹ کو ان کے بارے میں آگاہ نہ کرنے پر شدید تحفظات کا اظہار کیا اور کہاکہ ان معاملات میں باہر ایسے لوگوں کو بھیج دیا جاتا ہے جن کا انسانی حقوق سے واسطہ تعلق نہیں ہوتا۔چیئرمین کمیٹی نے کہاکہ آئی پی یو کے اجلاس میں انسانی حقوق کے معاملے پر ایک ایسی خاتون سینیٹر نے نمائندگی کی جس کو انسانی حقوق کا ادراک تھا نہ اس سے کوئی تعلق تھا،یہی وجہ ہے کہ وہاں یہ سیٹ ہم سے بنگلہ دیش لے گیا،سیکرٹری انسانی حقوق اور وزارت خارجہ کے حکام نے بتایا کہ آئی پی یو پارلیمانی تنظیم ہے اور اس کیلئے وفود کے نام ہمیں سینیٹ اور قومی اسمبلی سیکرٹریٹ سے آتے ہیں۔کمیٹی اراکین نے کہاکہ عالمی کنونشنز کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے قانون سازی اراکین پارلیمنٹ نے کرنی ہے جبکہ اراکین کو ان کنونشن سے آگاہ ہی نہیں کیاجاتا،کمیٹی نے انسانی حقوق کی تازہ صورتحال پر اقوام متحدہ کیلئے تیار کی جانے والی رپورٹ پر بریفنگ کو یکسرمسترد کردیا اور ادھوری اور نامکمل رپورٹ پر سیکرٹری انسانی حقوق پر برہمی کااظہار کیا۔اجلاس کے دوران چیئرمین قومی کمیشن انسانی حقوق اور سیکرٹری انسانی حقوق کے درمیان جھڑپوں پر کمیٹی کی خاتون رکن زہرہ ودود نے کہاکہ بچوں کی لڑ رہے ہیں ایسا لگتا ہے جیسے ان کے درمیان ٹافی پر لڑائی ہورہی ہے۔چیئرمین کمیٹی نے کہا اگر انہیں پہلے سے علم ہوتا تو وہ اپنی گاڑی سے ٹافیاں لے کر اجلاس میں آتے۔انہوں نے آئندہ اجلاس میں کمیشن کے قانون کا مسودہ مانگ لیا ہے اجلاس میں وزارت خارجہ کے حکام نے انسانی حقوق کمیشن کی جانب سے انسانی حقوق کی صورتحال پر شیڈو رپورٹ کی تیاری کے معاملے پر تحفظات کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ کمیٹی کو اس شیڈورپورٹ کی تیاری و آگے بھجوانے کے طریقہ کار کاجائزہ لیناچاہیے۔چیئرمین قومی کمیشن کی مخالفت کے باوجود قائمہ کمیٹی نے آئندہ اجلاس میں کمیشن کے تمام اراکین کو بھی مدعوکرلیا ہے اسی طرح وزیرانسانی حقوق کو اجلاس میں شرکت کی ہدایت کی گئی ہے۔کمیٹی نے واضح کیا ہے کہ پاکستان کے وقار اور عزت کا معاملہ ہے مگر اقوام متحدہ نے نومبر2016میں پاکستان کو رپورٹ کی تیاری کیلئے خط لکھا تھا اور ایشوز کی فہرست بھی ارسال کی تھی مگر سرے سے یہاں تیاری ہی نظر نہیں آرہی۔اجلاس میں قومی انسانی حقوق کے کمیشن کے چیئرمین نے خود کو بے اختیار قراردے دیا اور کہا کہ اتنی اہم رپورٹ تیارہورہی ہے انہیں آگاہ ہی نہیں کیا گیا ہے اور جب وہ شیڈو رپورٹ تیار کرلیں گے تو اعتراضات شروع ہوجائیں گے،پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتحال پر ہم نے آزاد و خودمختار رپورٹ لکھنی ہے مگر واضح کردینا چاہتا ہوں کہ پاکستان میں کمیشن مضبوط ہی نہیں ہے جو کہ پیرس میں وضع کیے گئے اصولوں کے منافی ہے یہی وجہ ہے کہ یورپی یونین نے اپنی حالیہ رپورٹ میں پاکستان کے قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کو فعال کرنے کی سفارش کی ہے۔اجلاس کی کارروائی کے دوران سانحہ کوئٹہ پر بریفنگ کیلئے بلوچستان حکومت کے اعلیٰ حکام کو طلب کیا گیا تھا مگر چیف سیکرٹری سمیت کوئی بھی آفیسر اجلاس کیلئے آیا نہ رپورٹ بھجوانے کی زحمت گوارا کی۔قائمہ کمیٹی نے اتفاق رائے سے چیف سیکرٹری،سیکرٹری ہوم اور سیکرٹری صحت کی اجلاس میں شرکت کو یقینی بنانے کیلئے سمن جاری کرنے کی ہدایت کردی ہے۔اجلاس میں قومی کمیشن کے چیئرمین علی نوازچوہان نے بتایا کہ کمیشن نے کوئٹہ کا دورہ کیا تھا مگروزیراعلیٰ بلوچستان کمیشن کے اراکین سے نہیں ملے،ہم شہداء کے لواحقین اور حکام سے ملے سانحہ کوئٹہ انٹیلی جنس کی ناکامی تھا،جس پیٹرن پر حملہ ہوا وہ کامن پیٹرن تھا جو پہلے بھی اختیار کیا گیا اور یہ پیٹرن ہزارہ ٹرائپ کے لوگوں کے حملوں میں استعمال ہوچکاہے اگر اس قسم کے پیٹرن کا علم تھا تو سانحہ کو روکنے کے اقدامات کیوں نہیں کیے گئے،اس پر اسٹڈی تک نہیں کروائی گئی،ہماری فیٹ فائنڈنگ کے دوران یہ بھی علم ہوا کہ چمن کے لوگ اس طرح کے واقعات میں ملوث ہوتے ہیں جن کا پتہ نہیں چلایا گیا سانحہ کوئٹہ میں بلوچستان بار کے صدر پر حملہ ہوا تو بعد میں جب مجمع جمع ہوا تو فوٹیج میں ایک مشکوک شخص کو باربار دیکھا جاسکتا ہے مگر کسی نے اس کا نوٹس نہیں لیا،وی وی آئی پی مومنٹ کی وجہ سے شدید زخمیوں کیلئے خون کے عطیات تک نہیں پہنچنے دیئے گئے اور کئی زخمی علاج نہ ہونے کی وجہ سے جاں بحق ہوگئے،ہسپتال میں ڈاکٹرز تھے نہ گارڈ تھا بلکہ علاج معالجہ کے دوران بھی بعض ڈاکٹر ڈیوٹی چھوڑ کرچلے گئے تھے،سی ایم ایچ میں بھی تین سرجن تھے،ٹرامہ سنٹر میں سرے سے کوئی بھی موجود نہیں تھا،انسانی حقوق کمیشن نے حکومت اور تمام اداروں سے متعلق سوالات اٹھائے ہیں اور جوابات آنے تک رپورٹ کو حتمی شکل دی جائے گی کیونکہ اس سانحہ پر قاضی عیسیٰ فائز کی رپورٹ پر اعتراض کیا گیا ہے کہ انہیں سنا ہی نہیں گیا ہے۔واضح کردینا چاہتا ہوں کہ انسانی حقوق کمیشن کے پاس سول کورٹ کے اختیارات ہیں اگر سوالات کے جوابات نہ آئے تو اپنا آزادانہ اور یکطرفہ فیصلہ سنادیں گے اور آئندہ 15دنوں میں رپورٹ انسانی حقوق کمیٹی کو پیش کر دی جائے گی۔انہوں نے کہاکہ یہ بھی سوالات اٹھائے گئے ہیں کہ پولیس کے متعلقہ ٹریننگ سنٹر میں چاردیواری کیوں نہیں تھی اور مارے جانے والے تربیتی یافتہ اہلکاروں سے اسلحہ کیوں لے لیا گیا تھا اور دوروز قبل ان کی تربیت مکمل ہونے کے باوجود انہیں وہاں کیوں روکا گیا تھا۔جماعت اسلامی کے رکن صاحبزادہ یعقوب،تحریک انصاف کی منزہ اور دیگر خواتین اراکین نے کمیشن کی جانب سے رپورٹ کی تیاری میں تاخیر پر شدید تحفظات کا اظہار کیا اور کہا کہ یقیناً کمیشن کو آزادی وخودمختاری سے کام کرنے کااختیار حاصل ہے مگر کمیشن بھی رپورٹ کی بروقت تیاری میں ناکام رہا ہے۔آئندہ اجلاس میں یہ رپورٹ ہر صورت پیش کی جائے۔